موسمی آفتیں: فولاد کی تاریخ

پانچواں باب (2)

فولاد کی تاریخ کوئی چار ہزار سال پیچھے تک جاتی ہے۔ حیران کردینے والی ایجادات کا طویل سلسلہ ہے جو’لوہے کے دور‘ سے آج تک چلا آتا ہے۔ کچھ ایسی چیزیں ہیں کہ جنہیں سمجھنے کی ہمیں ضرورت ہے۔ ہم فولاد پسند کرتے ہیں کیونکہ مضبوط ہوتا ہے اورگرم حالت میں آسانی سے ڈھالا جاسکتا ہے۔ فولاد سازی کے لیے خالص لوہے اور کاربن کی ضرورت ہوتی ہے۔ کاربن کے ایٹم لوہے کے ایٹمی ذرات میں مدغم ہوجاتے ہیں، اور مضبوط فولاد تیار ہوکر سامنے آجاتا ہے۔
کاربن اور لوہے کی تلاش مشکل نہیں۔ کاربن کوئلے سے حاصل کیا جاسکتا ہے، اور لوہا عام زمینی عنصر ہے۔ لیکن خالص لوہا کمیاب ہے۔ جب تم زمین کھود کر دھات نکالتے ہو، اکثر اس میں آکسیجن اور دیگرعناصر شامل ہوتے ہیں۔ اس آمیزش کو’خام لوہا‘ کہتے ہیں۔ فولاد بنانے کے لیے لوہے سے آکسیجن علیحدہ کی جاتی ہے، اورتھوڑا سا کاربن شامل کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں کام بہ یک وقت کیے جاسکتے ہیں، خام لوہا انتہائی درجۂ حرارت پر پگھلایا جائے (سترہ ہزار ڈگری سیلسئیس پر)۔ اس درجۂ حرارت پر خام لوہا آکسیجن خارج کردیتا ہے، اور کوک (کوئلے کی کاربنائزیشن کے دوران حاصل ہونے والا گاڑھا مادہ) اپنی کاربن خارج کرتا ہے۔ تھوڑے سے کاربن سے مل کر لوہا فولاد بن جاتا ہے۔ باقی کی کاربن آکسیجن سے مل جاتی ہے، جو ہمیں نہیں چاہیے:کاربن ڈائی آکسائیڈ۔ ایک ٹن فولاد کی تیاری میں 1.8 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔
ہم کیوں فولاد اسی طریقے سے بناتے ہیں؟ کیونکہ یہ سستا طریقہ ہے، اور جب تک ماحولیاتی تبدیلی ہمیں مجبور نہ کردے، ہم اسی طریقے پر مائل رہیں گے۔ خام لوہا حاصل کرنا آسان اور سستا ہے، جبکہ کوئلہ حاصل کرنا مشکل اور مہنگا ہے۔ اسی طریقے پر2050ء تک دنیا 2.8 ارب ٹن فولاد تیار کررہی ہوگی، اور یہ سالانہ پانچ ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل کررہی ہوگی۔ یہاں تک کہ ہم اس کام کے لیے کوئی ماحول دوست طریقہ ڈھونڈ لیں۔
یہ کام اتنا مشکل نہیں جتنا لگ رہا ہے۔ کنکریٹ کی تیاری اس سے زیادہ مشکل کام ہے۔ اسے تیار کرنے کے لیے بجری، ریت، پانی اور سیمنٹ ملایا جاتا ہے۔ پہلے تینوں عناصر نسبتاً مفید ہیں، مگر سیمنٹ ماحول کے لیے مسئلہ ہے۔ سیمنٹ بنانے کے لیے کیلشیم چاہیے ہوتی ہے۔ کیلشیم کے لیے ہم سب سے پہلے چونا لیتے ہیں، اس میں کیلشیم کاربن اور آکسیجن شامل ہوتے ہیں۔ جب آپ اسے جلاتے ہیں تو کیلشیم حاصل ہوتا ہے جوسیمنٹ میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک اور چیز جو ہمیں نہیں چاہیے وہ بھی اس عمل میں خارج ہوتی ہے: کاربن ڈائی آکسائیڈ۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کے سوا سیمنٹ تیار کرنے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے! یہ ایک کیمیائی ردعمل ہے، چونا پلس حدت برابر کیلشیم آکسائیڈ پلس کاربن ڈائی آکسائیڈ۔ اورکوئی دوسرا رستہ سیمنٹ تک نہیں جاتا۔ ایک ٹن سیمنٹ تیار کرنے کے لیے ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ درکار ہوتی ہے۔ اور فولاد کی مانند، یہ خیال کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ سیمنٹ کی تیاری روک دی جائے۔ چین سب سے زیادہ سیمنٹ تیار کرتا ہے۔ تاہم 2050ء تک دنیا کی سالانہ سیمنٹ پیداوار میں زیادہ اضافہ نہیں ہوگا، چین نے اونچی عمارتوں کی تعمیر کم کردی ہے۔
اگر فولاد اور سیمنٹ سے موازنہ کیا جائے تو پلاسٹک کی تیاری خاصی کم ہے۔ 1950ء تک نیچرل پلاسٹک استعمال ہوتی رہی، جیسے ربر صدیوں سے استعمال ہورہی تھی۔ پھر کیمیائی انجینئرنگ میں ترقی سے پلاسٹک کی دو درجن اقسام وجود میں آئیں، اورpolypropylene، acrylic، nylon، اورpolyester نمایاں ہوکرسامنے آئے۔ ان ساری پلاسٹکس میں ایک بات مشترک ہے۔ یہ سب کاربن کی حامل ہیں۔ کاربن ایک بار پھر مختلف اشیا کی تیاری میں مفید نظرآرہا ہے۔ پلاسٹک کے معاملے میں یہ عام طورپر ہائیڈروجن اور آکسیجن کا حامل ہوتا ہے۔
تم شاید یہ جان کر تعجب نہ کرو کہ پلاسٹک تیار کرنے والی کمپنیاں کاربن کہاں سے حاصل کرتی ہیں۔ یہ تیل، کوئلہ، قدرتی گیس اور پھر مختلف پراڈکٹس کے ریفائن کرنے سے (خالص بنانے سے) حاصل ہوتا ہے۔ یہ عمل وضاحت کرتا ہے کہ پلاسٹک کی تیاری کیوں سستی پڑتی ہے۔ سیمنٹ اور فولاد کی طرح پلاسٹک بھی سستی ہے کیونکہ قدرتی ایندھن سستا ہے۔
تاہم ایک معاملے میں پلاسٹک فولاد اور سیمنٹ سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ جب ہم فولاد یا سیمنٹ تیار کرتے ہیں تو کاربن ڈائی آکسائیڈ ناگزیر طور پر خارج کرتے ہیں۔ مگر جب ہم پلاسٹک بناتے ہیں تو نصف کاربن پلاسٹک میں ہی رہ جاتا ہے۔ یہاں کاربن آکسیجن اور ہائیڈروجن کے ساتھ منسلک رہ جانا پسند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک صدیوں میں کہیں جاکر خراب ہوتی ہے۔ وہ کاربن ایٹم جوپلاسٹک میں شامل ہوجاتے ہیں، ماحولیات پر اثرانداز نہیں ہوتے، اور نہ ہی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
یہاں میں ان ہی تین اہم پراڈکٹس پراکتفا کررہا ہوں۔ کھاد، شیشہ، کاغذ، ایلومینیم اور دیگر اشیا کا ذکرحذف کررہا ہوں، کیونکہ ان کے معاملے میں بھی بنیادی نکات وہی ہیں۔
ہم بہت ساری اشیاء کی بہت بڑے پیمانے پر صنعت سازی کرتے ہیں۔ اس طرح بہت بڑی مقدار میں کاربن خارج کرتے ہیں۔ یہ تقریباً اکیاون ارب ٹن کاربن کا ایک تہائی بنتا ہے۔ ہمیں اس اخراج کو صفر پر لے جانا ہے۔ مگر یہ بالکل بھی آسان نہیں۔
ہمیں مذکورہ اشیا کی تیاری میں متبادل طریقوں کی جانب جانا ہوگا۔ گرین پریمیم پر نظر کرنی ہوگی۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کس طرح ٹیکنالوجی پریمیم کوکس قدر نیچے لے جاتی ہے، تاکہ ہرکوئی صفر اخراج کی طرف قدم بڑھانا چاہے۔
اشیاء پر پریمیم کی صورت سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہوگا کہ اشیامیں اخراج کی کیا صورت ہے۔ میں انہیں تین مراحل میں دیکھتا ہوں:
بقیہ: فولاد کی تاریخ/بل گیٹس/ترجمہ: ناصر فاروق
(1) جب ہم بجلی کی پیداوار کے لیے قدرتی ایندھن استعمال کرتے ہیں، کہ جو کارخانوں کوچلانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
(2) جب ہم قدرتی ایندھن اُس حدت کو پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جواشیاکی تیاری میں مدد کرتی ہے۔
(3)جب ہم سیمنٹ وغیرہ بناتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ بنتی ہے۔
ان سب کا باری باری جائزہ لیں کہ آیا یہ کس طرح گرین پریمیم میں حصہ لیتی ہیں۔
پہلے مرحلے میں بجلی ہے۔ درحقیقت اکثر کارخانوں کو چوبیس گھنٹے بجلی درکار ہوتی ہے۔ صاف ستھری بجلی کی پیداوار کی لاگت ایسی صورت میں بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ دوسرا مرحلہ، ہم کس طرح قدرتی ایندھن جلائے بغیر حدت پیدا کرسکتے ہیں؟ اگر تمہیں بہت زیادہ درجہ حرارت کی ضرورت نہیں تو الیکٹرک ہیٹ پمپ اور دیگر ٹیکنالوجی استعمال کرسکتے ہو۔ لیکن جب تم ہزاروں ڈگری کی حدت حاصل کرنا چاہو گے، بجلی کی پیداوار کم خرچ نہ ہوگی۔ ایسی صورت میں نیوکلیئر پاور یا قدرتی ایندھن سے کاربن اخراج مٹانے کے لیے carboncapture ڈیوائسز استعمال کرنی ہوں گی۔ لیکن یہ طریقہ بھی سستا نہیں ہوگا۔ اور پھر تیسرا مرحلہ، ہم اُس پیداواری عمل کے معاملے میں کیا کرسکتے ہیں جو براہِ راست صنعت سازی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے۔ یاد رکھو، فولاد سازی اور سیمنٹ کی تیاری سے کاربن خارج ہوتا ہے، نہ صرف قدرتی ایندھن جلانے سے بلکہ کیمیائی تعاملات سے بھی یہ پیدا ہوتا ہے۔ اب ان پیداواری مراکز کو بند کردینے سے ہم کاربن اخراج کے مسئلے سے نکل نہیں سکتے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھی ہمارے طریقے محدود رہیں گے۔ ہمیں کاربن کیپچر ڈیوائسز استعمال کرنی ہوں گی، مگر یہ مہنگی پڑیں گی۔ لہٰذا ہمیں ان سب طریقوں میں کم سے کم خرچ کے لیے نئی ایجادات پرکام کرنا ہوگا۔
ان تینوں مراحل کو ذہن میں رکھتے ہوئے گرین پریمیم پر نظرکرنی ہوگی، کہ آیا ڈیوائسز کے ذریعے صاف پلاسٹک، فولاد، اور سیمنٹ کیسے تیار کیے جاسکتے ہیں۔ سیمنٹ کو چھوڑ کر باقی اشیاء میں یہ لاگت بہت زیادہ نہیں لگ رہی۔ چند معاملات میں تو صارف پر بالکل بھی بوجھ نہیں پڑے گا۔
ماہرین دیگر کئی آئیڈیاز پر بھی کام کررہے ہیں جو سیمنٹ اور دیگر اشیاء کی تیاری میں کاربن کا عمل دخل ختم یا کم سے کم کرنے میں معاون ہوں۔ اس کی ابتدا صفر کاربن بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار سے ہوسکتی ہے، کہ جو ہم اس وقت بھی کم سے کم لاگت میں زیادہ سے زیادہ پیدا کررہے ہیں۔ ہمیں بجلی کا استعمال بڑھانا اور قدرتی ایندھن کا استعمال گھٹانا ہوگا۔ ہم پلاسٹک کی تیاری میں بھی صفر کاربن اخراج تک کا سفر طے کرسکتے ہیں۔
نتیجے کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بجلی کا استعمال ہر پیداواری عمل میں ممکن ہے۔ اس کے طریقوں میں جدت بہت مددگار ہوگی۔ اس کے پاور گرڈ سے حصول میں زیادہ سے زیادہ ڈی کاربنائزیشن ممکن بنانی ہوگی۔ کاربن کو فضا سے جذب کرنے کے لیے ڈیوائسز استعمال کرنی ہوں گی۔