لاہور:این اے 133 کا انتخابی نتیجہ اور پیپلز پارٹی کی سیاست

لاہو رکے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کی جیت یقینی تھی اس لیے جو نتیجہ سامنے آیا وہ غیر متوقع نہیں تھا ۔ لیکن اس ضمنی انتخاب میں ووٹروں کے ٹرن آئوٹ میں قابل غور ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات 51.89فیصد کے مقابلے میں محض 18.59 فیصدنے ووٹ ڈال کر نہ صرف جیت بلکہ مجموعی طور پر پورے انتخابی عمل کو پھیکا بنادیا ہے ۔ٹرن آئوٹ میں کمی کی ایک بڑی وجہ پنجاب میں جاری مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں براہ راست مقابلہ نہ ہونا تھا ۔ پی ٹی آئی کو اس انتخاب میں قانونی اورتکنیکی بنیاد پر انتخابی عمل سے باہر رکھا گیا اور اس کی بڑی ذمہ داری بھی خود پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت پر آتی ہے ۔دو بڑے سیاسی حریفوں میں مقابلہ نہ ہونے کی وجہ سے بھی اس ضمنی انتخاب میں وہ گرم جوشی پیدا نہیں ہوئی جو عمومی طور پر سیاسی جنگ میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔پی ٹی آئی کی عدموجودگی کی وجہ سے انتخاب ماضی کے بڑے سیاسی حریف مسلم لیگ ن او رپیپلزپارٹی میں ون ٹو ون یعنی براہ راست تھا۔
سوال یہ ہے کہ اس بار بہت زیادہ کم ٹرن آوٹ کی کیا سیاسی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ اول ممکن ہے کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے پارٹی ٹکٹ کی بنیاد پر پارٹی میں تقسیم تھی او راسی بنیاد پر مسلم لیگ ن نے انتخابی مہم میں وہ گرم جوشی نہیں دکھائی جو عمومی طور پر ان کی سیاست کا حصہ ہے یا مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی کے امیدوار کی عدم موجودگی میں اس مقابلہ کو بہت زیادہ سنجیدہ نہیں لیا او ران کا خیال تھا کہ یہ مقابلہ ہم نے میچ سے قبل ہی جیت لیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے ووٹروں کو موبلائز کرنے میں وہ کردار ادا نہیں کیا جو ان کو کرنا چاہیے تھا او راس کا عملی نتیجہ کم ٹرن آئوٹ کی صورت میں نکلا۔سوئم ووٹروں نے بھی یہ سمجھ لیا تھا کہ یہ مقابلہ یک طرفہ ہے اور ووٹ نہ ڈالنے کی وجہ یہ عمل بھی ہوسکتا ہے یا ووٹر مسلم لیگ ن کی داخلی لڑائی سے بھی نالاں ہے ۔دوئم مجموعی طور پر ووٹرموجودہ انتخابی عمل ، سیاست ، جمہوریت اور سیاست دانوں سے نالاں ہے او راس نے اس ردعمل کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے سے گریز کیا ہے ۔سوئم پی ٹی آئی کی جانب سے یہ مہم چلائی گئی میں ان کی عدم موجودگی کے باعث ووٹرز اس انتخاب کا بایکاٹ کریں اور کسی کو بھی ووٹ نہ ڈالیں ۔
اس حلقہ انتخاب میں ووٹوں کی کل تعداد چار لاکھ چالیس ہزار چار سو پچاسی تھی ۔2018کے ضمنی انتخاب میں یہاں 1,92,878ووٹ ڈالے گئے تھے جبکہ اس بار ضمنی انتخاب میں کل ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد80ہزار کے قریب تھی ۔2018کے عام انتخاب میں این اے 133سے پرویز ملک نے 89,699ووٹ جبکہ پی ٹی آئی کے اعجاز چوہدری نے 77,293کے قریب ووٹ لیے ۔ اسی طرح پی پی پی کو یہاں سے 5,585اور تحریک لبیک کو 21000کے قریب ووٹ ملا ۔ لیکن اس ضمنی انتخاب کو دیکھیں تو یہاں نتائج میں مسلم لیگ ن کی اہم راہنما شائستہ پرویز ملک کو 46,811جبکہ پیپلزپارٹی کے چوہدری اسلم گل کو 32313ووٹ ملے ہیں ۔اس طرح مسلم لیگ ن کو43ہزار ووٹ کم ملے ہیں ۔جبکہ پیپلزپارٹی نے حیران کن طور پر 32,313ووٹ حاصل کرکے سیاسی میدان میں موجود پی ٹی آئی کی عدم موجودگی کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھاکر خود کو پنجاب کی سیاست میں اپنی سیاسی بحالی سے جوڑا ہے ۔حالانکہ پیپلز پارٹی کو جوبڑی تعداد میں ووٹ ملا ہے اس کی اہم وجوہات میں مسلم لیگ ن کے مقابلے میں جاندار مہم ، روپے پیسے کا بے دریغ استعمال ، ووٹوں کی خرید وفروخت ،پی ٹی آئی کی عملا عدم موجودگی اور اینٹی مسلم لیگ ن ووٹ جس میں عوامی تحریک کا ووٹ بھی شامل تھا ۔
عمومی طور پر ضمنی انتخاب کے بارے میں یہ منطق یہ دی جاتی ہے کہ ان میں ووٹ ڈالنے کی شرح عمومی طور پر کم ہوتی ہے۔ مگر پنجاب میں ڈسکہ اور سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب بالترتیب این اے 75اور پی پی 35میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح کافی حد تک شاندار تھی ۔ ڈسکہ میں مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار نے ایک لاکھ نو ہزار جبکہ پی ٹی آئی نے 93ہزار ووٹ حاصل کیے ۔ اسی طرح سیالکوٹ میںپی ٹی آئی کے احسن سلیم بریال نے ساٹھ ہزار سے زیادہ ووٹ لیے جبکہ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن نے 53ہزار ووٹ حاصل کیے ۔بنیادی طور پر ووٹ ڈالنے کی شرح میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ جاندار یا زور دار انتخابی مہم میں موجود جوش و خروش ہوتاہے ۔یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کی عدم موجودگی پر بھی ان کے حامی ووٹرز گھر سے نہیں نکلے اور اس کا نتیجہ کم ٹرن آوٹ کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔کیونکہ پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت جن میں اعجاز چوہدری اور جمشید اقبال چیمہ آخری وقت تک ووٹ نہ ڈالنے کی مہم چلاتے رہے ۔یہ ان تین برسوںمیں پنجاب میں ہونے والے تمام ضمنی انتخاب کا سب سے کم ٹرن آوٹ تھا۔
اگرچہ مسلم لیگ ن یہ مقابلہ جیت گئی ہے لیکن ووٹوں کی تعداد میں کمی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے او راسے محض کم ٹرن آوٹ کی بنیاد پر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔کیونکہ اس ضمنی انتخاب میں جیت کے باوجود مسلم لیگ ن کی داخلی پالیسیوں میں کافی اختلافات دیکھنے کو ملے ہیں اور ووٹوں کی تعداد میں کمی کی دیگر وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے ۔اسی حلقہ سے مسلم لیگ نے کے بیشتر کونسلرز جن سے گفتگو ہوئی ان کے بقول کم ووٹوں کی بڑی وجہ پارٹی قیادت کے دو بیانیہ اور پارٹی کی تنظیمی معاملات میں عدم دلچسپی ہے ۔ان کے بقول سیاسی کارکنوں کو پارٹی کی اعلی قیادت تک نہ رسائی ہے او رنہ ہی مقامی قیادت کی پارٹی کے معاملات میں کوئی دلچسپی ہے۔
جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے بہت سے لوگ اس کامیابی کو مستقبل کے لیے ایک بڑی کامیابی اور پنجاب کی سیاست میں ان کو ایک بڑے متبادل قیادت کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کے بقول پنجاب میں پیپلزپارٹی کی سیاسی واپسی شروع ہوگئی ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پنجاب میں ایک ضمنی انتخاب کے نتیجہ کو بنیاد بنا کر وہ بھی تحریک انصاف کی عدم موجودگی پر اس کی سیاسی واپسی کی بات ممکن نظر نہیں آتی ۔ اگر اسی حلقہ میں تحریک انصاف میدان میں ہوتی تو کیا پیپلز پارٹی دوسری پوزیشن یا اتنی بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرسکتی تو یقینا جواب نفی میں ہوگا۔پنجاب میں آج بھی بڑی سیاسی قوت مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ہیں ۔ اس کے بعد2018کے انتخاب میں ایک بڑا حیران کن نتیجہ تحریک لبیک کی تیسری پوزیشن کی صورت میں سامنے آیا تھا ۔یہ تجزیہ بھی موجود ہے کہ تحریک لبیک کے ووٹ بینک میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے ۔ اس لیے 2023کے انتخاب میں ہم تیسری قوت کے طور پر تحریک لبیک کو نظرانداز نہیں کرسکیں گے ۔کم ازکم سنٹرل پنجاب میں یہ ہی صورتحال غالب ہے ۔2013اور2018کے انتخابات اور دیگر ضمنی انتخابات کے بعد یہ پہلا ضمنی انتخاب ہے جہاں پہلی بار مسلم لیگ او رپیپلزپارٹی ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔
اس لیے مسلم لیگ ن کے مقابلے میں جو اینٹی مسلم لیگ ن ووٹ ہے ان کے پاس اس ضمنی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے لیے پیپلزپارٹی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا ۔ جبکہ اینٹی مسلم لیگ ن کی بڑی جماعت اس وقت عملی طور پر تحریک انصاف ہی ہے ۔پیپلز پارٹی نے تو گذشتہ بارہ تیرہ برسوں میں مسلم لیگ ن کے ساتھ سیاسی رومانس کرکے اپنا سیاسی مقدمہ ہی کمزور کیا ہوا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اینٹی مسلم لیگ ن او راینٹی پیپلز پارٹی کی سیاست عمل طور پر پی ٹی آئی کے پاس ہی بدستور موجود ہے او ریہ دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن او رپیپلزپارٹی حقیقی معنوں میں اینٹی عمران خان سیاست کا حصہ ہیں ۔اس لیے پنجاب میں فی الحال ایک بڑی جنگ ہمیں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان ہی نظر آتی ہے ۔البتہ اس میں تحریک لبیک کس حد تک کس جماعت اور ووٹ بینک کو خراب کرتی ہے اس کا اندازہ عام انتخابات کے نتائج میں نمایاں طو رپر دیکھنے کو ملے گا۔لیکن کیا پیپلزپارٹی واقعی حالیہ نتیجہ کی بنیاد پر پنجاب کی سطح پر اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکے گی ، مشکل نظر آتا ہے ۔