کشمیر: انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز کی گرفتاری

 اقوام متحدہ نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے معروف علَم بردار خرم پرویز کی گرفتاری اور خلافِ قانون حراست پر شدید احتجاج کیا ہے اور بھارتی حکومت سے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ دنیا کے دوسرے ملکوں میں انسانی حقوق سے وابستہ اداروں اور شخصیات نے بھی بھارت سے خرم پرویز کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارتی حکومت نے خرم پرویز کی گرفتاری پر تاحال پراسرار خاموشی اختیار کررکھی ہے اور خطرہ ہے کہ انہیں حراست میں ہی نقصان نہ پہنچادیا جائے۔ بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی نے کشمیر میں انسانی حقوق کے عالمی شہرت یافتہ کارکن خرم پرویز کو گھر سے گرفتار کیا تھا۔ خرم پرویز کو کالے قانون یواے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ بھارتی فوجی ان کا لیپ ٹاپ، ٹیلی فون اور کئی کتابیں بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اس کالے قانون کے تحت ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کرکے بھارت کی دور دراز جیلوں میں بند رکھا گیا ہے۔ خرم پرویز کشمیر میں انسانی حقوق اور سول رائٹس کی سب سے مضبوط علامت ہیں۔ انہوں نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات کی ڈاکومنٹیشن میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کمیشن نے کشمیر میں بھارتی فوج کی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر مبنی جو دو اہم رپورٹس جاری کی تھیں اُن کی تیاری میں خرم پرویز کا کردار نمایاں تھا۔ کشمیر میں گمنام قبروں کی دریافت اور گم کردہ افراد کی تفصیلات جمع کرنا خرم پرویز کا کارنامہ ہے۔2004ء میں خرم پرویز اپنے اسی فرض کی ادائیگی کے دوران ایک بارودی سرنگ کا شکار ہوکر شدید زخمی ہوئے۔ اس حادثے میں اُن کی ٹانگ کٹ گئی۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنا راستہ بدلنے سے انکار کردیا، اور اپنی مظلوم قوم کی داستانِ غم دنیا تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ اس لیے خرم پرویز کا کام اور وجود بھارتی فوج کی نظروں میں کھٹکتا رہا ہے۔ 2016ء میں جب خرم پرویز ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے سوئٹزرلینڈ جارہے تھے تو انہیں دہلی ائرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ 76دن تک خرم پرویز قید رہے اور اس دوران انسانی حقوق سے متعلق تمام اداروں نے اُن کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کی گرفتاری پر رپورٹس بین الاقوامی میڈیا میں آنے لگیں، اور اس دبائو کے نتیجے میں بھارتی فوج کو خرم پرویز کو رہا کرنا پڑا۔ خرم پرویز کی گرفتاری کے خلاف کشمیر اور عالمی سطح پر بھی احتجاج ہونے لگا ہے۔ سری نگر بار ایسوسی ایشن نے خرم پرویز کو بے آوازوں کی آواز دبانے کی کوشش قرار دیا۔ بھارت کشمیر کو ایک مقتل بنا چکا ہے اور مقتل بھی ایسا جو کوہ قاف سے پرے ہے، جسے آہنی پردوں اور دیواروں کے پیچھے چھپا دیا گیا ہے، جہاں نہ تو کسی بین الاقوامی اور آزاد ذریعے کا گزر ہے اور نہ ہی وہاں سے کوئی آہ باہر آسکتی ہے۔ ایسے میں خرم پرویز کا وجود غنیمت تھا، مگر بھارت کشمیر کی اس آخری آواز کو بھی برداشت نہ کرسکا اور خرم پرویز کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہ خطرے کی ایک نئی گھنٹی ہے، لگتا ہے کہ بھارت کشمیر میں کسی بڑے جنگی جرم کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ خرم پرویز کی گرفتاری اُس وقت ہوئی جب چند دن قبل ہی بھارتی فوج نے ایک فیک انکائونٹر میں چار بے گناہ کشمیریوں کو شہید کردیا تھا اور ان کی لاشیں گھروں سے دور گمنام قبروں میں دفن کردی گئی تھیں۔ کشمیر کی سول سوسائٹی نے کئی دن تک پُرزور اور پُرشور احتجاج کیا جس کے نتیجے میں بھارتی فوج کو دو معصوم افراد کی لاشیں قبروں سے نکال کر لواحقین کے حوالے کرنا پڑیں، اور تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کی گئی۔ یہ اس واقعے پر بھارتی فوج کے مؤقف کی شکست اور پسپائی تھی۔ اس خفت کے فوراً بعد خرم پرویز کی گرفتاری معنی خیز ہے۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی ٹی وی چینل ’’آج تک‘‘ کو دئیے گئے خصوصی انٹرویو میں نریندرمودی اور امیت شاہ کے ’’نیا کشمیر‘‘ کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ محبوبہ مفتی نے کشمیر میں بھارتی مظالم کی تصویریں چلوا کر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کشمیر میں نیا کچھ نہیں سوائے اس کے کہ بھارتی مظالم میں زیادہ شدت اور سختی آگئی ہے۔ محبوبہ مفتی نے خاتون اینکر کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ نیا کشمیر ہے جہاں اٹھارہ ماہ کا بچہ سرما کی ٹھٹھرتی رات میں اپنے باپ کی لاش کا مطالبہ کررہا ہے، ایک خاتون خاوند کی لاش مانگ رہی ہے اور ایک باپ اپنے بیٹے کے قتل کی تحقیقات کے بجائے صرف اس کی لاش کی بھیک مانگ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نیا کشمیر نہیں بلکہ گوڈسے کا کشمیر تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ گوڈسے بھارتی ہندو انتہا پسندوں کا ہیرو اور گاندھی کا قاتل ہے۔ محبوبہ مفتی نے ایک اور سوال کے جواب میں میڈیا پر پابندیوں اور بندشوں کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ میڈیا وہی دکھا رہا ہے جو مودی حکومت دیکھنا اور بیان کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کی باتوں سے بھی اعلانِ برات کیا اور کہا کہ حیدرپورہ سری نگر میں فوج کی طرف سے مارے جانے والوں میں سے ایک کو اپر گرائونڈ ملی ٹینٹ کہا گیا، دوسرے کو ہائبرڈ اور تیسرے کو وائٹ کالر ملی ٹینٹ قرارد ے کر معاملہ ختم کیا گیا ۔تحقیقات سے ماضی میں کچھ ہوا ہے نہ اب ہوگا۔اینکر نے جب اُن سے کشمیر میں امن کے دعووں اور تشدد کم ہونے کی بات کی تو محبوبہ مفتی نے کہا کہ کھانسی کا علاج منہ پر پٹی باندھنے سے نہیں ہوتا ،جس پر اینکر نے پوچھا کہ کیا یہ امن منہ پر پٹی باندھ کر قائم کیا گیا ہے؟تو انہوں نے اس کا اثبات میں جواب دیا اور کہا: ہاں یہ منہ پر پٹی باندھ کر کھانسی روکنے کی کوشش ہے ۔پرابلم اپنی جگہ موجودہے ۔اگر واقعی کشمیر میں امن قائم ہو چکا ہے تو فوج کی تعداد میں مسلسل اضافہ کیوں جا رہا ہے ؟کشمیر کے طول وعرض میں نئے بنکر کیوں قائم کیے جارہے ہیں؟چند سو عسکریوں کے مقابلے کے لیے اتنی بڑی تعداد میں فوج جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوںنے کہا کہ کچھ دن پہلے مودی نے کشمیر کے ایک گائوں پنسل کی تعریف کی تھی جہاں پنسلیں تیار کرکے برآمد کی جاتی ہیں۔اب اسی گائوں میں بنکر بنانے کے لیے لوگوں سے زمینیں چھینی جا رہی ہیں۔یوں محبوبہ مفتی نے بھارت کے دعووں کو انہی کے میڈیا میں جھوٹ اور ڈھکوسلہ ثابت کیا ۔اس سے پہلے بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک انٹرویو میںاعلان کیا تھا کہ کشمیر میں امن قائم ہو رہا ہے، اور یہ کہ کشمیر میں ریاستی درجہ بحال نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے پہلے حد بندی اور انتخابات ہوں گے۔کشمیر میں پانچ اگست کا بھارتی فیصلہ اب اعصاب کی جنگ بن کر رہ گیا ہے ۔کسان تحریک کے نتیجے میں مودی کے ٹوٹتے ہوئے حوصلوں اور سرِعام معافی مانگنے نے کشمیری سیاست دانوں کے حوصلے بڑھا دئیے ہیں اور وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ سفارتی تعلقات ختم کرنے کے ذریعے پاکستان کے بیرونی دبائو کے ساتھ ساتھ اگر کشمیری سیاست دان بھی سخت لائن اپنائے رکھیں تو بھارت کے حوصلے کسان تحریک کی طرح توڑے جا سکتے ہیں۔