گلوبل گیٹ وے منصوبہ:چین سے نمٹنے میں یورپ کتنا کامیاب رہے گا؟

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چین اور مغرب کے مابین مسابقت بڑھتی جارہی ہے۔ امریکہ اور یورپ اب واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ عالمی سیاست و معیشت میں اُن کی پوزیشن کے لیے حقیقی اور سب سے بڑا خطرہ صرف چین ہے۔ چین بھی اب کھل کر میدان میں آچکا ہے۔ وہ تجارت سے شروع ہوا تھا اور اب سرمایہ کاری، سیاست اور اسٹرے ٹیجک معاملات میں بھی طاقت کا مظاہرہ کرنے سے نہیں چُوک رہا۔ ایسے میں امریکہ سے زیادہ خطرہ یورپ کو لاحق ہے، کیونکہ افریقا کے طول و عرض میں چین کی سرمایہ کاری کا دائرہ پھیل چکا ہے۔ افریقا کے قدرتی وسائل پر چین کا تصرف یورپ کو اپنے وجود کے لیے واضح خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ ایسے میں یورپی حکمرانوں کا پریشان ہونا اور چین سے مسابقت کی بھرپور تیاری کے بارے میں اقدامات کی طرف آنا فطری امر ہے۔ بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد سے شایع ہونے والے گجراتی زبان کے اخبار ’’لوک سَتّا۔جَن سَتّا‘‘ نے چین اور یورپ کے درمیان مسابقت کا جائزہ لیا ہے۔
چین نے تجارت کا دائرہ پوری دنیا میں پھیلانے کے ساتھ ساتھ اُس پر اپنا کنٹرول یقینی بنانے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ انشیئٹیو شروع کیا جس کا مقصد دنیا بھر میں تجارتی راستوں اور راہ داریوں کو فروغ دینا تھا۔ چین کا یہ عظیم منصوبہ تمام بڑی طاقتوں کی راتوں کی نیند اڑانے کے لیے کافی تھا۔ یورپ کو بھی فکر لاحق ہوئی کہ کہیں تجارت پر اُس کی اجارہ داری مکمل ختم ہوکر نہ رہ جائے۔ اب اُس نے سرمایہ کاری کے ایک عالم گیر منصوبے کی تیاری کی ہے۔ مقصد چین کو منہ دینا اور دنیا کو بتانا ہے کہ امریکہ اور یورپ نے ابھی چین کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ اس منصوبے کے تحت یورپ توانائی، ماحول، ڈیجیٹلائزیشن اور نقل و حمل کے ذرائع کو خاص اہمیت دے گا۔ چین کے مجوزہ منصوبے کو افریقا اور دیگر خطوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات محدود کرنے کے تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے۔
یورپ میں چین کی سرمایہ کاری اب مونٹی نیگرو تک پہنچ گئی ہے۔ یورپین کمیشن کے سربراہ اُرسلا وان ڈیرلیئن نے یورپ کا گلوبل گیٹ وے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ یورپی یونین اس امر کا جائزہ لے رہی ہے کہ اُس کے رکن ممالک کس طور سرمایہ کاری، تجارت اور صنعتی عمل سے اربوں یورو کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ستمبر میں اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اُرسلا وان ڈیرلیئن نے کہا کہ ہم دنیا بھر میں اعلیٰ درجے کے بنیادی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کو مساوی بنیاد پر اشیا و خدمات تک رسائی حاصل ہو۔ اس حوالے سے جاری کی جانے والی 14 صفحات کی دستاویز میں یورپی یونین نے اپنے منصوبے کو چین سے مقابلے کی ایک باضابطہ کوشش قرار دینے سے گریز کیا ہے۔ اس حوالے سے یورپ بھر میں سرکاری سطح پر جاری مباحث میں بھی چین کے ذکر سے گریز کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ جرمنی کے مارشل فنڈ کے معروف ٹرانس اٹلانٹک فیلو اینڈریو اسمال کہتے ہیں کہ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اگر بیلٹ اینڈ روڈ انشئیٹیو نہ ہوتا تو گلوبل گیٹ وے کا منصوبہ بھی نہ ہوتا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یورپ کا یہ منصوبہ ترقی پذیر اور پس ماندہ دنیا کے اُن ممالک کے لیے ترقی کرنے کا متبادل موقع ہے جو چین سے قرضے لینے پر مجبور ہیں۔ اب اُن کے پاس ایک اچھا متبادل ہوگا۔ یہ چین سے نمٹنے کے سلسلے میں یورپ کی پہلی سنجیدہ کوشش ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ چین کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ رہا ہے۔ اس کے ذریعے وہ نئی سڑکوں، ریلوے ٹریک، پُلوں اور بندرگاہوں میں سرمایہ کاری کرکے متعلقہ ممالک میں اور اُن کے ذریعے تجارت کا دائرہ وسیع کرتا جارہا ہے۔ چین کی یہ حکمت ِ عملی ایشیا، انڈو پیسفک، افریقا اور یورپ کے بعض علاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ چین کے اس منصوبے کو قرضوں کا جال بھی قرار دینے سے گریز نہیں کیا جارہا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ معاملہ اِس سے بھی زیادہ سنگین ہے، کیونکہ بہت بڑے قرضے لینا پورے ملک یا خطے کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ چین متعلقہ ممالک کی وہ یکساں نوعیت کی ضرورتیں پوری کررہا ہے جو دیگر ترقی یافتہ ممالک پوری نہیں کرتے۔ خیر، یہ حقیقت تو اب سب کے سامنے ہے کہ دنیا بھر میں چین کی سرمایہ کاری اور اسٹرے ٹیجک موجودگی بڑھ رہی ہے۔ یورپ اپنے گلوبل گیٹ وے منصوبے کے ذریعے چین کا سامنا کرنے کی کوششوں کو ایک واضح سمت دینے کی کوشش کررہا ہے۔ اینڈریو اسمال کہتے ہیں کہ یہ ایک بڑا امتحان ہے۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یورپ اس بڑے اسٹرے ٹیجک اقدام سے چین کے لیے حقیقی معنوں میں ایک بڑا چیلنج کھڑا کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے؟ اینڈریو اسمال کہتے ہیں ’’ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا یورپ بیوروکریسی کی اندرونی لڑائی میں کچھ زیادہ الجھ گیا ہے؟چین کو منہ دینے کی کوشش میں ناکامی کا یورپ کو بہت بڑے پیمانے پر خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ بیوروکریسی کی اندرونی لڑائی یورپ کے لیے حقیقی خطرے میں تبدیل ہوچکی ہے۔‘‘
ایک سفارت کار نے بی بی سی کو بتایا ’’چین کا ڈٹ کر سامنا کرنے کے حوالے سے یورپ جو کچھ کررہا ہے وہ دراصل اپنی ساکھ درست کرنے کے حوالے سے بہت کچھ بدلنے کی کوشش ہے۔ یہ ایک اچھی علامت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ سب کچھ ہمارے دوست ممالک امریکہ اور برطانیہ کے مشترکہ مفادات سے بھی میل کھاتا ہے۔‘‘
چین سے مسابقت آسان کام نہیں۔ چین خاصی وقیع تیاریوں کے ساتھ میدان میں آیا ہے۔ اُس نے عالم گیر سطح پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے کم و بیش چار عشروں تک اَن تھک محنت کی ہے۔ یہ محنت اب رنگ لارہی ہے۔ چین عالمی سطح پر ثمرات کا حامل ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ اُسے چونکہ محنت کے نتیجے میں ملا ہے اس لیے اُس کی پوری کوشش ہے کہ کچھ بھی داؤ پر نہ لگے۔ ایسے میں یورپ کے لیے معاملہ آسان نہیں۔ سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ کے سینئر فیلو اسکاٹ مورس کہتے ہیں ’’یورپ نے چین کے مقابل ایک جامع منصوبہ پیش کرنے کی تیاری کی ہے مگر اِس سے مسابقت شدت اختیار کرسکتی ہے۔‘‘ (باقی صفحہ 41 پر)
گزشتہ جون میں امریکہ نے بھی ’’بلڈ اینڈ بیٹر ورلڈ‘‘ منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ اسکاٹ مورس کہتے ہیں ’’یہ ایک بھیڑ بھاڑ والا بازار ہے جس میں بہت سے خطوں کے بہت سے برانڈز براہِ راست مسابقت کررہے ہیں۔ ایسے میں بہت سے معاملات کا الجھ جانا فطری امر ہے۔ گلوبل گیٹ وے منصوبے کی کامیابی کے بارے میں پیش گوئی تو کی جاسکتی ہے۔ چین ایک بڑی قوت ہے جس سے بھرپور مسابقت کے لیے بھرپور تیاری کرنا ہے اور یورپ نے اس حوالے سے خود کو تیار کیا ہے۔ چین سے ٹکرانے سے زیادہ اس نکتے پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے کہ بہت سے ترقی یافتہ اور پس ماندہ ممالک کو قرضوں کی ضرورت رہتی ہے اور یورپ یہ ضرورت اچھی طرح پوری کرسکتا ہے۔‘‘
یورپ نے ہر دور میں اپنی اقدار پر بہت زور دیا ہے۔ وہ معاملات کی شفافیت کو بھی ناگزیر قرار دیتا ہے۔ اس حوالے سے امید کی جانی چاہیے کہ یورپ کے حکمران چین سے مسابقت کے دوران بھی اپنی اقدار اور اصولوں سے رُو گردانی نہیں کریں گے۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ جو ممالک امداد اور قرضوں کے منتظر ہیں اُن کی مدد کرنے سے تو یورپ پیچھے نہیں ہٹ رہا، مگر وہ اِن ممالک کو اپنا دست ِ نگر اور محتاج بنانے کے درپے نہیں۔ ہاں، یورپ اپنے اثر رسوخ میں اضافے کا خواہش مند ضرور ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ عالمی سیاست و معیشت میں اُس کی پوزیشن داؤ پر نہ لگے۔ یورپ اسٹرے ٹیجک معاملات میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے۔ اس مظاہرے میں وہ کہاں تک کامیاب رہتا ہے اور کس طور پس ماندہ اور ترقی پذیر خطوں کو اپنے دائرۂ اثر میں لینے میں کامیاب ہوتا ہے، یہ دیکھنا باقی ہے۔