تبدیلی سرکار کے لیے تین ماہ اہم کیوں؟

کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی میں معروف کالم نگار ذوالفقار کرامانی نے بروز جمعہ 3 دسمبر 2021ء کو اپنے تحریر کردہ زیرنظر کالم میں وطنِ عزیز کے سیاسی حالات کے تناظر میں جو خامہ فرسائی کی ہے، اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’اُن دنوں بھی بلاول بھٹو اور شہبازشریف سمیت حزبِ مخالف والے پارلیمان کے اندر ہی دورانِ عشائیہ ’’حکومت کو پارلیمان میں زچ کس طرح کیا جائے‘‘ کے حوالے سے پروگرام ترتیب دے رہے تھے، جن دنوں لاہور کے ضمنی انتخاب کے ایک جلسۂ عام میں پیپلزپارٹی کے قمرزمان کائرہ نواز لیگ کے لتے لے رہے تھے۔ جب نواز لیگ اور پیپلزپارٹی والوں سے ’’یہ ماجرا کیا ہے؟‘‘ والا سوال کیا گیا تب انہوں نے کہا کہ قمر زمان کائرہ انتخابی جلسے سے خطاب کررہے تھے جہاں پر ہم دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہیں۔ باوجود ایسی وضاحت کے دونوں جماعتوں کو سارا ہفتہ یہ بات سمجھانی پڑی کہ ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور ہیں۔ لیکن باوجود اس کے یہی سوال سیاست کے میدان میں تب دوبارہ ابھرا جب پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے دوران بلاول بھٹو اور شہبازشریف کے دورانِ خطاب ایک دوسرے کے لیے ڈیسک بجانے کے ساتھ ساتھ اسپیکر کے ڈائس کا گھیرائو کرنے والی حزبِ اختلاف نے سیاسی جلسوں میں ایک دوسرے کو ہدفِ تنقید بنایا۔
بلاول بھٹو جو اسمبلی کے مشترکہ اجلاس کے دوران نوازشریف حکومت کی مثال دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ نوازشریف کو جب اکثریت حاصل تھی تب بھی وہ اپوزیشن سے مشاورت کے بعد قانون سازی کیا کرتے تھے۔ یہی بلاول بھٹو جب پشاور کے جلسہ عام میں پہنچتے ہیں تو اسی نوازشریف کو اپنی تقریر میں ’’سرٹیفائیڈ چور‘‘ قرار دیتے ہیں۔ جب اٹھایا گیا یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ جسے عدلیہ خود مجرم قرار دے چکی ہو اُسے عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ ایک ایسی کانفرنس میں مہمانِ خاص کس طرح سے بنایا جا سکتا ہے جس کانفرنس میں ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے جج براجمان ہوں؟ وزیراعظم عمران خان بھلے سے نوازشریف کو مجرم سمجھتے ہوں، یا بلاول بھٹو سرٹیفائیڈ چور کا ذکر کرتے ہوں، لیکن عاصمہ جہانگیر کی یاد میں کانفرنس کرانے والے وکلاء نے عمران خان کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے وکلاء سمجھتے ہیں کہ نوازشریف کو سزا سیاسی حیثیت میں ملی ہے۔ اس لیے نوازشریف آڈیو ویڈیو کی اس جنگ میں جس طرح سے اپنے مخالفین کو مریم نواز کی صورت میں تنہا کرچکے ہیں، ایسے مناظر اب عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ کانفرنس جیسے پروگرامات میں بھی نظر آرہے ہیں۔
اگرچہ پیپلزپارٹی کے پشاور کے جلسہ عام میں بلاول بھٹو کی تنقید کو نواز لیگ والے بھی سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا یوم تاسیس کا جلسہ تھا اس لیے سیاسی جلسے والے خطاب کو سیاسی جلسے کی حد تک ہی رکھا جائے، لیکن ایسے جلسے کے حامل خطاب کو فواد چودھری جیسے حکومتی وزیر بھی سراہنے پر مجبور ہورہے ہیں، جن کے خلاف پیپلزپارٹی والے پریس کانفرنس میں شکایت کررہے تھے کہ انہیں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے سامنے بھی شکایت کی جارہی تھی کہ جلسہ بلدیاتی انتخابی ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ اب فواد چودھری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا ایسا قدم خوش آئند ہے کہ ملک کے مرکزی دھارے میں شامل ہوکر وہ پشاور میں جلسہ عام کررہی ہے۔ اس سے پیشتر سارے وفاقی وزراء کہتے تھے کہ پیپلزپارٹی اب لاڑکانہ تک ہی محدود ہوچکی ہے۔ فواد چودھری کو بلاول بھٹو کی نواز لیگ پر تنقید بھائی ہے یا پرویزخٹک کے خاندان کے پی پی میں شامل ہونے جیسے عمل نے انہیں یہ بات کرنے پر مجبور کیا ہے، لیکن بہرحال فواد چودھری اور پیپلزپارٹی والے اس امر پر خوش ضرور ہیں کہ اسی کے پی کے کے اندر پی ڈی ایم کا جلسۂ عام بری طرح ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے۔
بلاول بھٹو کی نواز لیگ پر تنقید کو کئی پہلوئوں سے سمجھنے کی سعی کی جارہی ہے۔ ایک تو یہ یومِ تاسیس کا جلسہ تھا، اس لیے پارٹی کو اپنی سیاسی تاریخ کے پس منظر میں پیش کرنا تھا۔ اس دلیل کے بعد اس تنقید کو خبر جیسی بات سمجھا جارہا ہے، جب کہ اسی دلیل میں اس نکتے کا اضافہ بھی کیا جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ ایک دوسرے کی مخالف سیاسی جماعتیں ہیں جنہیں سامنے آنے والا الیکشن بھی دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے اس قسم کے خطاب اب روز کا معمول ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو اچھی طرح سے یاد ہوگا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک نئی روایت قائم کرتے ہوئے اپنے خطابات میں کہا کرتی تھیں کہ صاف شفاف الیکشن اُس وقت تسلیم کریں گے جب پیپلزپارٹی پہلے اور نواز لیگ دوسرے نمبر پر آئیں گی۔ محترمہ، پرویزمشرف کو یاد کروایا کرتی تھیں کہ دیکھو پرویز مشرف! دونوں سابق وزرائے اعظم ملک کے اندر آچکے ہیں۔
ایک طرف ہم بلاول بھٹو اور مریم نواز کے ایک ہی اسٹیج پر اکٹھے بیٹھنے پر سوالات اٹھا رہے ہیں، جب کہ صورتِ حال ایسی ہے کہ ایک ہی گھرانے کے مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی ایک ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جہاں حمزہ شہباز میدان میں ہوں وہاں مریم نواز بھلا میدان میں کیوں کر دکھائی دیں گی؟ اب تو لاہور کے ضمنی الیکشن کو بھی کئی زاویوں کے ساتھ دیکھا جارہا ہے۔ اسی میں یہ نتیجہ بھی سامنے آئے گا کہ مریم نواز کی الیکشن مہم اور حمزہ شہباز کی الیکشن مہم کے بعد کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ (اطلاع کے مطابق اس انتخاب میں نواز لیگ کی شائستہ پرویز نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ مترجم)
اسی طرح سے پاکستان پیپلزپارٹی بھی پشاور کے جلسۂ عام کے بعد لاہور کے اس الیکشن کو نظر میں رکھے ہوئے تھی۔ یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کے انتخاب کے دوران جہانگیر ترین کی حمایت کے حوالے دیے جارہے ہیں۔ اگرچہ اس ملاقات کو یوسف رضا گیلانی کے ساتھ تعزیت بیان کیا جارہا ہے، لیکن جس طریقے سے اس ملاقات کی تصویر سامنے آئی ہے اس نے عمران خان کو ضرور پریشان، ششدر و متحیر کر ڈالا ہوگا۔ جہاں پر عمران خان اینڈ کمپنی کو اوورسیز پاکستانیوں کی حمایت کے ذریعے تیس سیٹوں کا فائدہ دکھائی دیتا ہے وہیں پر دیکھنے والے یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی جہانگیر ترین سے کس قدر قریب ہورہی ہے۔ پیپلزپارٹی جوں جوں کے پی کے اور پنجاب میں پرویز خٹک خاندان اور جہانگیر ترین سے قریب ہورہی ہے، توں توں عمران خان کے مقرر کردہ گورنر پنجاب چودھری سرور کی لندن میں کی گئی پریس کانفرنس بتارہی ہے کہ اب ہوائوں کا رخ عمران خان کی حمایت میں نہیں ہے۔ جب تک پنجاب کے گورنر ملک واپس نہیں آجاتے اُس وقت تک قائم مقام گورنر پرویزالٰہی اور عثمان بزدار بعینہٖ بالمقابل ہیں جس طرح سے سندھ میں وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ اور گورنر عمران اسماعیل ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ اب پنجاب میں اتحادی، اتحاد سے دور ہورہے ہیں۔ عثمان بزدار بلدیاتی قانون میں ترمیم کرارہے ہیں، تو ساتھ ہی بلدیاتی الیکشن بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانے کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی نے اس ترمیمی آرڈیننس کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا ہے۔ جب کہ عثمان بزدار کے بلدیاتی الیکشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانے کے اعلان کے بعد آنے والے الیکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے بحث کی جاتی تھی کہ الیکشن کمیشن دو برس میں اتنا انتظام کس طرح سے کر پائے گا؟
بلدیاتی الیکشن عمران خان کو فائدہ دیں گے یا پھر نقصان؟ یہ سوال تو بہرحال قبل از وقت ہے، لیکن ایسے الیکشن کے بعد عمران خان کے لکھاری اپنے اپنے مقاصد کی خاطر عمران خان سے خاصے دور کھڑے دکھائی دیں گے، جس کی وجہ سے معاشی بحران کی شکار عمران خان کی حکومت ایک نئے بحران کا سامنا کرتے ہوئے نظر آئے گی۔ وفاقی حکومت میں جو اتحادی ہوں گے بلدیاتی الیکشن میں وہ مخالفین کے اتحادی بھی بن سکتے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے نتائج بھی آئندہ حکومت کے لیے ماحول کی تشکیل کی بنیاد فراہم کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اس لیے وہ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ مشترکہ اجلاس تو کر سکتے ہیں لیکن اپنی توجہ عدالت کے اندر ہی مبذول رکھیں گے۔
نواز لیگ اپنے تئیں یہ بھی سمجھتی ہے کہ عدالتوں کے اندر نواز شریف اور مریم نواز کے بے گناہ ثابت ہونے کے اثرات الیکشن نتائج سے بھی کہیں پہلے کے ہوں گے۔ جب کہ پہلے دن سے ’’الیکشن لڑو اور اسمبلی میں رہ کر تبدیلی لائو‘‘ کے راستے پر گامزن پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ جیسے رہنما بھی کہتے ہیں کہ اس بحرانی کیفیت میں چند ماہ کے لیے کون سی جماعت ہو گی جو حکومت چاہے گی! اس لیے خورشید شاہ بھی شہبازشریف کی طرح صاف شفاف الیکشن والے مطالبے کے راستے پر ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان آئندہ آنے والے تین ماہ کو اہم گردانتے ہوئے وفاقی کابینہ کے وزراء کو ملک کے اندر رہنے کی ہدایت کررہے ہیں تا کہ اوورسیز پاکستانیوں اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بیانیے کو آگے بڑھا کر تیس تا چالیس نشستوں کی امکانی کمی کو پُر کیا جا سکے۔‘‘