سید الطائفہ جنید بغدادیؒ نے حسین بن منصور حلّاج سے کہا: ازل سے یہ دنیا ایسی ہے، ابد تک ایسی ہی رہے گی۔ ہم اپنی ہتھیلیوں پر وفائوں کے چراغ، آنکھوں میں آس و امید کے دیئے جلائے بیٹھے ہیں۔ عمر بھر سرابوں کا تعاقب کرنے، خوابوں کی جنتیں بسانے والے ہم سادہ لوگ ابھی تک ادراک نہیں کرسکے کہ صرف ایک آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف ایک آدمی… جو اپنے حسنِ تدبر، معاملہ فہمی، حکمت و دانائی، ذہنی پختگی، حب الوطنی، فرض شناسی اور سخت کوشی کے باعث لوگوں کے ہجوم کو ایک قوم بنا سکے۔ ایسا منصف جو گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے، گائوں کی دہلیز میں کھڑے کھڑے مقدموں کا فیصلہ سنادے۔ گرمی، سردی، دھند، دھوپ، روشنی، اندھیرا اور بادو باراں جس کے لیے حرفِ بے معنی ہوچکے ہوں۔ افسوس صد افسوس.. وہ نسل اب دنیا سے اٹھ چکی۔ ورنہ کوئٹہ اور سیالکوٹ جیسے واقعات کا نام و نشان نہ ہوتا۔ ”آواز ِدوست“ میں مختار مسعود نے لکھا ہے: کسی قوم کو باصلاحیت افراد نعمت کے طور پر دیئے اور سزا کے طور پر واپس لے لیے جاتے ہیں۔ قرون اولیٰ کا دور اب لوٹ کر نہیں آسکتا۔ قیادت، سیادت اور سیاست کے میدان میں موقع پرستوں اور رنگیلوں کا غلبہ ہے۔ پیسہ کمانا جن کا مطمح نظر ہے۔ میدانِ سیاست میں ایسے افراد وارد ہوچکے جو ایک گھر چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، ملک اور صوبہ تو دور کی بات ہے۔ سیاسی امور کا فہم، نہ افسر شاہی کے گھوڑے پہ سوار ہونے کی تاب و توانائی۔ کسی کارکن یا سیاسی رفیق کی غمی خوشی میں شریک ہونا ان کی توہین… گویا سیاست کے راہ و رسم سے وہ آشنا ہی نہیں۔ اسی بنا پر ہمارے ہاں فکری انتشار، سیاسی اضمحلال اور معاشی عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ انتشارِ فکر،تشدد ،گروہ بندی، فرقہ واریت، فرسودہ خیالات و تصورات اور طبقاتی نظام کے سبب سوسائٹی کا شیرازہ بکھرتا جارہا ہے۔ مگر افسوس، اس کے باوجود ہمارے ہاں مغربی فکر پڑھائی جاتی ہے۔ مغرب کی تقلید کی جاتی ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒ نے1703ء سے 1762ء تک وہ کارنامے سرانجام دئیے کہ مغربی مفکرین بھی انگشت بدنداں ہیں۔ مگر ہم روسو 1779ء، ایڈم اسمتھ1790ء، کارل مارکس 1883ء، اور ٹائن بی 1975ء جو بہت بعد کی پیداوار ہے، کو گھول گھول کر طلبہ کے ذہنوں میں ڈال رہے ہیں۔ ان سب نے مغرب کے ماحول میں آنکھیں کھولیں۔ وہاں کے مسائل کو پڑھا۔ حالات کا تجزیہ کیا۔ اس کے مقابلے میں شاہ ولی اللہؒ یہیں پیدا ہوئے۔ یہاں کی سیاسی، مذہبی اور سماجی کشمکش کا حصہ رہے۔ وہ اس زمانے کے فکری مسائل کا مکمل ادراک رکھتے تھے، اسی بنا پر وہ ایک ہزار برس کے اس ورثے کو اگلے دور میں منتقل کرنے کے محرک بنے۔ ان کا ورثہ ماضی کے تمام اہلِ علم، اہلِ بصیرت، اہلِ اخلاص اور اہلِ شعور کی محنتوں کا خلاصہ ہے۔ وہ قوتِ بیان، قدرتِ کلام اور ایجاز و اختصار کے ساتھ مطالب و معانی اور بے شمار ناقابل تردید دلائل ایسے دل نشین اور متین انداز میں دیتے ہیں کہ ہر ذی شعور دورِ زوال کے اسباب و علل اور فتنہ انگیزی میں یکتا سیاسی چالوں سے آشنا ہوسکتا ہے۔ شاہ ولی اللہؒ کا اسلوبِ بیان آپ کو امام غزالیؒ 1111ء کے ہاں ملے گا، نہ ہی 1210ء کے امام رازیؒ کے ہاں۔ کیونکہ یہ لوگ دورِ عروج کے لوگ تھے۔ شاہ ولی اللہ کا دور زوال کا ہے۔ مذہبی طور پر بھی، سیاسی طور پر بھی اور سماجی طور پر بھی۔ بدقسمتی سے وہ زوال آج تک پہنچا ہوا ہے۔ قوموں، ملکوں اور سلطنتوں کی تقدیر بدلنے کے لیے صرف ایک آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلُ الَّرَشِیْد۔کیا کوئی ایک آدمی بھی نہیں جو محرومیوں، پستیوں، انحطاط اور زوال کی شکار قوم کی نائو منجدھار سے نکال سکے؟ غریب مسائل کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔ اس کی جھونپڑی میں غربت اور بدحالی کا پہرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم طبقہ اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے اپنے والد کے مشن، فکر، اسلوب، طرزِ تحریر اور علمی ورثے کو آگے منتقل کیا۔ آپؒ کی معلومات بے حد وسیع تھیں جو صرف اسلامی علوم و فنون، تفسیر، حدیث، فقہ تک محدود نہ تھیں۔ بلکہ زبان، لغت، انشا و شاعری، موسیقی، خوشخطی، تعبیرِ خواب، تیر اندازی، گھڑ سواری اور تیراکی پر عبور تھا۔ تعبیرِ خواب میں خصوصی ملکہ… واعظ ایسے کہ عوام و خواص، علماء و فقرا اور سلاطین و امرا سبھی آپ کی مدح و تحسین میں رطب اللسان تھے۔ شعر و شاعری میں بھی آپ ایک سند رکھتے تھے۔ شاہ نصیر دہلوی نے جب استاد ذوقؔ کی غزل درست کرنے سے انکار کردیا، تو ذوقؔ دہلی کے تمام اساتذہ کو چھوڑ کر شاہ عبدالعزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تسلی کے بعد ذوقؔ نے کسی اور سے اصلاح لینا ترک کردی اور حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے۔ محبین، عشاق اور تلامذہ جنازے میں اس قدر امڈ کر آئے کہ آپؒ کی نمازِ جنازہ 55 مرتبہ پڑھی گئی۔ حیف صد حیف… ہم ان کے ورثے کو آگے نہ بڑھا سکے۔ نکتہ یہ ہے کہ رفعت و پاکیزگی انہی کو ملتی ہے جو اپنی جبلتوں اور آرزو سے برسرِ جنگ رہتے اور خامیوں پر غور کرتے ہیں۔ شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ نے’’ادارہ رحیمیہ‘‘کی داغ بیل ڈالی جو اس علمی ورثے اور فکر کو پھیلانے میں جتا ہوا ہے۔ مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری آجکل اس کے روح رواں ہیں، جو عظیم مفکر کے فلسفے سے نسل نو کو روشناس کرا رہے ہیں۔ سینئر کالم نگار محی الدین بن احمد دین صاحب نے’’خطبات ملتان‘‘ سے متعارف کروایا۔ خطبات نہیں، انسائیکلوپیڈیا ہے۔ ماضی کے عروج، حالیہ زوال کے بارے میں دلائل ہیں۔ قاری حیران، آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ مضامین میں اظہار کا طریق، الفاظ کا استعمال، معانی کا جمائو، سلاست کا نکھار اور متانت کی چاشنی پائی جاتی ہے۔ کسی تحریر و تقریر، مضمون اور کالم کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے سامع اور قاری کے لیے بوجھل نہ ہو، کسی موڑ یا مرحلے میں دماغ تھکاوٹ محسوس نہ کرے، بلکہ اس میں کھو جائے۔ الفاظ کا چنائو، فقروں کی آرائش، ادائیگی کی گہرائی اور تخیل کا پہلو ہی آپ کے خطاب، تقریر، کالم یا تحریر سے ایک تحریک پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اَنا کے خول میں مقید ہو کر ہم عصروں پر نکتہ چینی،دیمک کی طرح چاٹ دیتی ہے۔مگرکیا کریں، ازل سے یہ دنیا ایسی ہے ،ابد تک ایسی ہی رہے گی ۔صرف ایک رجل صالح کی ضرورت ہے۔ صرف ایک !
(امتیاز احمد تارڑ،نئی بات،پیر 13 دسمبر 2021ء)