رقبے کے لحاظ سے بلوچستان وطنِ عزیز کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وسائل سے بھی مالا مال ہے، مگر اس کے باوجود پسماندگی اور غربت اس خطے کے عوام کا مقدر بنی ہوئی ہے جس کی بڑی وجہ یہاں کا سرداری اور قبائلی نظام بتایا جاتا ہے، جس کے سبب یہاں کے سردار تو شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے زندگی بسر کرتے ہیں مگر عام آدمی کی حیثیت ان سرداروں کے سامنے غلاموں سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس پس منظر میں اس صوبے کے سیاسی رہنما اعلیٰ مناصب تک بھی پہنچتے ہیں تو ان کے اپنے حالات تو خوب سے خوب تر ہوتے چلے جاتے ہیں مگر صوبے کے مجموعی مسائل میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آتی۔ بلوچستان سے وفاقی وزراء کے علاوہ وزیراعظم تک کے عہدے پر لوگ فائز رہے، اب بھی سینیٹ کے چیئرمین کا تعلق بلوچستان سے ہے، مگر یہ سب مناصب کے حصول کے لیے بلوچ عوام کا نام تو استعمال کرتے رہے ہیں مگر انہیں بلوچستان کے لوگوں کے مسائل کے حل سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی، جس کے نتیجے میں وہاں کے عام آدمی کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور احساسِ محرومی میں بھی۔
گوادر گزشتہ کئی برس سے بلوچ عوام کی امیدوں کا مرکز رہا ہے اور انہیں اس حوالے سے ترقی و خوش حالی کے خواب دکھائے جاتے رہے ہیں، مگر اس سے زیادہ بدقسمتی اس خطے کے عوام کی کیا ہوگی کہ گوادر بندرگاہ کی تعمیر کے نتیجے میں وہاں کے عوام کے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے، اور ان سے پہلے سے دستیاب وسائلِ روزگار بھی چھینے جا رہے ہیں، مگر علاقے کے سرداروں کو اس کی پروا تھی نہ وہاں سے منتخب ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کے پاس اس جانب توجہ دینے کی فرصت… ایسے میں اللہ تعالیٰ نے خود مظلوم عوام ہی میں سے ایک مخلص، محنتی، ہمدرد اور جرات مند شخص کو یہ ہمت عطا فرمائی کہ وہ اپنے خطے کے غریب و مظلوم عوام کی آواز بنے، جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکرٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے ان بے بس لوگوں کو منظم کرکے انہیں اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کا شعور دیا، چنانچہ مولانا ہدایت الرحمٰن کی قیادت میں گوادر کے غریب مچھیرے اپنے حقوق کے لیے متحد ہوئے اور 15 نومبر سے ساحلِ گوادر پر ’’گوادر کو حق دو‘‘کے نام سے دھرنے کا آغاز کیا۔ ایک ماہ سے جاری اس دھرنے میں حیران کن طور پر علاقے کی عفت مآب خواتین نے بھی شدید سردی کے باوجود بھرپور شرکت کی، مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، صرف جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کو یہ توفیق نصیب ہوئی کہ وہ ان مظلوموں کی آواز میں آواز ملانے کے لیے گوادر پہنچے اور حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے واضح کیا کہ انہیں ان مظلوموں کی آواز سننا اور ان سے بات کرنا ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی ماہی گیروں کے ذریعے روزگار کا تحفظ کیا جائے، غیر قانونی ٹرالر مافیا کے وسیع پیمانے پر شکار کو بند کرایا جائے، ایران کے ساتھ مقامی تجارت پر پابندیاں ختم کی جائیں، قومی سلامتی کے نام پر لاپتا کیے گئے بلوچ باشندوں کو بازیاب کرایا جائے اور پینے کے پانی کو ترستے گوادر کے باشندوں کو بنیادی شہری سہولتیں فراہم کی جائیں، ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک میں شامل عوام پر الزام تراشیوں اور پابندیوں کا سلسلہ ختم کیا جائے، ان کی بات سنی جائے اور ان کے مسائل حل کیے جائیں۔
’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کا دھرنا ایک ماہ سے جاری تھا مگر حکمران طبقہ ان کی آواز سننے پر آمادہ نہیں تھا، بلکہ تحریک کے مخلص اور بے غرض قائد مولانا ہدایت الرحمٰن کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کرکے اپنی منفی سوچ اور سامراجی ذہنیت کا اظہار کررہا تھا۔ تاہم اس سب کچھ کے باوجود تحریک میں شامل لوگوں کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی اور وہ اپنے قطعی جائز اور مبنی برحق مطالبات پر ڈٹے رہے، آخر وزیراعظم کو ان کے مطالبات پر توجہ دینا پڑی اور انہوں نے ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف کارروائی اور دیگر مطالبات پر وزیراعلیٰ بلوچستان سے بات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمٰن نے حکمت اور فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم ضدی نہیں، ہم اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ اصل مسئلہ اعلان نہیں عمل درآمد کا ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ وزیراعظم احتجاج سے پہلے ان مظلوموں کی آواز سن لیتے اور انہیں شدید سردی میں ایک ماہ تک دھرنے کی تکالیف اوراذیت برداشت نہ کرنا پڑتی۔ اب توقع کی جانی چاہیے کہ وزیراعظم اپنے اعلان اور گوادر کے عوام سے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے پر سنجیدگی سے توجہ دیں گے، معاملات جلد ’’گا۔ گے۔ گی‘‘ سے آگے بڑھیں گے، اور مسائل کے حل کی عملی صورت بھی سامنے آئے گی۔
(حامد ریاض ڈوگر)