عقیدۂ توحید کے انسانی زندگی پر اثرات

ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْهِ شُرَكَآءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ-هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا (الزمر 39:29)
”اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کی ملکیت میں بہت سے کج خلق آقا شریک ہیں جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں، اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ کیا ان دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟“
اس مثال میں اللہ تعالیٰ نے شرک اور توحید کے فرق اور انسان کی زندگی پر دونوں کے اثرات کو اس طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں اتنا بڑا مضمون اتنے مؤثر طریقے سے سمجھا دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ بات ہر آدمی تسلیم کرے گا کہ جس شخص کے بہت سے مالک یا آقا ہوں، اور ہر ایک اُس کو اپنی اپنی طرف کھینچ رہا ہو، اور وہ مالک بھی ایسے بدمزاج ہوں کہ ہر ایک اُس سے خدمت لیتے ہوئے دوسرے مالک کے حکم پر دوڑنے کی اُسے مہلت نہ دیتا ہو، اور ان کے متضاد احکام میں جس کے حکم کی بھی وہ تعمیل سے قاصر رہ جائے وہ اُسے ڈانٹنے پھٹکارنے ہی پر اکتفا نہ کرتا ہو بلکہ سزا دینے پر تل جاتا ہو، اُس کی زندگی لامحالہ سخت ضیق میں ہوگی۔ اور اس کے برعکس وہ شخص بڑے چین اور آرام سے رہے گا جو بس ایک ہی آقا کا نوکر یا غلام ہو اور کسی دوسرے کی خدمت اسے نہ کرنی پڑے۔ یہ ایسی سیدھی سی بات ہے جسے سمجھنے کے لیے کسی بڑے غورو تامل کی حاجت نہیں ہے۔ اس کے بعد کسی شخص کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں رہتا کہ انسان کے لیے جو امن و اطمینان ایک خدا کی بندگی میں ہے وہ بہت سے خدائوں کی بندگی میں اسے کبھی میسر نہیں آسکتا۔
اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بہت سے کج خلق اور باہم متنازع آقائوں کی تمثیل پتھر کے بتوں پر راست نہیں آتی بلکہ ان جیتے جاگتے آقائوں پر ہی راست آتی ہے جو عملاً آدمی کو متضاد احکام دیتے ہیں اور فی الواقع اس کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔ پتھر کے بت کسے حکم دیا کرتے ہیں اور کب کسی کو کھینچ کر اپنی خدمت کے لیے بلاتے ہیں۔ یہ کام تو زندہ آقائوں ہی کے کرنے کے ہیں۔ ایک آقا آدمی کے اپنے نفس میں بیٹھا ہوا ہے جو طرح طرح کی خواہشات اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اسے مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ انھیں پورا کرے۔ دوسرے بے شمار آقا گھر میں، خاندان میں، برادری میں، قوم میں اور ملک کے معاشرے میں، مذہبی پیشوائوں میں، حکمرانوں اور قانون سازوں میں، کاروبار اور معیشت کے دائروں میں اور دنیا کے تمدن پر غلبہ رکھنے والی طاقتوں میں ہر طرف موجود ہیں جن کے متضاد تقاضے اور مختلف مطالبے ہر وقت آدمی کو اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں، اور ان میں سے جس کا تقاضا پورا کرنے میں بھی وہ کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے دائرئہ کار میں اس کو سزا دیئے بغیر نہیں چھوڑتا۔ البتہ ہر ایک کی سزا کے ہتھیار الگ الگ ہیں۔ کوئی دل مسوستا ہے، کوئی روٹھ جاتا ہے، کوئی نکّو بناتا ہے، کوئی مقاطعہ کرتا ہے، کوئی دیوالہ نکالتا ہے، کوئی مذہب کا وار کرتا ہے، اور کوئی قانون کی چوٹ لگاتا ہے۔ اس ضیق سے نکلنے کی کوئی صورت انسان کے لیے اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ توحید کا مسلک اختیار کرکے صرف ایک خدا کا بندہ بن جائے اور ہر دوسرے کی بندگی کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکے۔
مسلکِ توحید اختیار کرنے کی دو شکلیں:
توحید کا مسلک اختیار کرنے کی بھی دو شکلیں ہیں جن کے نتائج الگ الگ ہیں۔
ایک شکل یہ ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادی حیثیت میں خدائے واحد کا بندہ بن کر رہنے کا فیصلہ کرلے اور گرد و پیش کا ماحول اس معاملے میں اس کا ساتھی نہ ہو۔ اس صورت میں یہ تو ہوسکتا ہے کہ خارجی کشمکش اور ضیق اس کے لیے پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جائے، لیکن اگر اس نے سچے دل سے یہ مسلک اختیار کیا ہو تو اسے داخلی امن و اطمینان لازماً میسر آجائے گا۔ وہ نفس کی ہر اُس خواہش کو رد کردے گا جو احکام الٰہی کے خلاف ہو، یا جسے پورا کرنے کے ساتھ خدا پرستی کے تقاضے پورے نہ کیے جاسکتے ہوں۔ وہ خاندان، برادری، قوم، حکومت، مذہبی پیشوائی اور معاشی اقتدار کے بھی کسی ایسے مطالبے کو قبول نہ کرے گا جو خدا کے قانون سے ٹکراتا ہو۔ اس کے نتیجے میں اسے بے حد تکلیفیں پہنچ سکتی ہیں، بلکہ لازماً پہنچیں گی۔ لیکن اس کا دل پوری طرح مطمئن ہوگا کہ جس خدا کا میں بندہ ہوں اس کی بندگی کا تقاضا پورا کررہا ہوں، اور جن کا بندہ میں نہیں ہوں ان کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے جس کی بنا پر میں اپنے رب کے حکم کے خلاف اُن کی بندگی بجا لائوں۔ یہ دل کا اطمینان اور روح کا امن و سکون دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہیں چھین سکتی، حتیٰ کہ اگر اسے پھانسی پر بھی چڑھنا پڑ جائے تو وہ ٹھنڈے دل سے چڑھ جائے گا اور اس کو ذرا پچھتاوا نہ ہوگا کہ میں نے کیوں نہ جھوٹے خدائوں کے آگے سر جھکا کر اپنی جان بچالی۔
دوسری شکل یہ ہے کہ پورا معاشرہ اسی توحید کی بنیاد پر قائم ہوجائے اور اس میں اخلاق، تمدن، تہذیب، تعلیم، مذہب، قانون، رسم و رواج، سیاست، معیشت، غرض ہر شعبہ ٔزندگی کے لیے وہ اصول اعتقاداً مان لیے جائیں اور عملاً رائج ہوجائیں جو خداوندِ عالم نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کے ذریعے سے دیئے ہیں۔ خدا کا دین جس کو گناہ کہتا ہے، قانون اسی کو جرم قرار دے، حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے، تعلیم و تربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیار کرے، منبر و محراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو، معاشرہ اسی کو معیوب ٹھیرائے اور معیشت کے ہر کاروبار میں وہ ممنوع ہوجائے۔ اسی طرح خدا کا دین جس کو بھلائی اور نیکی قرار دے، قانون اس کی حمایت کرے، انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں، تعلیم و تربیت کا پورا نظام ذہنوں میں اس کو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے، منبر و محراب اسی کی تلقین کریں، معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم و رواج اس پر قائم کردے، اور کاروبارِ معیشت بھی اسی کے مطابق چلے۔ یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آجاتا ہے اور مادی و روحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں، کیونکہ اس میں بندگیِ رب اور بندگیِ غیر کے تقاضوں کا تصادم قریب قریب ختم ہوجاتا ہے۔
اسلام کی دعوت اگرچہ ہر ہر فرد کو یہی ہے کہ خواہ دوسری صورت پیدا ہو یا نہ ہو، بہر حال وہ توحید ہی کو اپنا دین بنالے اور تمام خطرات و مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام کا آخری مقصود یہی دوسری صورت پیدا کرنا ہے اور تمام انبیا علیہم السلام کی کوششوں کا مدعا یہی رہا ہے کہ ایک امت ِمسلمہ وجود میں آئے جو کفر اور کفار کے غلبے سے آزاد ہوکر من حیث الجماعت اللہ کے دین کی پیروی کرے۔ کوئی شخص جب تک قرآن و سنت سے ناواقف اورعقل سے بے بہرہ نہ ہو، یہ نہیں کہہ سکتا کہ انبیا علیہم السلام کی سعی وجہد کا مقصود صرف انفرادی ایمان و اطاعت ہے، اور اجتماعی زندگی میں دین ِحق کو نافذ و قائم کرنا سرے سے اس کا مقصد ہی نہیں رہا ہے۔
(تفہیم احکام القرآن، جلد اوّل)