مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق صدر نشیں محترم مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب حفظہٗ اللہ اپنے تازہ مکتوب میں رقم طراز ہیں:
’’ہم ’کٹ حجتی‘ لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔ ریختہ میں بھی ہم نے دیکھا تو کٹ حجتی ہی ہے۔ ’’کٹ حجتی‘‘ کے معنی ہیں: ’’خواہ مخواہ کی بحث، بحث برائے بحث،اپنی بات پر اڑنا، ضد سے کام لینا، بے جا حجت‘‘۔ لیکن جناب ابونثر نے ’’کٹھ حجتی‘‘ لکھا ہے، آیا یہ زیادہ فصیح ہے یا کاتب کی غلطی ہے؟‘‘ ( ہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ ۳ دسمبر ۲۰۲۱ء)
سب سے پہلے تو ہم محترم مفتی صاحب کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اپنی گوناگوں مصروفیتوں کے باوجود آپ ہم جیسے کم علم کالم نگاروں کو بھی لائقِ اعتنا گردانتے ہیں، پوری توجہ سے کالم پڑھتے ہیں اور رہنمائی بھی فرماتے ہیں۔ اللہ ان کی عمر میں برکت دے۔
جہاں تک کٹ اور کٹھ کا تعلق ہے تو ’کٹ‘ بھی ’کٹھ‘ ہی کی بدلی ہوئی صورت ہے۔ اصلاً یہ ’کٹھ‘ ہی تھا، مگر ممکن ہے کہ کسی کٹھ حجت نے دو چشمی ’ھ‘ کو کاٹ کھایا ہو اور کٹ حجتی شروع کردی ہو۔ حجت بازی بڑھ جانے سے اب کٹ حجتی اور کٹھ حجتی (یا کٹ مُلّا اور کٹھ مُلّا) ایک دوسرے کے متبادل ہوگئے ہیں۔ زیادہ فصیح کیا ہے، اس کا فیصلہ تو فصحا ہی کرسکتے ہیں۔ مفتی صاحب نے ’ریختہ‘ کا حوالہ دیا ہے تو ’ریختہ‘ پر بھی کٹھ حجت اورکٹھ حجتی، دونوں تراکیب مُندرج ہیں۔ نوراللغات میں بھی کٹ حجت اور کٹھ حجت ہر دوالفاظ براجمان ہیں۔
’کٹھ‘ اصل میں کاٹھ کا مخفف ہے۔ اسی سے ’کٹھ پتلی‘ ہے، جو یہ کہہ کرکسی مسند پر بٹھا دی جاتی ہے کہ ’’یہی فیصلہ عوام کا ہے‘‘۔ کٹھ پتلی، کاٹھ یعنی لکڑی سے بنی ہوئی پُتلی کو کہتے ہیں۔ اہلِ تماشا اس میں ایسا دھاگا باندھ دیتے ہیں جو دُور سے نظر نہ آئے، پھر اُنگلی کے اشاروں سے جیسے چاہتے ہیں نچاتے رہتے ہیں۔ دوسرے کی عقل اور دوسرے کی رائے پر چلنے والے بے اختیار آدمی کو بھی کٹھ پتلی کہتے ہیں، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ ’کاٹھ کا اُلّو‘ کنایۃً بے وقوف شخص کو کہتے ہیں۔ گھر کے ٹوٹے پھوٹے سامان کو ’کاٹھ کباڑ ‘ کہا جاتا ہے۔ گھوڑے کی پیٹھ پر رکھی جانے والی زین جس کے نیچے مضبوط لکڑی ہوتی ہے ’کاٹھی‘ کہلاتی ہے۔ توانا جسم کو بھی ’کاٹھی‘ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔کہتے ہیں:
’’بوڑھے ہوگئے، مگر کاٹھی مضبوط ہے‘‘۔
ہُد ہُد، جس کا ذکر قرآنِ مجید میں بھی آیا ہے اور ایک معزز شاہی قاصد کے طور پر آیا ہے، درختوں کی پختہ شاخوں اور تنوں میں چونچ سے چھید کرکے آشیانہ بناتا ہے۔ اپنی اس حرفت پر اہلِ ہند سے داد پانے کی جگہ بے چارہ ’بے داد‘ پاتا ہے اور ہندی میں ’کٹھ پھوڑا‘ کہلاتا ہے۔ یعنی کاٹھ یا لکڑی پھوڑ ڈالنے والا۔
’کاٹھ ‘خشک اور مضبوط لکڑی کو کہا جاتا ہے۔ اس سے کاٹھ کا گھوڑا اور بچوں کے متعددکھلونے بنائے جاتے ہیں۔ بچوں ہی کے لیے کہی گئی ایک غزل میں چچا غالبؔ غزل خواں بچے کی زبان سے کہلواتے ہیں:
گر نہ ڈر جاؤ تو دکھلاؤں تمھیں
کاٹ اپنی کاٹھ کی تلوار کا
یہ غزل ’قادرنامہ‘ میں شامل ہے۔ قادر نامہ چچا نے بچوں کے ساتھ وہی مشغلہ اختیار فرماتے ہوئے لکھا ہے جو اُن کا لغوی بھتیجا یہاں اپنائے ہوئے ہے۔ یعنی الفاظ اور ان کے معانی سے کھیلنا۔ مثلاً:
رُوئی کو کہتے ہیں پنبہ سن رکھو
آم کو کہتے ہیں انبہ سن رکھو
اوپر،غزل والے شعر میں، چچا نے ’کاٹ‘ کو مذکر باندھ دیاہے، جب کہ لغات میں یہ ’اسمِ مؤنث‘ ہے۔ شاید ردیف کی مجبوری سے چچا کو اس لفظ کی جنس تبدیل کرنی پڑ گئی۔ ردیف کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیے کہ اسی غزل کے ایک شعر میں چچا بچوں کو کیا پٹّی پڑھا رہے ہیں:
وہ چُراوے باغ میں میوہ جسے
پھاند جانا یاد ہو دیوار کا
’کٹھ‘ کے وہ معانی جو حجتی کے گلے میں پہنادیے گئے ہیں دراصل کاٹھ ہی سے مشتق ہیں۔ سخت، اَڑیل، بے حس اور بے لچک۔ جو شخص (مفتی صاحب کے بتائے ہوئے معنوں کے مطابق) خواہ مخواہ کی بحث یا بحث برائے بحث کرتا ہو، اپنی بات پر اڑا رہتا ہو، ضد سے کام لیتا ہو، یا بے جا حجت کیے جاتا ہو، اُسے بھی خشک لکڑی یا کاٹھ کی طرح کا سخت، ناسمجھ، اڑیل ٹٹو جانیے۔ کٹھ حجت کہیں کا۔ خدانخواستہ اگر اِنھیں صفات کا حامل کوئی کم خواندہ، کج فہم اور کند ذہن مُلّا مل جائے تو ہمارے ہاں اُسے ’کٹھ مُلّا‘ کہہ دینا عام ہے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا،کٹ حجت یا کٹ حجتی میں ’کٹھ‘ ہی کثرتِ استعمال سے کٹ کٹاکر’ کَٹ‘ رہ گیا ہے۔ ورنہ لغت میں ’کٹ‘ کے جتنے معانی اور جتنے استعمالات ملیں گے ان کا تعلق کسی نہ کسی طور پر صرف ’کاٹنے‘ سے ہوگا، حتیٰ کہ دن، زندگی اور عمر بھی۔ نفیسؔ فریدی کو فکر تھی:
زندگی تو زندگی ہے کیسے کاٹی جائے گی
ایک دن کے کاٹنے میں جب کہ ہو جاتی ہے شام
’کٹ کے رہ جانا‘، ’کٹ کھنا شخص‘ (بات بات پرکاٹ کھانے والا) ’کٹا چھنی‘ یا ’ریل کا ڈبّا کٹ جانا‘ وٖغیرہ کہیں بھی کٹ کے وہ معانی نہیں ملتے جو ’کٹ حجتی‘ میں ہیں۔ البتہ ’کٹھ‘ میں حجت بازکی اُن تمام صفات کا احاطہ ہوجاتا ہے جو مفتی صاحب نے بیان فرمائی ہیں۔
کٹھ حجت یا کٹھ ملا کی ترکیب ادب میں جا بجا ملتی ہے۔ ’’اردو شاعری میں تصوف کی روایت‘‘ کے عنوان سے آلِ احمد سرورؔ لکھتے ہیں:
’’… تو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جس طرح ملا،کٹھ ملائیت کا ترجمان ہے، اسی طرح یہ صوفی حقیقی صوفی نہیں ہے‘‘۔
اسرارؔ جامعی کی نظم ’’دلی درشن‘‘ کا ایک شعر ہے:
شر پنڈت، کٹھ مُلّا دیکھا
رام بھگت، عبداللہ دیکھا
کاٹھ کا مخفف ہونے کے علاوہ ’کٹھ‘ کے معانی محنت، مشقت اور ریاضت کے بھی ہیں۔ یہ’ کشٹ‘ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ اسی ’کٹھ‘ سے ’کٹھن‘ اور ’کٹھنائی‘ بنا ہے۔محنت و مشقت سے بنایا ہوا قلعہ یا حصار’کوٹھ‘ کہلاتا ہے۔ گودام یا ذخیرہ بھی کوٹھ کہا جاتا ہے۔ کوٹھ سے کوٹھا، کوٹھی اور کوٹھری بنالی گئی۔ غالباً یہی لفظ ’کوٹ‘ میں تبدیل ہو کر بستیوں کے ناموں کے ساتھ بھی لگ گیا۔سیال کوٹ، جام کوٹ، شور کوٹ اور راولا کوٹ وغیرہ۔
حجت کا مطلب دعویٰ، دلیل، بحث و تکراراور باہم جھگڑنا ہے۔ ’ احتجاج‘ اسی سے بنا ہے۔حجت کا ایک مطلب قصدو ارادہ کرنا یا بار بار آنا جاناہے۔’ حج‘ کی اصطلاح انھی معنوں سے اخذ کی گئی ہے۔فقہ میں ’حجت‘ اُس قولِ فیصل (فیصلہ کُن بات) یا دلیل کو کہتے ہیں جس کے بعد کچھ کہنے سننے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ مثلاً: ’’اللہ کا حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی سنت ہمارے لیے حجت ہے‘‘۔
بہر حال، کٹھ حجتی ہو یا کٹ حجتی، ہیں دونوں بُری۔ ان سے بچنے کا حکم ہے۔سورۃ المومنون کی آیت نمبر 3اور سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 72 کی رُو سے اہلِ ایمان لغو، فضول، لایعنی اور لاحاصل باتوں سے منہ پھیر لیتے ہیں اور جہاں کسی قسم کی فضولیات ہو رہی ہوں وہاں سے ان کا گزرہو تو مہذّب طریقے سے کترا کر نکل جاتے ہیں۔