اللہ کا احسان مانیے

بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا یہ میرے نوکر مجھ سے زیادہ کیسے خوش باش پھرتے ہیں؟ جبکہ ان کے پاس کچھ نہیں اور میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے؟وزیر نے کہا : بادشاہ سلامت ، اپنے کسی خادم پر قانون نمبر ننانوے کا استعمال کر کے دیکھیئےبادشاہ نے پوچھا :اچھا یہ قانون نمبر ننانوے کیا ہوتا ہے ؟وزیر نے کہا :بادشاہ سلامت ، ایک صراحی میں ننانوے درہم ڈال کر ، صراحی پر لکھیئے اس میں تمہارے لیئے سو درہم ہدیہ ہے ، رات کو کسی خادم کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھ کر دروازہ کھٹکھٹا کر ادھر اُدھر چھپ جائیں اور تماشہ دیکھ لیجیئے بادشاہ نے یہ تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا اور جیسے وزیر نے سمجھایا تھا ، ویسے ہی کیا ، صراحی رکھنے کے بعد دروازہ کھٹکھٹایا اور چھپ کر تماشہ دیکھنا شروع کر دیا .دستک سن کر اندر سے خادم نکلا ، صراحی اٹھائی اور گھر چلا گیا . درہم گِنے تو ننانوے نکلے ، جبکہ صراحی پر لکھا سو درہم تھا . خادم نے سوچا : یقیناََ ایک درہم کہیں باہر گرا ہوگا . خادم اور اس کے سارے گھر والے باہر نکلے اوردرہم کی تلاش شروع کر دی.ان کی ساری رات اسی تلاش میں گزر گئی . خادم کا غصہ اور بے چینی دیکھنے لائق تھی ۔ اس نے اپنے بیوی بچوں کو سخت سست بھی کہا کیونکہ وہ درہم تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے.کچھ رات صبر اور باقی کی رات بَک بَک اور جھَک جَھک میں گزری .دوسرے دن یہ ملازم محل میں کام کرنے کیلئے گیا تو اس کا مزاج مکدر ، آنکھوں سے جگراتے ، کام سے جھنجھلاہٹ ، شکل پر افسردگی عیاں تھی .بادشاہ سمجھ چکا تھا کہ ننانوے کا قانون کیا ہوا کرتا ہے .لوگ ان 99 نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو الله تبارک و تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہوتی ہیں. اور ساری زندگی اس ایک نعمت کے حصول میں سر گرداں رہ کر گزار دیتے ہیں جو انہیں نہیں ملی ہوتیاور وہ ایک نعمت بھی الله کی کسی حکمت کی وجہ سے رُکی ہوئی ہوتی ہے جسے عطا کر دینا الله کیلئے بڑا کام نہیں ہوا کرتا.لوگ اپنی اسی ایک مفقود نعمت کیلئے سرگرداں رہ کر اپنے پاس موجود ننانوے نعمتوں کی لذتوں سے محروم مزاجوں کو مکدر کر کے جیتے ہیں .حاصل ہو جانے والی ننانوے نعمتوں پر الله تبارک و تعالٰی کا احسان مانیئے اور ان سے مستفید ہو کر شکر گزار بندے بن کر رہیئے…