ششماہی الایام کراچی

مجلہ
:
ششماہی الایام کراچی
مدیرہ
:
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
نائب مدیران
:
ڈاکٹر حافظ سہیل شفیق
ڈاکٹر زیبا افتخار
صفحات
:
240 قیمت:فی شمارہ:400 روپے
سالانہ:700 روپے
ناشر
:
مجلس برائے تحقیق اسلامی تاریخ و ثقافت۔ فلیٹ نمبر A-15، گلشنِ امین ٹاور
گلستان ِجوہر، بلاک 15،کراچی
ای میل
:
nigarszaheer@yahoo.com
فون
:
0300-2268075/0300-9245853
کراچی سے شائع ہونے والے علمی و تحقیقی جریدے الایام کا 23 واں یعنی جلد 12 کا پہلا شمارہ ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ اداریے میں تحریر فرماتی ہیں:
’’مغرب میں نشاۃ الثانیہ کے نتیجے میں چند فکری رویّے سامنے آئے:
-1 قوم پرستی (Nationalism)
-2 جمہوریت (Democracy)
-3 لادینیت (Secularism)
اٹھارویں اور انیسویں صدی میں یہ نظریات مختلف راستوں سے مشرقی اور اسلامی علاقوں میں پھیل گئے طلبہ، تاجروں اور احتکاک کے ذریعے۔ اس وقت عثمانی سلطنت میں اور اس کے زیر تسلط عرب علاقوں میں بھی نظریات پھیلنے لگے۔ پھر ان نظریات کے کچھ وکلا اندرونی طور پر بھی میسر آگئے اور انہوں نے ’’قوم پرستی‘‘ کی ترویج کے لیے قومی ادارے بنائے اور سلطنتِ عثمانیہ سے الگ ہوکر اپنی قومی ریاستوں کی تشکیل کے لیے کوشاں ہوئے۔ یورپ اور مغربی دنیا اس معاملے میں ان کی مددگار تھی، کیونکہ قوم پرستی (Nationalism) کے دروازے سے جمہوریت اور لادینیت کا راستہ بھی کھل جاتا تھا اور یہ مغربی مفادات کے عین مطابق تھا۔
جنگِ عظیم اوّل کا خاتمہ ہوا، عربوں کی قومی ریاستوں کی تشکیل شروع ہوگئی، مغرب (خصوصاً فرانس اور برطانیہ) کی استعماری حکمتِ عملی کے عین مطابق سلطنتِ عثمانیہ کے کھنڈرات سے عربوں کی قومی ریاستوں نے جنم لیا۔ مصر، شام، عراق، لبنان، فلسطین، اردن اور حجاز (جو بعد میں سعودی عرب بنا) کی حکومتیں قائم ہوگئیں، اور ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام کے قانونی جواز کو بشکل اعلاِن بالفور تلاش کرلیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ادارے کے قیام نے ایک طبقاتی عالمی سماج کو جنم دیا جس کا اعلیٰ طبقہ پانچ عالمی طاقتیں تھیں اور نچلا طبقہ باقی ممالک۔
مسلمانوں کا دورِ شوکت ختم ہوا، دورِ غربت کا آغاز ہوا۔
پاکستان اسی دورِ غربت کی پیداوار ہے۔ بیسویں صدی میں قائم ہونے والی اِس ریاست کی بقا کے لیے ضروری تھا کہ وہ بھی انہی عصری سیاسی اقدار کی پابندی کرے جن کو عالمی بزر جمہروں نے اقوام عالم کے لیے پسند کیا ہے، یعنی قوم پرستی، جمہوریت اور لادینیت۔
پاکستان نے قوم پرستی اور جمہوریت کو تو اختیار کرلیا لیکن لادینیت یا سیکولرازم کے راستے میں نظریۂ پاکستان اور پاکستانی عوام بہت بڑی رکاوٹ بن گئے۔ پاکستان کی بنیاد نظریاتی تھی، جس کا دفاع پاکستانی آئین بھی کرتا ہے، لہٰذا یہاں سیکولرازم یا لادینیت کو ہمیشہ ’’پاکستان مخالف‘‘ رویہ سمجھا گیا… اسلام مخالف تو ہے ہی۔
پاکستانی عوام جو اسلام کے سیدھے سادے اصولوں پر پابند ہیں، بدقسمتی سے مفاد پرست سیاست دانوں، موروثی جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، گدی نشینوں اور مذہبی پیشوائوں کے ہاتھوں بری طرح استعمال ہوئے، اور اپنا اور اپنی نسلوں کا نقصان کرتے چلے آئے ہیں۔ یہ وہ بے چارے کم علم اور بے حیثیت عوام ہیں جو کھوکھلے نعروں اور دوسروں کے سیاسی و مذہبی مفادات پر قربان ہونا عین سعادت سمجھتے ہیں۔
نتیجہ…!
وہی جو آپ دیکھ رہے ہیں!
وہ فکر جس کی اپنی تاریخ نہیں، اس کی افادیت اور نتیجہ خیزی کم ہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی خستہ حال اور پراگندہ قوم حیاتِ نو کی جدوجہد کرتی ہے تو سب سے پہلے اُسے اپنے ماضی کی تلاش ہوتی ہے، وہ اپنی قومی یا ملّی فکری روایات کو زندہ کرنے اور انہیں اپنانے کی شعوری کوشش کرتی ہے۔ تاریخ میں ہر قوم کا یہی عمل رہا ہے، اب اگر ہم اپنی فکری روایات سے ہی کٹ جائیں تو بچے گا کیا؟
علامہ اقبال کا کہنا تھا:
ضبط کن تاریخ را پائندہ شو
از نفس ہائے رمیدہ زندہ شو
تسلسلِ حیاتِ ملّی اس پر منحصر ہے کہ مخصوص ملّی روایات کو کس حد تک اختیار کیا گیا اور کس حد تک ان کی حفاظت کی گئی۔
شاخ بریدہ را نظرے بر بہار نیست
(شاخ جب درخت سے کٹ جاتی ہے تو اس پر بہار نہیں آیا کرتی)
اس شمارے کے محتویات۔ مقالات:
-1 ’’مملکت ِآصفیہ کی تاریخ نویسی کا ایک نابغہ: ڈاکٹر عمر خالدی‘‘ معین الدین عقیل
-2 ’’ایک قصۂ پارینہ (صاحب زادہ آفتاب احمد خاں)‘‘ زاہرہ نثار
-3 ’’کچھ ابنِ خلدون کے بارے میں‘‘محمد کاظم
ادبیات:
٭تراجم: ’’پانچویں صدی ہجری میں اثنا عشری کلامی فکر: ایک مطالعہ‘‘ سید عبیداللہ جمیل
٭مکتوبات: ’’مکتوبات ڈاکٹر نسیم فاطمہ بنام ڈاکٹر معین الدین عقیل‘‘معراج جامی
٭ سفرنامہ:’’ ازلاہور تا بخارا‘‘ عارف نوشاہی
لسانیات:
اردو عربی مکالمے
اردو حریفہ میقالے۔۔۔۔من الف الحراث: غازی علم الدین۔
٭خودنوشت: شعلہ بجاں: رحمن کیانی
٭ منزل بہ منزل: اقبال عظیم
٭ حالات ِزندگی: عبیداللہ سندھی
٭تبصرہ کتب:’’ تاریخ معتزلہ ایک مطالعہ از نگار سجاد ظہیر‘‘ سہیل شفیق
مجلہ سفید کاغذ پر طبع ہوا ہے۔ تمام مقالات و مضامین علم افروز اور اعلیٰ ہیں۔