کراچی میں دہشت گردی اور اسٹریٹ کرائم

کراچی جہاں تعلیم ہے، شعور ہے، وسائل ہیں، ملک کی مجموعی آبادی کا 10 فیصد کراچی میں آباد ہے، اس شہر کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہاں ہر خطے کے باشندے آباد ہیں، یہ قائداعظم کا شہر ہے، اس کا شمار دنیا کے دس بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ کراچی ملک کے محصولات کا 70 فیصد فراہم کرتا ہے۔ کراچی میں ملک کی 60 فیصد صنعتیں موجود ہیں۔ اس وقت ملک کا یہ سب سے اہم شہر پھر جرائم پیشہ افراد کے نشانے پر ہے، اورلگتا ہے کہ کراچی ایک بار پھر دہشت گردی اور اسٹریٹ کرائمز کا شہر بن گیا ہے جہاں ملک کے وزیراعظم کے معاونِ خصوصی کے ترجمان بھی محفوظ نہیں جن کو گلستانِ جوہر پرفیوم چوک کے قریب ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب اسٹور کے قریب کھڑی کار پر دو ملزمان نے فائرنگ کرکے زخمی کردیا اور فرار ہوگئے۔واقعے کے بعد وہ خود اپنی گاڑی چلا کر نجی اسپتال پہنچے۔ اطلاع پر پولیس اور پی ٹی آئی کے عہدیداران بھی اسپتال پہنچ گئے۔ وہ اسلام آباد سے اپنے سسر کی عیادت کے لیے کراچی آئے ہوئے ہیں اور رات میں اسپتال میں داخل سسر کی عیادت کے لیے نکلے تھے،انہوں نے راستے میں ایک اسٹور پر پانی کی بوتل خریدنے کے لیے گاڑی روکی تھی کہ موٹرسائیکل سوار دو ملزمان گاڑی کے دونوں اطراف سے آئے اور فائرنگ کرکے فرار ہوگئے۔ اسی دن نارتھ ناظم آباد میں مسلح ڈاکووں نے ڈکیتی میں مزاحمت پر کار پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق اور2 افراد شدید زخمی ہوئے۔ اس سے تین، چار دن قبل وکیل رہنما عرفان علی مہر کو اُن کے معصوم بچوں کے سامنے قتل کیا گیا۔ اسی طرح اگلے دن سیشن جج سجاول نویدالحسن کولاچی کو اہلِ خانہ سمیت لوٹ لیا گیا، نویدالحسن فیملی سمیت ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے تھے کہ نامعلوم ملزمان لاکھوں روپے مالیت کے چار موبائل فون چھین کر فرار ہوگئے۔
کراچی میں حالات بہت عرصے سے خراب ہیں لیکن اس شہر کو پُرامن دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کراچی میں گزشتہ برس کی نسبت رواں سال پندرہ ہزار سے زائد وارداتیں ریکارڈ ہوئیں۔ سی پی ایل سی کے ذرائع کے مطابق رواں سال کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں 65ہزار سے تجاوز کر گئیں۔ رواں سال موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتوں میں 84فیصد اضافہ ہوا۔ گزشتہ سال کی نسبت رواں سال موٹر سائیکل چھیننے کی ایک ہزار 709وارداتیں زیادہ ہوئیں۔ موٹرسائیکل چوری میں 36 فیصد اضافہ ہوا، یعنی 10ہزار 338وارداتیں زیادہ ہوئیں۔ رواں سال کے 10 ماہ میں شہری 42ہزار 897 موٹر سائیکلوں سے محروم کردئیے گئے۔ گاڑی چوری کی وارداتیں 21فیصد اور گاڑی چھیننے کی وارداتیں 14 فیصد بڑھ گئیں۔ رواں سال گزشتہ سال کی نسبت گاڑی چوری اور چھیننے کی 286وارداتیں زیادہ ریکارڈ کی گئیں۔ رواں سال اب تک ایک ہزار 711 گاڑیاں چوری کی گئی اور چھین لی گئی ہیں۔ رواں سال موبائل فون چھیننے کی وارداتیں 17فیصد بڑھ گئیں اور گزشتہ سال کی نسبت 3018 زیادہ واقعات رپورٹ کیے گئے۔ 20ہزار 952 موبائل فون چھینے اور چوری کیے گئے۔ ریکارڈ کے مطابق 2020ء کے پہلے 10 ماہ میں 30ہزار 850 موٹر سائیکلیں، ایک ہزار425گاڑیاں چوری و چھینی گئی تھیں۔ یہ اعداد و شمار پولیس کے بتائے ہوئے اور صرف اسٹریٹ کرائمز کے ہیں۔ گھروں میں ڈکیتی، چوریاں، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور بینک ڈکیتی کی وارداتیں اس کے علاوہ ہیں۔ پولیس ہی کے مطابق اسٹریٹ کرائمز کی 90 فیصد وارداتیں تھانے میں رپورٹ نہیں ہوتیں، صرف وہ وارداتیں رپورٹ ہوتی ہیں جن میں قانونی تقاضے لازمی ہوتے ہوں یا کوئی شخص مارا جائے یا زخمی ہوجائے۔
شہری موبائل فون، نقدی اور قیمتی اشیاء سے محروم ہوجاتے ہیں، اے ٹی ایم سے رقم نکلوا کر آنے والے شہری بھی مسلح افراد کا نشانہ بنتے ہیں۔ گاڑیوں سے ساؤنڈ سسٹم، بیک ویو مرر اور بیٹری کی چوری اس شہر میں بہت عام بات ہے۔ پولیس کا عمومی رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ وارداتوں کے مقدمات درج کرنے سے گریز کرتی ہے اور متاثرین کو یہ کہہ دیتی ہے کہ موٹر سائیکل، یا کار کا مقدمہ درج کرنے کی صورت میں انہیں عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور بعد میں پریشان بھی ہوں گے۔ اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا جس قسم کا عدالتی نظام ہے اُس میں اگر کار یا موٹرسائیکل مل بھی جائے تو وہ سالوں عدالتوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں۔
اس وقت شہر یتیم ہے اور یہاں ڈاکو راج ہے، انتظامیہ نام کی کوئی چیز ڈھونڈے سے نہیں ملتی، پولیس کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ پولیس میں ٹرانسفر اور پوسٹنگ کےالگ مسائل ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت روایتی اجلاس بھی ہوا، جس میں وکیل عرفان مہر کی ٹارگٹ کلنگ کا نوٹس لیا گیا، اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وکیل عرفان مہر کے قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور اسٹریٹ کرائمز کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ لیکن شاید کہانی اتنی سادہ نہیں ہے جتنا وزیراعلیٰ بتانے کی کوشش کررہے ہیں۔ صورتِ حال بیان سے بہت زیادہ خراب اور تشویش ناک ہے، کیونکہ کراچی میں حالیہ دہشت گردی میں جہاں انتہائی پروفیشنل قاتل ملوث ہیں وہاں اہم بات یہ بھی ہے کہ کم سن لڑکوں کے اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے جن کی عمریں چودہ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہیں، اور اگر یہ نسل خراب ماحول، بے روزگاری یا کسی بھی وجہ سے
جرائم پیشہ افراد کے ہتھےچڑھ گئی تو شہر کا آئندہ کیا منظر ہوگا؟ اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ اس وقت یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جرائم میں اضافے کی وجہ جہاں سیکورٹی اداروں کی غفلت، لاپروائی اور غیر پیشہ ورانہ ہونا ہے، وہاں یہ ایک معاشرتی اور سماجی مسئلہ بھی بن گیا ہے۔ ہماری نئی نسل بے مقصد زندگی کے ساتھ جرائم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ لیکن اس صورتِ حال میں سوال یہ بنتا ہے کہ جب شہر جرائم کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اور اس میں ہر قسم کے جرائم کھلے عام ہورہے ہیں، اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ان گھنائونے جرائم کی طرف راغب ہورہی ہے، ایسے میں  ہمارے سیکورٹی ادارے کیا کررہے ہیں؟ پولیس کیا کررہی ہے؟ رینجرز کیا کررہے ہیں؟ کیا کراچی اور کراچی کے تین کروڑ سے زیادہ شہریوں کا مقدر یہی ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنی قیمتی اشیا اور جانیں لٹیروں پر قربان کرتے رہیں؟