بھارت کے ان عزائم پر اقوام متحدہ میں احتجاج لازم ہے
بھارت کے مرکزی وزیر جتندرا سنگھ نے تقسیم کے وقت آزاد کشمیر سے جاکر دہلی جا بسنے والے میرپور کے ہندوئوں کی تنظیم ’’میرپور بلیدان دیواس‘‘ کے زیراہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دفعہ370کے خاتمے کے بعد بھارت کا اگلا ہدف آزادکشمیر کو واپس حاصل کرنا ہے۔ جو حکومت 370کو ختم کرسکتی ہے وہ آزاد کشمیر کو واپس لینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ بھارتی وزیر نے آزاد کشمیر سے جانے والے ہندوئوں سے کہا کہ وہ اپنے اصل ڈومیسائل حاصل کریں۔ جتندرا سنگھ کا کہنا تھا کہ برصغیر کی تقسیم ایک المیہ تھا، جبکہ جموں وکشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے پاس جانا دوسرا المیہ تھا۔ آزادکشمیر کا حصول صرف سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر ہی ضروری نہیں بلکہ یہ انسانی حقوق کا مسئلہ بھی ہے کیونکہ آزادکشمیر کے عوام کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
بھارت کے یہ وزیر جموں وکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اور اودھم پور سے بھارتی لوک سبھا کے رکن ہیں۔ اس کے کچھ دن بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاستی شاخ کے صدر رویندر رینا نے وادی نیلم کے قریب کنٹرول لائن پر ٹیٹوال کا دورہ کیا اور آزاد کشمیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے پہاڑی لوگ ہیں اور جلد ان علاقوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا جھنڈا لہرائے گا۔ جتندرا سنگھ شاید کشمیر سے دور دہلی کی فضائوں میں بات کررہے تھے اس لیے اُن کا زاویۂ نظر اور پیرایہ ٔ اظہار جارحانہ تھا اور وہ آزادکشمیر کو بزور طاقت حاصل کرنے کی با ت کررہے تھے۔ زمین اور قصۂ زمین سے دور دہلی میں دن میں ایسے خواب آنا قطعی عجیب نہیں، مگر رویندر رینا جو جموں میں اکثر جوشیلے ہوتے ہیں، کنٹرول لائن تک پہنچتے پہنچتے خاصے بدل گئے اور انہوں نے دریائے نیلم کے کنارے کھڑے ہوکر آزادکشمیر میں بھارتی ترنگے کے بجائے بھارتیہ جنتا پارٹی کا پرچم لہرانے کی بات کی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اسی طرح ایک سیاسی جماعت ہے جس طرح آزاد کشمیر میں بہت سی مرکزی جماعتیں ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے ریاست جموں وکشمیر کے بہت سے ہندو ڈوگرے اور وادی کے پنڈت وابستہ ہیں، اور اب تو مسلمانوں میں بھی یہ وائرس پھیلتا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر ریاست کی بنیاد پر کوئی حل نکلتا ہے تو سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اِدھر اُدھر لہراتے رہیں، مگر بھارتی ترنگا لہرانا آگ سے کھیلنے کی خواہش کا آئینہ دار ہے۔ ان درفنطنیوں سے وقتی واہ واہ تو ہوجاتی ہے، مگر اس سے ایک ذہنیت بھی وجود میں آرہی ہے۔ سوچ کا ایک دھارا بھی وجود پذیر ہورہا ہے۔آزادکشمیر کو انسانی حقوق کا کیس بنا نا حقیقت میں آزادکشمیر کے عوام کی جانب جال پھینکنا ہے۔جتندرا سنگھ اور رویندر رینا کو آزادکشمیر کی سیر کا ایک موقع ضرور ملنا چاہیے۔ وہ جس آزادکشمیر کی کسمپرسی کی بنیاد پر اپنا مقدمہ گھڑنا چاہتے ہیں وہ شاید مریخ پر ہے۔آزادکشمیر کے قریبی کنٹرول لائن پار کے علاقوں کی نسبت یہاں معیارِ زندگی بہتر ہے۔یہاں کے عوام کے پاس مواقع اور امکانات بھی زیادہ ہیں۔
بنیادی حقوق سے محرومی کا یہ آخری کارڈ بھارت مشرقی پاکستان میں کھیل چکا ہے۔ اب پلوں تلے بہت پانی بہہ چکا ہے، اس لیے کسمپرسی کا یہ رونا آزادکشمیر کے عوام کے دل موم نہیں کرسکتا۔ بھارتی قیادت کو یہ خوش فہمی دل سے نکال دینی چاہیے کہ وہ آزادکشمیر میں عوامی سطح پر ترقی کا کوئی لالچ دے کر نقب زنی کرسکتے ہیں۔ یہاں کے عوام بہادر، جری اور جفاکش ہیں، جنہوں نے ہر دور میں بھارتی جارحیت کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے۔
بھارت کی یہ پالیسی بہت واضح نظر آتی ہے کہ 5 اگست 2019ء کے بعد مقبوضہ کشمیر کے بجائے آزادکشمیر کا وجود اور جواز موضوعِ بحث بناکر پاکستان کو دفاعی پوزیشن میں دھکیلا جائے اور اس کے لیے مہاراجا کے الحاق کو بنیاد بنایا جائے۔ 1994ء میں بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے ایک قرارداد منظور کرائی گئی تھی جس میں پوری ریاست جموں و کشمیر (جس میں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان بھی شامل تھے) کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا گیا تھا۔ یہ کشمیر کی متنازع حیثیت سے بھارت کا حتمی انحراف تھا اوراُس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی بھارتی سیاست میں نوآموز اور بے وقعت تھی۔ اُس وقت کانگریس کی حکومت تھی اور نرسمہارائو بھارت کے وزیراعظم تھے۔
پانچ اگست کو کشمیر کی شناخت ختم کرتے وقت بھی بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ ریاست جموں وکشمیر کا مطلب وہ علاقے بھی ہیں جو پاکستان اور چین کے کنٹرول میں ہیں۔ یوں بھارت کی نظریں آزاد کشمیر پر تو ہیں مگر یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ بھارت کے ان دعووں کو مکمل خلائی دعوے بھی نہیں سمجھنا چاہیے، اور یہ ایک مخصوص ذہنیت کے عکاس ضرور ہیں۔ چالیس سال پرانی نریندر مودی کی ایک تصویر میں پس منظر میں آویزاں مقاصد میں دفعہ370کا خاتمہ بھی واضح طور پر درج ملتا ہے۔ اُس دور میں یہ دعویٰ دیوانے کی بڑ ہی کہلا سکتا تھا مگر بعد میں مطلق طاقت حاصل کرنے کے بعد نریندر مودی نے اپنا یہ دعویٰ سچ ثابت کردکھایا۔
حکومتِ پاکستان آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کا کنٹرول اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت سنبھالے ہوئے ہے، اور اس علاقے کی متنازع شناخت کو بحال رکھے ہوئے ہے۔ اس لیے بھارت کے ان عزائم پر اقوام متحدہ میں احتجاج لازم ہے۔ اس حوالے سے لندن میں مقیم جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کے سیکرٹری جنرل سید نذیر گیلانی نے بھی بھارت کے ان عزائم اور ارادوں کے خلاف ردعمل ظاہرکرنے کا مطالبہ کیا ہے۔