گوادر تاریخ میں پہلی بار کروڑوں انسانوں کی نگاہ کا مرکز بن گیا ہے اور اس کا ہیرو ایک غریب ماں باپ کا بیٹا ہے اس کا گھر ایک عام مٹی سے بنا ہوا ہے۔ وہ عام انسانوں کے درمیان رہتا ہے اس کے وہی مسائل ہیں جو ایک دربدر خاک نشین انسان کے ہوتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کے مسائل جانتا ہے جو ایک غریب مچھلی پکڑنے والے کے ہوتے ہیں، نہ اس نے کبھی بلوچ قومیت کا نعرہ بلند کیا اورنہ بلوچ قومیت کو انتخاب جیتنے کے لیے استعمال کیا ہے ۔ اس کے فرزند بھی ایک خاک نشین کے بچے ہیں۔ سینکڑوں برسوں سے اس کے آبا و اجداد اس خاک میں رہتے ہیں اور اسی خاک میں سو گئے ہیں، نہ ان کی قبروں پر سنگ مرمر پر نیم پلیٹ لگی ہوئی ہے بلکہ گمنام قبروں میں محو خواب ہیں، نہ ہدایت الرحمن نے بلوچیت کا دعویٰ کیا ہے، نہ قوم پرست ہونے کا علمبردار ہے، وہ تو محرومیوں اور مسائل کے درمیان سے اٹھا ہے، اس کی آواز میں ایک مسلسل چیخ ہے، شدید ردعمل ہے، ان لوگوں کے خلاف جو انسانوں کو زر و جواہر میں تولتے ہیں، اس کی آواز میں نہ منافقت ہے نہ نام نہاد قوم پرستی ہے بلکہ وہ تو صدیوں سے محروم اور پسے ہوئے لوگوں کی صدائے احتجاج ہے، وہ اپنے علاقے کے محروم اور مظلوم انسانوں کی آواز ہے، اس کی آواز میں رعب اور دبدبہ ہے۔ اس کی پشت پر مظلوم اور خاک نشین عورتوں کی آواز صور اسرافیل کی مانند گونج رہی ہے۔ گوادر کا نیلگوں اور سحر انگیز پانی کہیں خون نہ اگلنا شروع کردے۔ اقتدار میں محو خرام امرا کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔ ایک زلزلہ سا لگ رہا ہے ،ارتعاش ہے۔
ہدایت الرحمن کی پشت پر مظلوم اور بے غرض انسان ہیں جو سینکڑوں سالوں سے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور زرپرستوں کی زرپرستی کا نشان بنے ہوئے تھے۔ گہری نیند سے ان سب مظلوموں کو ہدایت الرحمن کی ایک مخلصانہ صدا نے بیدار کردیا ہے۔ یہ کام کسی قوم پرست، پارٹی نے آج تک نہیں کیا انہوں نے اقتدار میں آکر بلوچستان کے لوگوں کو فراموش کردیا تھا، انتخاب میں قوم پرستی کی بدولت اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں اور ان کے فرزند اسلام آباد، لاہور اور برطانیہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس کو وہ عجز انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ہدایت الرحمن کی ایک للکار نے ایوان اقتدار میں محو خواب رہنے والوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ قوم پرست پریشان ہیں اضطراب ہے، سیاست کا نقشہ رنگ بدلتا ہوا نظر آرہا ہے،بلوچوں کا خان بھی برطانیہ کے سحرانگیز اور پرکشش ماحول سے بیدار ہوگیا ہے اور اسے آج بلوچستان یاد آرہا ہے۔ میدان عمل خان بلوچ کو پکار رہا ہے کہ وطن لوٹ آئو اور مظلوموں کی صف میں کھڑے ہوجائو۔ آج میدان عمل گواہی دے گا کہ کون اس کشمکش میں ایک نحوت سے کھڑا ہے۔
ہدایت الرحمن کی آواز جرأت مندانہ آواز نے مظلوم خواتین کو بھی بیدار کردیا ہے اور اپنے گھروں سے دیوانہ وار نکلی ہیں۔ گوادر کی بلوچ مظلوم خواتین کا یہ احتجاج جدوجہد کی تاریخ کو تیسرے الفاظ سے یاد رکھے گا اس کسی سردار اور نہ کسی قوم پرست پارٹی کی صدا نے بیدار کیا ہے بلکہ یہ آواز تو ہدایت الرحمن کی ہے جو ان کے گلی کوچوں سے گزرتا ہوا آج میدان عمل میں ایک طاقتور چٹان کی مانند کھڑا ہے اس کی آواز نے اسے ہمالیہ سے بھی بلند کردیا ہے بعض قوم پرست پارٹیوں میں اضطراب ہے بے چینی ہے، نیند اڑ رہی ہے۔ نواب بگٹی نے جب ان قوم پرستوں سے کو قریب سے دیکھا تو جرأت سے کہا’’ یہ قوم پرست نہیں ہیں پیٹ پرست ہے‘‘۔
میرا سوال یہ ہے کہ گوادر کے ساحل پر یہ کن لوگوں کے ٹرالر ہیں جو کئی برسوں سے گوادر کے غریب مچھیروں کے رزق پر سر عام ڈاکہ ڈال رہے ہیں، ان غریب مچھیروں کی صبح تو آج تک طلوع نہیں ہوئی ہے ان کی محرومیاں ویسی ہیں جو ان کا کل تھا۔ ان کے خواب تو ادھورے رہ گئے ہیں، ٹرالر کئی لوگوں کے ہیں اس کا جواب ایوان اقتدار میں رہنے والوں کے پاس نہیں ہے۔ زبان لڑکھڑاتی ہے ان کا نام لینے سے، ایک وزیر محترم کا ارشاد ہے ہمیں 3 ماہ دیے جائیں کیوں؟ ٹرالر کن کے ہیں، کس نے ان سے معاہدے کیے ہیں پانچ نہیں دس سال تک قوم پرست پارٹیاں کیوں چپ رہی ہیں۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ ہدایت الرحمن کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ اس کی زندگی کا چراغ گل کردیا جائے۔ مسلح حصار میں رہنے والے اسی طرح سوچتے ہیں۔ اب طاقت کا استعمال چاہتے ہیں لشکرکشی کا ارادہ ہے۔ پانچ ہزار مسلح سپاہی گوادر پہنچیں گے کیوں جانا چاہتے ہیں، اتنے بڑے احتجاج میں کسی کے ناک سے تو خون بھی نہیں نکلا۔ سرکار کی عمارتوں میں آگ کے شعلے نہیں بھڑکے، کسی کو نقصان نہیں پہنچا، پرامن دھرنے نے گوادر کے نیلگوں سحرانگیز ساحل پر خون کے دھبے نہیں لگائے، کسی کا خون نہیں ٹپکا کسی کا گھر نہیں جلایا گیا تو پھر لشکرکشی کا ارادہ کیوں۔ شعلوں کو کیوں ہوا دینا چاہتے ہیں، کیوں محروم لوگوں کی زندگی کا چراغ گل کرنا چاہتے ہیں، آج سے کوئی 8 یا 10 سال پہلے گوادر کا دورہ کیا تو ایک کالم لکھا تو اس وقت تک سی پیک کا نام و نشان تک نہ تھا۔ سعید بلوچ کے ساتھ گوادر کے ساحل پر گیا اور پہاڑی پر چڑھ گیا اور ساحل کے قریب ہوگیا تو سمندر کے شور کا دبدبہ اس وقت دل دہلانے والا تھا، سمندر پر جوش تھا اس کا جاہ و جلال دیکھنے والا تھا، اس نظارہ میں کھوسا گیا، امریکہ اور ناٹو افغانستان میں خون کا کھیل کھیل رہے تھے اور بعض مغرب نواز قوم پرست خوشی سے بغلیں بجا رہے تھے کہ امریکہ کی قوت قاہرہ کے سامنے طالبان زیادہ نہ ٹھہر سکیں گے لیکن تاریخ نے ایک اور سنہرا باب روشن کردیا اور امریکہ اپنی قوت جابرانہ اور ظالمانہ کے باوجود طالبان سے شکست کھا گیا اور پیچھے مڑ کر ہی نہیں دیکھا تو اس وقت ایک کالم لکھا گوادر کے حوالے سے ’’کہیں گوادر خون نہ اگلے‘‘ آج جب میری نگاہوں سے یہ خبر گزری کہ ’’حکومت بلوچستان پانچ ہزار مسلح سپاہی گوادر بھیج رہی ہے‘‘ کیا گوادر میں عوام قانون توڑ رہے ہیں گھیرائو جلائو کررہے ہیں تو پھر اس لشکر کشی کا کیا جواز ہے۔