خواتین کے بڑی تعداد میں نکلنے کی نظیر بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی
بلوچستان کے لاینحل مسائل اور اقتدار کی چار دیواری کے اندر مختلف النوع عنوانات کے ساتھ ضروریات کی رسّا کشی اب تک موجود و جاری ہے۔ درحقیقت یہ عنوانات سیاسی جماعتوں اور لوگوں کے نزدیک سیاسی و اصولی بیانیہ ٹھیرا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے عبدالقدوس بزنجو یا اُن جیسے دوسرے لوگوں نے بھی جو صوبے کو لاحق مختلف عوارض کے اسباب میں سے تصور کیے جاتے ہیں، اقتدار ہاتھ میں لینے کے لیے صوبے کے مسائل یا گورننس کا حیلہ بیان کیا۔ یقیناً یہ محض فریب بیانی تھی کہ اب صوبہ ایک اور آزمائش سے دوچار ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جن کے سہارے حکومت ملی ہے، اپنی نجی محلفوں میں انہی کی برائیاں کی جاتی ہیں۔ حزبِ اختلاف کے ملک سکندر ایڈووکیٹ جیسے صاف ستھرے لوگ اپنے کیے پر شرمندہ ہیں۔ پَر کریں کیا، کہ سیاسی و جماعتی مجبوریوں نے حصار باندھ رکھا ہے، وگرنہ دل کی بات زبان پر ضرور لاتے۔ حکومت کی کارکردگی بس نوٹس لینے کے متواتر بیانات پر مشتمل ہے۔
شہر میں اگر صفائی کا نظام مفلوج ہے تو اس کے لیے استفسار و سوال وزیر بلدیات سے ہونا چاہیے جو عضوِ معطل ہیں۔ ایڈمنسٹریٹر کی گوشمالی ہو، بلکہ میٹروپولیٹن کے اندر تک تطہیر کرائی جائے جس نے فی الواقع شہر کو تباہ کرنے میں مزید کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔
جامعہ بلوچستان کے اندر دو طالب علم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ یکم نومبر2021ء کو لاپتا ہوئے۔ اگلے روز جامعہ کے طلبہ نے احتجاج شروع کیا اور درس و تدریس کا عمل روک دیا۔ پھر یہ سلسلہ دیگر یونیورسٹیوں اور کالجوں تک پھیل گیا۔ طلبہ تنظیموں اور سیاسی لوگوں نے الزام قانون نافذ کرنے والوں پر عائد کیا ہے۔ چناں چہ مواصلات و تعمیرات کے وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران جامعہ بلوچستان مذاکرا ت کے لیے پہنچ گئے۔ موصوف نے طلبہ کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کی جس میں انہوں نے فرمایا کہ ’’تعلیمی اداروں میں تعلیم کھلے ماحول میں ملنی چاہیے۔ طلبہ میں صلاحیتیں ہیں مگر ان کی صلاحیتوں کو مختلف حیلے بہانوں سے روک دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز سے گزارش ہے کہ انہیں کھلے ماحول میں تعلیم کے مواقع دیں، ملک کے اداروں سے درخواست ہے کہ بلوچستان کے طلبہ کا گلا نہ دبایا جائے۔‘‘ یعنی بادی النظر میں کھیتران کی گفتگو نے الزامات پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
ساحلی شہر گوادر میں 15نومبر سے ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کے نام سے دھرنا ہورہا ہے۔ خواتین اتنی بڑی تعداد میں نکلی ہیں کہ اس کی نظیر بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس تحریک کی قیادت عام لوگ کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمان بلوچ پہلی صف میں کھڑے ہیں۔ وہاں کے عوام اُن کی قیادت میں اکٹھے ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمان غریب، اور مچھیرے خاندان کے فرد ہیں۔ تعجب ہے کہ عبدالقدوس بزنجو سرکار نے اُن کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا ہے۔ اس مکروہ فعل میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی حمل کلمتی اور صوبائی وزیر ظہور بلیدی کی رضا و منشا بیان کی جاتی ہے۔ دونوں بلوچستان اسمبلی میں گوادر اور مکران سے منتخب نمائندے ہیں۔ گویا دوسروں کی طرح انہیں بھی عوامی احتجاج ایک آنکھ نہیں بھایا ہے۔ ٹرالنگ مافیا بھی یقیناً پشت پر ہے۔ جام کمال کابینہ کے اکبر آسکانی اس مافیا کے شریکِ دھندہ رہے ہیں۔ حمل کلمتی کا بھی ٹرالنگ مافیا سے یارانہ رہا ہے۔ جام کمال نے انہیں روکا تو ناراض ہوکر قدوس بزنجو کے حلقے میں شامل ہوگئے۔ افسر شاہی اور مقامی انتظامی عہدیداروں کے آگے بھی جام کمال کھڑے ہوئے۔ حال ہی میں جام کمال اس بارے میں گفتگو بھی کرچکے ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو ایسا کچھ بھی روکنے کے حامی نہیں ہیں۔ ان کا روزگارِ حیات اسی سے جڑا ہے، اگر روکنے کے حامی ہوتے تو اپنی کابینہ میں پھر اکبر آسکانی کو فشریز کا محکمہ نہ دیتے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ سندھ کے سمندر سے تین ہزار ٹرالر شکار کے لیے بلوچستان کی حدود میں آتے ہیں۔ ہر ٹرالر میں 9 ٹن مچھلی اٹھانے کی گنجائش ہوتی ہے۔ فی ٹرالر دو لاکھ روپے لیے جاتے ہیں، جو ماہانہ ساٹھ کروڑ بنتے ہیں۔ یہ خطیر رقم اکبر آسکانی، محکمہ ماہی گیری، اوپر نیچے وردی بے وردی سب میں تقسیم ہوتی ہے، جبکہ مقامی ماہی گیروں کے لیے متعین کردہ صوبائی حدود میں بھی طرح طرح کی مشکلات پیدا کی جاچکی ہیں۔ ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کے مطالبات میں ٹرالنگ یعنی سندھ سے آنے والی بڑی کشتیوں اور ممنوعہ جالوں کے ذریعے بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں غیر قانونی ماہی گیری کی روک تھام، پاک ایران سرحد پر مقامی سطح پر ہونے والی تجارت میں حائل رکاٹوں کو دور کرکے سرحد پر ٹوکن سسٹم اور غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ شامل ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ مقامی ماہی گیروں کو سمندر تک آزادانہ رسائی دے کر ان کا روزگار بحال کیا جائے، کوسٹ گارڈ اور ایف سی کی طرف سے تنگ کرنے، کشتیوں اور گاڑیوں کو پکڑنے کا سلسلہ ختم کیا جائے، شراب خانے اور منشیات کے اڈے بند کیے جائے۔ سوال یہ ہے کہ ان مطالبات میں ایسا کون سا باغیانہ نکتہ شامل ہے جس کی پاداش میں ایک محب وطن شہری اور سیاسی رہنما کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا جائے؟ اور خود حکومت ان مطالبات کو درست تسلیم کرچکی ہے اور اس بابت کچھ اقدامات کیے ہیں۔ مگر مولانا ہدایت الرحمان اور مظاہرین کو مطالبات پر عمل درآمد سے متعلق حکومت پر اعتماد نہیں۔