معیشت کو دانستہ تباہ کیا جارہا ہے مہنگائی کا ایک اور سیلاب آئے گا

غربت،مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے ♦
مہنگائی، حکومت اور ریاستی اداروںکی وڈیرہ شاہی کلچرپر مبنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے ♦
ملکی پاناماز سے ٹیکسوں کی وصولی کرنے سے منی بجٹ کی ضرورت نہیں پڑےگی ♦
اشرافیہ کو نوازنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کو 20 ماہ تک معطل رکھنا نا قابل معافی ہے ♦
جس شخص کی تنخواہ یا آمدنی 25 ہزار روپے ماہانہ ہے اس کے ماہانہ 4 ہزار روپے کا بوجھ پڑے گا ♦
آئی ایم ایف سے قرضے کے لیےجومعاملات طے کیے ہیں وہ ناقابلِ فہم اور ناقابلِ دفاع ہیں ♦

ڈاکٹر شاہدحسن صدیقی کے انکشافات

ممتاز بینکار اور ماہرِ معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی فرائیڈے اسپیشل کے خصوصی تجزیہ کار ہیں جن سے ہم وقتاً فوقتاً ملک کی اقتصادی صورتِ حال پر ملکی اور بین الاقوامی پس منظر میں تجزیہ لیتے رہتے ہیں۔ آپ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کراچی کے چیئرمین، اور انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز پاکستان کے فیلو ہیں۔ آپ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی سنڈیکیٹ کے ممبر رہ چکے ہیں۔ اس سے قبل آپ بینک آف خیبر کی شریعہ کمیٹی کے چیئرمین اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے بورڈ آف گورنرز اور نیشنل اکیڈمک کونسل کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے پاکستان، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں بینکوں میں اہم انتظامی عہدوں پر 30 سال تک خدمات انجام دی ہیںوہ ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں معیشت، اقتصادیات اور بینکنگ بشمول اسلامک بینکنگ پر مقالے پیش کرتےرہے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے اردو اور انگریزی میں پانچ سو سے زیادہ مضامین اور کالم لکھے ہیں۔ ان ہی موضوعات پر ان کے تحقیقی مقالے ملکی و غیر ملکی علمی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد کے معاشی و سلامتی امور پر تجزیے ملکی و عالمی میڈیا پر بھی نشر ہوتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کی تین کتابیں ISLAMIC BANKING
PAKISTAN:Economic Growth & Stabilization. Myth or Reality
”پاکستان اور امریکہ: دہشت گردی، سیاست اور معیشت“ شائع ہو چکی ہیں۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے اس انٹرویو میں تفصیل کے ساتھ پاکستان کی معیشت کی حقیقی صورت حال بتاتے ہوئے کئی انکشافات کیے ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں اشرافیہ، بشمول مافیا کی خوشنودی کے لیے آئین اور قوانین توڑکر اور ناقابلِ فہم فیصلے کرکے معیشت کو کس طرح تباہ کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آج بھی سب کچھ ٹھیک ہے کے دعوے کررہی ہے۔ آپ ہمیں بتائیے کہ پاکستان کی معیشت کی کیا صورتِ حال ہے؟
ڈاکٹر شاہدحسن صدیقی: پاکستانی معیشت زبردست مشکلات کا شکار ہے اور اسے سنگین چیلنجز اور خطرات کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے معیشت کو مستحکم کرنے اور معیشت میں بہتری لانے کے دعوے غلط اور غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق بیشتر معاشی اشاریے مالی سال 2018ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہیں۔ ان میں معیشت کی شرح نمو، مجموعی بیرونی سرمایہ کاری، افراطِ زر کی شرح، جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح اور بجٹ خسارہ، مجموعی قرضے و ذمہ داریاں شامل ہیں۔ یہی نہیں، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر تیز رفتاری سے گری ہے جبکہ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ ہوا اور ملک میں غربت، بے روزگاری اور غریب و امیر کے فرق میں اضافہ ہوا ہے۔ تجارتی خسارہ اور جاری حسابات کا خسارہ بھی بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ پچھلے دو برسوں میں برآمدات کے مقابلے میں بیرونی ممالک سے آنے والی کارکنوں کی’’ ترسیلات‘‘ میں زبردست اضافہ ہوا ہے حالانکہ ان ترسیلات کا بڑا حصہ کارکنوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات ہیں ہی نہیںجیساکہ اسٹیٹ بینک کہتا رہا ہے بلکہ اس کا ایک حصہ مالدار افراد سرمایہ کاری کے لیے بھیجتے ہیں جن کا بڑا حصہ ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔ ترسیلات کا خاصا بڑا حصہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق سے فائدہ اٹھا کر دراصل کالے دھن کو قومی خزانے میں ایک روپیہ جمع کرائے بغیر قانونی تحفظ فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ ترسیلات کے اسکینڈل کو روکنا اور انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 11(4) 1کو ختم کرنا ضروری ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ اس بات کو تسلسل کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ ’’تحریک انصاف کے دور میں بیشتر اہم ترین معاشی فیصلے ملکی اور بیرونی اشرافیہ کے دبائو یا ناجائز مفادات کے تحفظ کے لیے کیے گئے ہیں اور اس کا تمام تر بوجھ عوام اور معیشت پر ڈالا جاتا رہا ہے‘‘، اس کی تفصیلات کیا ہیں؟
ڈاکٹر شاہدحسن صدیقی:جی! موجودہ حکومت کی بھی یہ سوچ رہی ہے کہ جب بھی کوئی بحران ہو تو اس کی آڑ میں طاقتور اشرافیہ بشمول مافیا کو ناجائز فائدہ پہنچایا جائے۔ اس کی ایک بہت ہی واضح مثال یہ ہے کہ مارچ 2020ء میں جب کورونا کی وبا پاکستان میں پھیلنا شروع ہوئی تو طاقتور طبقوں کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ کو تیزی سے کم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اس وقت مشکل یہ تھی کہ پاکستان میں افراطِ زر کی شرح بہت زیادہ تھی اور آئی ایم ایف ان حالات میں ڈسکائونٹ ریٹ کو کم کرنے کی اجازت کبھی بھی نہیں دیتا، چنانچہ اس بات کے شواہد نظر آرہے ہیں کہ منصوبہ بندی کی گئی کہ مختلف حربے اختیار کرکے آئی ایم ایف کے قرضے کے پروگرام کو لمبے عرصے تک معطل رکھا جائے۔ یہ پروگرام تقریباً 20 ماہ معطل رہا۔ پاکستان گزشتہ 60 برسوں میں آئی ایم ایف کے 22 پروگرام میں شامل رہا لیکن اتنی طویل مدت تک پاکستان نے کبھی بھی اس پروگرام کو معطل نہیں رکھا۔
یہ امر افسوس ناک ہے کہ اسٹیٹ بینک نے مارچ 2020ء سے جون 2020ء کی مدت میں حیران کن طور پر شرح سود کو 13.25 فیصد سے کم کرکے 7 فیصد کردیا۔ اس طرح شرح سود منفی ہوگئی یعنی افراطِ زر کی شرح سے کم۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے فخریہ کہاکہ دنیا بھر میں ڈسکائونٹ ریٹ میں سب سے زیادہ کمی پاکستان میں کی گئی ہے۔ انھیں اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ کیا خدانخواستہ کورونا کی وجہ سے دنیا میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان میں ہوا تھا؟ اور اگر نہیں تو پھر اس زبردست کمی کا کیا جواز تھا؟
ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی کے اس تباہ کن فیصلے کے ساتھ ہی اسٹیٹ بینک نے وزارتِ خزانہ کی آشیرباد سے بینکوں کو احکامات جاری کیے کہ وہ کم شرح سود پر نجی شعبے کو قرضے فراہم کریں۔ اس فیصلے سے مالدار اور طاقتور اشرافیہ بشمول مافیا نے خوب فائدہ اٹھایا۔ کم شرح سود پر قرضے لے کر غیر ضروری درآمدات کی گئیں اور گاڑیاں خریدی گئیں، نتیجتاً تجارتی خسارہ بڑھنا شروع ہوا اور روپے کی قدر دبائو کا شکار ہوگئی، مگر حکومت اور اسٹیٹ بینک خاموش رہے۔
ڈسکائونٹ ریٹ میں زبردست کمی بلاجواز اور ناقابلِ دفاع ہے۔ اس کمی کے ساتھ ہی اسٹیٹ بینک نے وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر بینکوں کو احکامات جاری کردیئے کہ وہ نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر کھولے گئے کروڑوں کھاتوں کو دی جانے والی شرح منافع میں اوسطاً 5.75 فیصد سالانہ کمی کردیں۔ یہ احکامات آئین کی شق 3 اور بینکنگ کمپنیز آرڈیننس کی شقوں(4) 26-A اور 40-A سے متصادم تھے، چنانچہ یہ فیصلے غیر آئینی، غیر قانونی اور استحصالی تھے۔ ان غلط فیصلوں سے کروڑوں کھاتے داروں کو بینکوں نے جون 2020ء سے اب تک تقریباً 675 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے، اور اس کا فائدہ بینکوں سے قرضے لینے والوں کو پہنچایا گیا۔ وزیر خزانہ کا حلف اپریل 2021ء میں اٹھانے کے بعد شوکت ترین صاحب نے آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرانے کے لیے مذاکرات شروع کیے مگر پاکستانی معیشت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا عمل تاخیری حربے اختیار کرکے تقریباً 5 ماہ تک روکے رکھا اور آئی ایم ایف کا پروگرام معطل رکھا تاکہ کم شرح سود پر بینکوں سے قرضے دیئے جاتے رہیں۔ اس تباہ کن پالیسی کے نتیجے میں معیشت پر جو منفی اثرات مرتب ہوئے ان کی ایک جھلک دیکھ لیں:
(i) جولائی 2021ء سے نومبر 2021ء تک درآمدات کا حجم 33.1 ارب ڈالر رہا جو اس مدت میں پاکستان کی تاریخ میں درآمدات کا سب سے بڑا حجم ہے۔
(ii) جولائی 2021ء سے نومبر 2021ء کے 5ماہ میں تجارتی خسارے کا حجم20.6 ارب ڈالر رہا جو کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک زیادہ ہے۔
(iii) مالی سال 2021ء میں جاری حسابات کا خسارہ 12 ارب ڈالر سے تجاوز کرسکتا ہے۔
(iv) وسط مئی 2021ء سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تقریباً 24 روپے کی کمی ہوئی جوکہ 48 روپے سالانہ بنتی ہے۔ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے پہلے کے 10برسوں میں ڈالر کے مقابلے میں صرف 56 روپے یعنی اوسطاً 5.6 روپے فی ڈالر کی کمی ہوئی تھی۔
ہم اس بات کو دہرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ شوکت ترین کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کرکے پروگرام کی بحالی کا عمل چند روز میں مکمل کرالینا چاہیے تھا، مگر طاقتور طبقوں کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے اس پروگرام کو تقریباً 5 ماہ تک معطل رکھ کر پاکستانی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ دراصل آئی ایم ایف سے مذاکرات جون 2021ء میں ہونے تھے لیکن وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف سے معیشت کے جائزے کے لیے اکتوبر 2021ء تک کی توسیع حاصل کی اور اس دوران معیشت کو تباہ ہونے دیا، اور آخرکار آئی ایم ایف سے تباہ کن شرائط طے کرکے وسط نومبر 2021ء کے بعد پروگرام بحال کرنے کے لیے معاملات طے کر لیے۔ اس سے چند روز قبل اسٹیٹ بینک نے ڈسکائونٹ ریٹ میں اضافہ کیا اور مزید اضافے کی نوید سنادی، کیونکہ آئی ایم ایف کو کم شرح سود قبول نہیں تھی۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر، وزارتِ خزانہ اور شوکت ترین کا احتساب لازماً ہونا چاہیے تاکہ آئندہ قومی مفادات کا سودا کرنے کی کسی کی جرأت نہ ہو۔
(v)حکومت نے بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے سعودی عرب سے تین ارب ڈالر کا ڈیپازٹ لینے کے معاملات طے کیے تھے لیکن حیران کن طور پر کہا کہ اس ڈیپازٹ کی شرائط عوام کو نہیں بتائی جا سکتی۔
فرائیڈے اسپیشل: اومی کرون وائرس کی تباہ کاریوں کے متعلق خدشات کیا ہیں؟
ڈاکٹر شاہدحسن صدیقی:نئے وائرس کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے سے قبل اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوتی رہیں گی چنانچہ 15 دسمبر 2021ء کو حکومت مجبوراً پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرے گی۔ اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ عالمی منڈی میں نہ صرف تیل بلکہ پام آئل (کھانے کا تیل) اور دوسری اشیاء جن کو ہم درآمد کرتے ہیں ان کی قیمتوں میں خاصی کمی ہو گی لیکن پھر بھی افراد زر کی شرح جولائی 2021ء کے مقابلے میں زیادہ رہے گی اور خطے کے ملکوں مثلاًبھارت، بنگلادیش اور سری لنکا کے مقابلے میں زیادہ رہے گی۔عالمی منڈی میں تیل اور دوسری ان اشیا جو ہم درآمد کرتے ہیں ان کی قیمتوں میں کمی سے ہمارا درآمدی بل جو تقریباً 70 ارب ڈالر ہے اس کے حجم میں زبردست کمی ہو گی۔ جس سے تجارتی خسارہ کم ہوگا مگر درآمدات پر کسٹم ڈیوٹی اور دوسرے درآمدی ٹیکسوں میں وصولی متاثر ہو گی۔ اس کے علاوہ برآمدات میں اضافے کی کوششیں بھی متاثر ہو ں گی جب کہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ہو سکتی ہے۔ یہ خدشہ بھی ہے کہ صنعتی و تجارتی سرگرمیاں ماند پڑنے سے شرح نمو متاثر ہو گی خصوصاً بڑے پیمانے پر اشیا سازی کی صنعت کی پیداوار میں کمی ہو گی نچانچہ بیروزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ کووڈ۔ 19 کے بعد حکومت اور اسٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف کا پروگرام معطل رکھا اور شرح ڈسکائونٹ ریٹ میں زبردست کمی رکھی جس سے اگرچہ معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے مگر بے ساکھی کی معیشت اپنا کر اشرافیہ کو نوازا اور ساتھ ہی معیشت کی شرح نمو کو بھی سہارا ملا اب پاکستان چونکہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہے اس لیے شرح سود میں کمی کا ہتھیار استعمال نہیں ہو سکے گا بلکہ دسمبر میں ہی ڈسکائونٹ ریٹ میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ چنانچہ اگر معیشت میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات نہیں کی گئی تو معیشت کو درپیش خطرات دو چند ہو جائیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ اس بات کو تسلسل کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ ’’تحریک انصاف کے دور میں بیشتر اہم ترین معاشی فیصلے ملکی اور بیرونی اشرافیہ کے دبائو یا ان کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لیے کیے گئے ہیں اور اس کا تمام تر بوجھ عوام اور معیشت پر ڈالا جاتا رہا ہے‘‘، اس کی تفصیلات کیا ہیں؟
ڈاکٹر شاہدحسن صدیقی:تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرانے اور قرضے کی ایک ارب ڈالر سے زائد رقم کی قسط حاصل کرنے کے لیے جو شرائط طے کی ہیں وہ ناقابلِ فہم اور ناقابلِ دفاع ہیں۔ اس امر میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ ان شرائط پر عمل درآمد کے نتیجے میں (i)معیشت کی شرح نمو سست ہوگی اور روزگار کے مواقع کم میسر آئیں گے، کیونکہ حکومت معیشت کی شرح نمو بڑھانے کے بجائے پھر معیشت کو مستحکم کرنے کی طرف لوٹ گئی ہے،شوکت ترین صاحب نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی میں بلاجواز پانچ ماہ کا وقت لیا حالانکہ یہ کام چند روز میں ہوسکتا تھا۔ ان کا مقصد سستی شرح سود پر بینکوں کے قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھنا تھا۔ آیئے جو شرائط جون 2022ء کی مدت تک کے لیے منظور کی گئی ہیں ان میں سے کچھ کا جائزہ لیتے ہیں:
(1) پیٹرولیم لیوی (بھتہ) کی مد میں اگلے سات مہینوں میں دسمبر 2021ء سے جون 2022ء تک 356 ارب روپے وصول کرنے کے لیے ہر ماہ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں چار روپے فی لیٹر اضافہ کیا جائے گا، یعنی 50 ارب روپے سالانہ وصول کیے جائیں گے۔ یہ بتانا اہم ہے کہ موجودہ مالی سال کے پارلیمنٹ سے منظور شدہ وفاقی بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں 610 ارب روپے کی وصولی کا تخمینہ تھا جو کہ 50 ارب روپے ماہانہ ہی بنتا ہے، چنانچہ اس معاملے میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں وقت ضائع کرنا بے سود بات تھی۔
(ii) جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں تقریباً 350 ارب روپے کا زرِ اعانت یا چھوٹ واپس لینے کی شرط طے کی گئی ہے، اور موجودہ مالی سال میں ہی ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف 5829 ارب روپے سے بڑھا کر 6100 ارب روپے کیا گیا ہے۔ چنانچہ آئی ایم ایف سے اس بحث کی کوئی گنجائش نہیں تھی کیونکہ وزیراعظم اس عزم کا اظہار کرچکے تھے کہ میں دس ہزار ارب روپے اکٹھے کرکے دکھلائوں گا۔
(iii) ترقیاتی اخراجات میں 200 ارب روپے کی کٹوتی کرنے کی حامی بھری گئی ہے کیونکہ حکومت غیر ضروری اخراجات میں کمی کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھی، اس لیے آئی ایم ایف سے اس معاملے میں بھی بحث کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
(iv) بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کے دور میں گردشی قرضوں کا حجم پہلے ہی 1153 ارب روپے سے تقریباً 3 برسوں میں تجاوز کرچکا تھا جبکہ پچھلی حکومت کے دور میں 5 برسوں میں گردشی قرضوں میں 1123 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ 2018ء کے انتخابات سے کچھ ہفتے قبل تحریک انصاف نے اپنی دس نکاتی حکمت عملی میں کہا تھا کہ ہنگامی بنیادوں پر ان وجوہات کو دور کیا جائے گا جن کی وجہ سے گردشی قرضہ پیدا ہوتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان اپنے دوسرے متعدد وعدوں کی طرح اس وعدے سے بھی پیچھے ہٹ گئے کیونکہ اس سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی تھی۔ شوکت ترین عوام کو تو یہ کہہ کر تسلی دیتے رہے تھے کہ ہم آئی ایم ایف کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں گے مگر بجلی کے نرخ بڑھانے سمیت عوام دشمن مطالبات تسلیم نہیں کریں گے، مگر وہ یہ بات سمجھتے تھے کہ آئی ایم ایف بجلی کے نرخ بڑھانے پر اصرار کرے گا چنانچہ اس معاملے میں بھی آئی ایم ایف سے بحث کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔
فرائیڈے اسپیشل: آئی ایم ایف سے قرضے کی بحالی کے بعد ہمارے یہاں صورتِ حال زیادہ خراب ہوتی نظر آرہی ہے، اور لگتا ہے ریاست پاکستان پر آئی ایم ایف کا قبضہ ہوگیا ہے۔ اس پس منظر میں ملک کا معاشی مستقبل کیا نظر آرہا ہے؟
ڈاکٹر شاہدحسن صدیقی:ہم یہ بات کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پیٹرولیم لیوی یعنی ’’بھتہ‘‘ کی مد میں 356 ارب روپے کی وصولی، عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کی شکل میں 350 ارب کے اضافی ٹیکسوں کی وصولی اور ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کرنے کی شرائط تسلیم کرنا معیشت اور عوام کے لیے تباہ کن ہوگا، لیکن ان معاملات پر آئی ایم ایف سے مذاکرات میں وقت ضائع کرنا معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا ہے۔ مشیر خزانہ شوکت ترین اور گورنر اسٹیٹ بینک اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر یہ اقدامات اٹھائے جائیں جو میں آپ کو بتا رہا ہوں  تو پھر یہ عوام دشمن اقدامات اٹھانا نہیں پڑیں گےاور آئی ایم ایف کے قرضے کا پروگرام بھی بحال ہوجائے گا۔مثلاً :
(i) تحریک انصاف نے اپنی 10نکاتی حکمت عملی میں کہا تھا کہ اقتدار میں آنے کے 100 روز کے اندر وفاق اور صوبوں میں ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کردیا جائے گا۔ اس فیصلے سے ٹیکس چوری کرنے والوں اور ٹیکسوں میں ناجائز مراعات حاصل کرنے والوں کے مفادات متاثر ہوتے ہیں، چنانچہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے ارکان اس وعدے سے پیچھے ہٹ گئے، چنانچہ آئی ایم ایف سے عوام دشمن اقدامات اٹھانے میں رضامندی ظاہر کرنے میں عافیت سمجھی گئی۔
(ii) تحریک انصاف کی حکومت نے 2019ء میں ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کیا تھا جو کہ مالیاتی این آر او تھا۔ اس ایمنسٹی اسکیم کا مقصد قومی دولت لوٹنے والوں اور ٹیکس چوری کرنے والوں کی ناجائز دولت کو قانونی تحفظ فراہم کرنا تھا، لیکن یہ قانون بھی تھا کہ ملک کے اندر جو ناجائز اثاثے موجود ہیں اور ناجائز دولت رکھنے والے ٹیکس ایمسٹی اسکیم سےاستفادہ نہیں کرتے، ایمنسٹی اسکیم کے خاتمے کے بعد وہ ضبط کرلیے جائیں۔ ہماری تحقیق کے مطابق وہ ناجائز اثاثے جو ملک کے اندر موجود ہیں اور جن کی تفصیلات حکومت کے پاس موجود ہیں، اگر ان سے قانون کے مطابق ٹیکس وصول کیا جائے تو چند ماہ میں تقریباً 900 ارب روپے کی وصولی ہوسکتی ہے۔ حکومت بہرحال ان چند لاکھ ناجائز دولت رکھنے والوں کی ناراضی مول نہیں لینا چاہتی تھی، چنانچہ 2021ء میں بھی یہ رقوم وصول کرنے کے بجائے آئی ایم ایف سے جو کڑے اور تباہ کن معاملات طے کیے گئے اُن کا حجم بہرحال 900 ارب روپے سے کم تھا، یعنی ان افراد کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے 22 کروڑ عوام کی زندگی اجیرن بنانے اور معیشت کو تباہ کرنے کو اولیت دی، یہ ایک قومی المیہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: وزیراعظم کا بیان ہے کہ ساری دنیا میں مہنگائی کا سیلاب ہے لہٰذا ہمارے ہاں بھی آگیا؟
ڈاکٹر شاہدحسن صدیقی:جی، گزشتہ ماہ اسٹیٹ بینک نے 2020-21ء کی معیشت کی صورت حال کے بارے میں رپورٹ جاری کی ہے، اس رپورٹ میں آئی ایم ایف کے حوالے سے بتلایا گیا ہے کہاکتوبر2021میں پاکستان میں افراطِ زر کی شرح 9.2 فیصد اور بھارت میں 4.5 فیصد ہے۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی افراط زر کی شرح پاکستان سے کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے وہ خطے کے ان ملکوں کی سرحدوں تک پہنچنے سے پہلے کیوں رک گیا صرف پاکستان میں کیوں داخل ہوا؟ حکومتِ پاکستان کو اس کا جواب دینا ہی ہوگا۔ صاف ظاہر ہے کہ وطنِ عزیز میں یہ مہنگائی تحریک انصاف کی وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں اور اہم ریاستی اداروں خصوصاً اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر کی وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا موجودہ صورتِ حال میں پاکستان آئی ایم ایف کےشکنجے سے باہر نکل سکتا ہے ؟
ڈاکٹر شاہدحسن صدیقی:تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرانے کے لیے تباہ کن اقدامات پر مشتمل معاملات طے کیے ہیں، لیکن اگر اصلاحی اقدامات تیزی سے اٹھائے جاتے تو ان تکلیف دہ شرائط پر عمل درآمد کیے بغیر نہ صرف آئی ایم ایف کا پروگرام بحال ہوسکتا تھا بلکہ کسی منی بجٹ کی ضرورت ہی نہیں پڑتی بلکہ موجودہ مالی سال میں ہی پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نکل سکتا تھا، لیکن طاقتور ملکی و بیرونی اشرافیہ کو خوش کرنے کے لیے عمران خان صاحب نے یہ موقع ضائع کردیا۔ یہ بھی ایک قومی المیہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایسے ہی چلتا رہے گا اور لوگوں کی تکلیفیں بڑھتی رہیں گی؟
ڈاکٹر شاہدحسن صدیقی:تحریک انصاف کی حکومت بھی اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے ملکی و بیرونی اشرافیہ کی حمایت پر انحصار کررہی ہے۔ ملکی اشرافیہ میں مالدار اور طاقتور طبقے، جبکہ بیرونی اشرافیہ میں استعماری طاقتیں اور عالمی مالیاتی ادارے شامل ہیں۔ ممتاز امریکی دانشور نوم چومسکی نے کہا تھا کہ امریکا نے پاکستانی اشرافیہ کو خرید لیا ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں میں بھی معیشت میں اصلاحات کرنے کا عزم موجود ہی نہیں ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر اگر صرف دی گئی اس تجویز پر عمل کیا جائے تو آئی ایم ایف کا پروگرام بھی بحال ہوجائے گا اور پیٹرولیم لیوی (بھتہ) کی مد میں موجودہ مالی سال میں 356 ارب روپے وصول کرنے، جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں عوام پر بوجھ ڈال کر 350 ارب روپے وصول کرنے، ترقیاتی اخراجات میں 200ارب روپے کی کٹوتی کرنے اور بجلی کے نرخ بڑھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ اس تجویز پر عمل درآمد نہ کرنا طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لیے قانون توڑنے کے مترادف ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: ملک میں ٹیکسوں کی وصولی کی استعداد بڑھانے کے حوالے سے موجودہ حکومت کے اقدامات پر کیا تبصرہ کریں گے؟
ڈاکٹر شاہدحسن صدیقی:پاکستان موجودہ عالمی سال ٹیکسوں کی وصولی کی استعداد کا تخمینہ 11100 ارب روپے ہے جبکہ عوام پر آنے والے مہینوں میں کئی سو ارب روپے کا بالواسطہ ٹیکس عائد کرنے کے باوجود نظرثانی شدہ ہدف 6100 ارب روپے ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ0 500 ارب روپے کی یہ کمی انکم ٹیکس کی مد میں ہے، یعنی بنیادی طور پر مالدار لوگوں سے ٹیکس نہیں لیا جارہا۔ عمران خان صاحب نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے 100 روز کے اندر عدل پر مبنی ٹیکسوں کا نظام نافذ کردیں گے۔ اگر وزیراعظم عمران خان اس وعدے کو اب بھی پورا کریں اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہ اٹھانے والوں کے صرف ملکی اثاثوں پر ہاتھ ڈالیں اور قانونی کارروائی کریں تو جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کرنے اور پیٹرولیم لیوی کو ختم کرنے کے باوجود ٹیکسوں کی مد میں 11100 ارب روپے کی اصولی اسی مالی سال ممکن ہے، چنانچہ افراط زر کی شرح 5فیصد اور معیشت کی شرح نمو 7 فیصد سالانہ ہوسکتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ملک سے لوٹی ہوئی دولت جو باہر گئی ہے اُس پر بھی عمران خان کی حکومت نے بہت شور مچایا لیکن عملاً کچھ نہیں ہوا بلکہ مزید وسائل کا ضیاع ہی ہوا؟
ڈاکٹر شاہدحسن صدیقی: جی! آپ کی بات درست ہے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں دائر کردیا ہے آئینِ پاکستان کی شق 184/3کے تحت، جس میں انہوں نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ جو لوٹی ہوئی دولت باہر ہے اس کی واپسی کے لیے احکامات جاری کریں۔ اس میں انہوں نے حوالہ دیا ہے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم 2018ء کا۔ ابھی چند ہفتے پہلے اس ادارے کی طرف سے وزیراعظم کو ایک خط لکھا گیا ہے جس میں 2019ء کی ٹیکس ایمنسٹی کا ذکر ہی نہیں ہے۔ تو جو قانونی پوزیشن مجھے نظر آتی ہے اس میں سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی ایسا فیصلہ آنے کا امکان نہیں ہے۔ جس سے کوئی بڑی وصولی ہوسکے۔ لیکن اگر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو کچھ کرنا تھا تو ان کو وزیراعظم کو خط لکھنا چاہیے تھا کہ آپ ملکی اثاثوں پر کام کریں، اور ایف بی آر سے یہ درخواست کی جاتی کہ قانون موجود ہے کہ جنہوں نے ناجائز اثاثوں کے باوجود ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھایا ان سے وصولی کے لیے قانون پر عمل درآمدکرایا جائے۔ لیکن یہ قدم انہوں نے بھی نہیں اٹھایا، کوئی سیاسی پارٹی بھی نہیں اٹھارہی، سیاست دان بھی خاموش ہیں۔ یہ ہے اس قوم کا مزاج اور یہ ہے ہماری ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ ہم یہ سب کچھ کیوں کررہے ہیں!یہ ایک نکتہ ہے جس پر سب کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان کی مالیاتی خود مختاری اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری ختم ہونے کا آپ بار بار اظہار کررہے ہیں اور اپنی گفتگو کے دوران حیرت انگیز انکشافات بھی کرتے رہے ہیں، آخر اس کی کیا تفصیلات ہیں؟
ڈاکٹر شاہدحسن صدیقی:وزیر خزانہ کی حیثیت سے حفیظ شیخ نے اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دینے کا ایک ڈرافٹ بل آئی ایم ایف کو دیا تھا کہ قرضے کی منظوری کی صورت میں یہ بل پاس کردیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کے بورڈ کو بھی مطلع کردیا گیا تھا کہ حکومت ِ پاکستان یہ قانون سازی کرار دے گی۔ یہ بل جب آیا تھا اُس وقت بھی میں نے تنبہ کی تھی کہ یہ بل پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہے، اور ساتھ ہی یہ یاددہانی بھی کرائی تھی کہ یکم جولائی 1948ء کو قائداعظم نے اسٹیٹ بینک کی بلڈنگ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان دراصل پاکستان کی مالیاتی خودمختاری کی علامت ہوگا، لیکن کئی دہائیوں بعد خصوصاً 1993ء کے بعد سے اسٹیٹ بینک ڈکٹیشن اور احکامات آئی ایم ایف سے لیتا رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ایک گورنر نے بھی اب سے پندرہ سال قبل کہا تھا کہ جہاں تک اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا تعلق ہے حکومتِ پاکستان کے معاملے میں ہم خودمختار ہیں، مگر جب آئی ایم ایف کا معاملہ آتا ہے تو ہم خودمختار نہیں رہتے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستانی معیشت جس تباہی سے دوچار ہے اس میں اسٹیٹ بینک کی غلط کاریوں اور غلط فیصلوں کا اہم کردار ہے۔ اس لیے میرا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کا احتساب ضروری ہے، مگر احتساب کا عمل نہیں ہورہا، اور ساتھ ہی اس اہم ملکی ادارے کی خودمختاری جو پہلے ہی دائو پر لگی ہوئی ہے اسے مزید سبوتاژ کیا جارہا ہے۔ حفیظ شیخ تو عہدے سے ہٹ گئے، ابھی کچھ روز قبل پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں مذکورہ بل پیش کرنے کا پروگرام بنایا گیا، مگر اس بات کی تشہیر اتنی زیادہ ہوگئی تھی کہ تحریک انصاف کے کچھ باضمیر ارکانِ پارلیمنٹ اور ان کے اتحادیوں نے اس کی مخالفت کردی، اور انہوں نے اس کی حمایت سے دست برداری کا عندیہ دیا۔ لہٰذا حکومت نے یہ بل پیش ہی نہیں کیا، اور اس کے بعد کچھ نمائشی تبدیلیاں کرکے اب دوبارہ اسے پیش کرنے کا پروگرام بنایا جارہا ہے۔
مشیر خزانہ کی حیثیت سے شوکت ترین نے اس بل کی منظوری کے حوالے سے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرادی ہے۔ اس بل میں اگرچہ کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں مگر اصل روح وہی ہے جو کہ کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔ اب اگر یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے تو تحریک انصاف کے ان ارکانِ پارلیمنٹ کا اور ان کے اتحادیوں کا امتحان ہوگا کہ وہ پاکستان کی سالمیت اور مفاد کو کتنا عزیز رکھتے ہیں اور اس کا کس حد تک دفاع کرتے ہیں، یا کس حد تک اس پر سمجھوتا کرنے کو تیار ہیں جس کے لیے پہلے تیار نہیں تھے جبکہ اس میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ یہ بہت اہم پہلو ہے کہ وہ اس بل کو کسی بھی حالت میں منظور نہ کریںکیونکہ یہ پاکستان کی سالمیت، مفادات اور خودمختاری سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ اس طرح اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف جیسے ادارے کا ذیلی ادارہ بنادیا جائے گا جو نوآبادیاتی نظام کی ایک نئی شکل میں واپسی کے مترادف ہوگا جسے قطعی قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ فرینڈز آف پاکستان گروپ کا اعلامیہ 26ستمبر 2008ء کو جاری ہوا تھا۔ اس اعلامیے کے بعد غلط بیانیاں کرنے میں اُس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کا بہت ہی اہم کردار تھا۔ اُس وقت اس ضمن میں جوغلط بیانیاں اور غلط کاریاں ہوئیں اُن کے بارے میں تمام تر تفصیلات تاریخ وار ہم نے 2012ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ”پاکستان اور امریکہ… دہشت گردی، سیاست،معیشت ‘‘ میں دے دی ہیں جو اس کتاب کے صفحات 125سے138تک دو ابواب میں موجود ہیںان غلط کاریوں اور غلط بیانوں کو ہم نے عظیم دھوکہ قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ کئی مرتبہ اخبارات میں بھی مضامین کی صورت میں تفصیلات شائع کیں، اور ٹیلی ویژن کے مختلف پروگرام میں بھی ذکر کیا کہ جب تک اس ضمن میں احتساب کا عمل نہیں ہوتا پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ شوکت ترین اور دوسرے افراد نے اپنی ”غلطی“ تسلیم بھی کی ہے، حالانکہ یہ غلطی نہیں بلکہ ملکی سالمیت اور معیشت کی تباہی کا نسخہ تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس اعلامیے کے بعد جو غلط اقدامات اٹھائے گئے کوئی اس کے بارے میں بات بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اکیلے ہم ہی تواتر سے بات کررہے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان کو اس سے نقصان ہوا مگر امریکی مفادات کا تحفظ ہوا، اس لیے کوئی اس پر بات نہیں کرتا۔ اب سے کچھ عرصہ قبل ہم نے عرض کیا تھا کہ یہ جو غلط اقدامات فرینڈز آف پاکستان کے اعلامیے کے نام پر اٹھائے گئے ہیں اس کے تباہ کن اثرات 2021ء تک رہیں گے۔ اب جب 2021ء آیا تو شوکت ترین دوبارہ وزیر خزانہ اور مشیر خزانہ بن گئے ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ جو غلط کاریاں پاکستانی سالمیت کے حوالے سے کی گئی ہیں، جو غلط باتیں قوم کو بتائی گئی ہیں جن کی تفصیلات میری کتاب سمیت مختلف مضامین میں موجود ہیں ان کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے، ورنہ پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچایا جاتا رہے گا جو قطعی ناقابلِ قبول ہو گا اور پاکستان کی سلامتی کو نقصانات پہنچتے رہیں گے جو قطعی ناقابلِ قبول ہے۔ایک اور انتہائی اہم بات یہ ہے کہ شوکت ترین صاحب نے دو ہفتے قبل یہ بات تسلیم کی تھی کہ اسٹیٹ بینک کو مزید خود مختاری دینے کا جوڈرافٹ بل پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو دیا گیا تھا اس کی کچھ شقیں آئین پاکستان سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ مشیر خزانہ شوکت ترین جو سنیٹر منتخب ہوئے اور ملک کے وزیر خزانہ بننے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان سب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کہا کہ آئین سےمتصادم اس ڈرافٹ بل کو آئی ایم ایف کو پیش کرنے کے معاملے کو فراموش کر دیا جائے۔ اس وقت ملک میں قانون کی حکمرانی اورآئین کی بالادستی حاصل کرنے کے لیے شفاف اور مؤثر احتساب کا عمل انتہائی ضروری ہے چنانچہ اس معاملے میں وفاقی کابینہ کا اور گورنر اسٹیٹ بینک کا احتساب انتہائی ضروری ہے۔