آئی ایم ایف کی سخت شرائط پوری کرنے کے لیے منی بجٹ کی تیاری
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایک امریکی سکالر کو انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے کہاہے کہ پاکستان میں ایک انقلاب برپا ہو چکا ہے، اس انقلاب کی مثال انہوں نے فرانس، برطانیہ، روس کے انقلابوں سے نہیں دی بلکہ اس کائنات کی سب سے عظیم شخصیت پیغمبر اسلام کی ریاست مدینہ کے حوالے سے بیان کی،پاکستان ٹیلی وژن اور دیگر ٹی وی چینلز نے بھی یہ انٹرویو ٹیلی کاسٹ کیا ہے سرکاری ترجمہ کچھ یوں لکھا گیا ’اور بنیادی طور پر یہ ہوا کہ جب پیغمبر ﷺ نے مدینہ کی ریاست قائم کی تو انہوں نے ان لوگوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جن کی پہلے کوئی حیثیت نہیں تھی، اس کے بعد وہ سب عالمی سطح کے رہنما بن گئے‘ اسی انٹرویو میں وزیراعظم نے ایک اور آسمان کو چھوتا ہوا دعویٰ کیاکہ پاکستان بھی اسی صورت حال سے دوچار ہے وہ یہ فرما رہے ہیں کہ ان کے تین سالہ دور میں ایک نئی ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو ایسے نکتے پر لا کھڑا کیا ہے جس کے بعد نتائج ویسے ہی ہوں گے، یقیناً قوم اس بیان کے باعث حیرانی اور تسلی جیسی کیفیات میں سے گزرے گی۔ تسلی اس بات کی کہ ملک کا وزیراعظم جب یہ دعویٰ کر رہا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی کر رہا ہو گا اسے ریاست کے تمام فیصلہ سازوں کی حمایت حاصل ہے تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں ان کو بغیر تعطل کے معلومات فراہم کرتی ہیں وہ اپنی جماعت کے نمائندگان سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں، ان کی سوچ اس تمام عمل سے ہی بنی ہو گی جس میں معلومات بھی ہیں اور دوست قوتوں کی جانب سے کیے گئے تجزیے بھی،لیکن پریشانی یہ ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ جیسا بناتے اور بتلاتے ہوئے اس ملک کے خدوخال کچھ اس طرح متاثر ہو گئے ہیں کہ اب عوام کی آنکھ اپنے ملک کو پہچانے سے قاصر ہے، حقائق کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ حکومت کو اِس وقت تنخواہوں، غیر ملکی قرضوں کی اقساط کی ادائیگی، زرمبادلہ کے ذخائر میں میں ہونے والی کمی روکنے، گردشی قرضوں سمیت بہت سے ایسے چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط پوری کرکے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ ان میں بہت سی مدوں میں ٹیکس استثنیٰ واپس لینا اور حالیہ ٹیکس سلیبوں پر نظرثانی شامل ہے۔ آئی ایم ایف کے اس مطالبے پر وزارت خزانہ میں منی بجٹ کو حتمی شکل دی جارہی ہے جس کا عندیہ مشیر خزانہ شوکت ترین بھی دے چکے ہیں یہ اقدام وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2021-22کیلئے پیش کئے گئے ترقیاتی بجٹ کے بعض اہداف واپس لینے سے متعلق ہے ان میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے دو کھرب اور حکومت کے عمومی اخراجات میں 50ارب روپے کی کمی شامل ہے ٹیکس استثنیٰ واپس لینے سے حکومت کو 350ارب روپے حاصل ہوں گے یوں حکومت عوام کو دی گئی مراعاتت واپس لے رہی ہے حکومت کا موقف ہے کہ آئی ایم ایف اس ضمن میں سات کھرب روپے کے ٹیکس اقدامات کا خواہاں ہے اور حکومت اس کی نصف بات مان رہی ہے لہذا بجٹ میں اشیائے خورونوش، کھاد اور کیڑے مار ادویات پر استثنیٰ برقرار رہے گا تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف نے پراویڈنٹ فنڈ پر ٹیکس بڑھانے اور تنخواہوں کے سلیبوں پر نظرثانی کرنے اور انہیں بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے حکومت فی الحال اس تجویز پر خاموش ہے وزارت خزانہ منی بجٹ کے خدو خال تیار کر رہی ہے جسے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا اور اس کے بعد مہنگائی کا ڈیم ٹوٹ جائے گا، اعداد کا شمار دیکھیں تو تصویر خوفناک بنتی ہے قرضوں کا ایک انبارہے جس کے بوجھ سے معیشت ڈوب رہی ہے1947 سے 2018 تک 30 کھرب روپے تک کے قرضے حاصل کیے ان قرضوں کے ساتھ پاکستان کی سیاست میں پھیلی ہوئی بدعنوانی، لوٹ مار اور قومی خزانے پر دن دہاڑے ڈاکے مارنے کے تمام الزامات بھی جڑے ہوئے ہیںسٹیٹ بینک کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پچھلے تین سال میں 20 کھرب روپے کے مزید قرضے لیے گئے ہیں ۔1947 سے 2018 تک جتنے بھی حکمران گزرے انہوں نے بدترین پلاننگ اور خوفناک ترین کرپشن کے ساتھ ملک پر30 کھرب روپے کے قرض کا بوجھ ڈالا، تحریک انصاف کی ’’شفاف حکومت‘‘ جو قرض کی دکان بند اور ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے آئی تھی دعوی تھا کہ قرض کی رقم آئی ایم ایف کے منہ پر ماری جائے گی امید تھی کہ اب 30 کھرب کے قرض واپس بھی ہوگاکھربوں کی بچت ہو گی یہ رقم عوام کی فلاح پر خرچ ہوگی مگر آج تین سال کے بعد سارے خواب بکھر چکے ہیں اسٹیٹ بینک نے تازہ رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق تین سال میں 20 کھرب روپے کے مزید قرضے لیے گئے ہیں،جو ملک بد عنوان حکومتوں کے باعث 2018 تک 71 سالوں میں 30 کھرب روپے کا مقروض تھا آج شفاف دور میں 50 کھرب کے قرضوں تلے دب چکا ہے، اس قرض سے اس کے کندھے جواب دے چکے ہیں اور دنیا بھر میں سر اٹھا کر چلنے کا دعوی ایک طرف، اب تو قرض کے بوجھ سے اس ملک کی کمر جھک گئی ہے تین سالوں میں قرضوں میں 70 فیصد اضافہ، یوں ہماری اگلی نسلیں یہ قرض چکانے کے لیے تیار رہیں 2018 میں پاکستان کاہر شہری فی کس ایک لاکھ 44 ہزار روپے کا مقروض تھا مگر ستمبر 2021 میں ہمارا ہر شہری دو لاکھ 35ہزار روپے کا مقروض ہے، ایک عالمی سروے کی جاری شدہ رپورٹ کے مطابق 87 فیصد پاکستانی ملک کی سمت کے بارے میں پریشان ہیں کہ ملک الٹے قدموں چل رہا ہے دو تہائی کا خیال ہے کہ اگلے چھے ماہ میں بھی یہ حالات تبدیل ہونے کے نہیں ہیں صرف پانچ فیصد تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ باقی سب کو اندھیرے نظر آ رہے ہیں، اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ جس حکومت کو مزید دس سال تک اقتدار میں رکھنے کے نعرے لگتے تھے اب پارٹی کے جلسوں کے پنڈال وزیراعظم کے استعفے کے مطالبہ کے نعروں سے گونج رہے ہیں، دو واقعات تو اسلام آباد میں ہوچکے ہیں وہ تمام علم چھاتی پر ہاتھ مار کر فخر کے ساتھ 2018 میں انتخابات کو اپنی بہترین کامیابی قرار دے رہے تھے اب سرنگوں ہو چکے ہیں۔رائے عامہ کے جائزوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ غربت میں اضافہ، ظالمانہ مہنگائی اور نہ ختم ہونے والی بے روزگاری نے ایک ایسی دلدل بنا دی ہے جس میں قوم مسلسل دھنستی جارہی ہے اور وزیراعظم نہ جانے ریاست مدینہ کے عظیم انقلاب کی جھلکیاں کس کھڑکی سے دیکھ رہے ہیں وہ کون سی پہاڑی ہے جہاں انقلاب کا چراغ روشن ہے وہ کون سا افق ہے جس سے سورج اپنی تمام تابناکیوں کے ساتھ دمکتا ہوا نظر آ رہا ہے؟ وزیراعظم قوم کو اس پہاڑی اور کھڑکی اور افق کا ہی پتہ بتا دیں، خیبر پختونخوا میں محکمہ خزانہ کی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں بیرونی قرضوں کا حجم 268 ارب سے زائد تک پہنچ گیا ہے،محکمہ خزانہ کی ایک اور رپورٹ کے مطابق حکمران جماعت کے مختلف منصوبوں کے لیے سال 2019 میں بیرون قرضوں کا حجم 225 ارب روپے سے اب 2020 میں تقریباً 45ارب روپے اضافے کے ساتھ 268 ارب روپے سے زائد تک پہنچ گیا ہے جبکہ ان قرضوں کے علاوہ 371 ارب روپے کے مزید قرضے پائپ لائن میں ہیںمحکمہ خزانہ کی یہ ششماہی رپورٹ سال میں دو مرتبہ صوبائی وزارت خزانہ میں قائم قرضوں کی منیجمنٹ یونٹ کی جانب سے جاری کی جاتی ہے۔’جولائی 2020 سے دسمبر 2020 کی ششماہی رپورٹ کے مطابق صوبے نے کل 95 منصوبوں کے لیے 268 ارب روپے سے زائد قرضہ لیا جس پر شرح سود 2 فیصد سے لے کر 2.5 فیصد ہے‘ یہ بیرونی قرضے وفاقی حکومت کے ذریعے صوبے کے لیے لیے گئے ہیں جبکہ قرضوں کی واپسی، قرضوں پر سود و دیگر واپسی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے جس کے لیے صوبائی حکومت بجٹ میں فنڈ مختص کرتی ہے اسی پر صوبائی حکومت دو ارب روپے سے زائد سود سالانہ ادا کرتی ہے مجموعی طور پر سالانہ ان قرضوں کی مد میں 10 ارب روپے سے زائد ادائیگی ہوتی ہے ان قرضوں میں رپورٹ کے مطابق 90 فیصد قرضے ایشیائی ترقیاتی بینک اور انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایسو سی ایشن جو ورلڈ بینک کا ادارہ ہے، کی جانب سے دیے گئے ہیں جبکہ ان قرضوں کی واپسی کا دورانیہ 30 سے 40 سال تک ہے یوں اگلی پانچ سے آٹھ حکومتیں قرض چکاتی رہیں گی اہم بات یہ ہے کہ ان قرضوں میں انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ ایسو سی ایشن کی جانب سے دیے گئے قرضوں پر شرح سود تو فکس ہے لیکن ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے شرح سود مارکیٹ ریٹ کے حساب سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ زیادہ تر قرضے ترقیاتی منصوبوں کے لیے لیے گئے ہیں،سب سے زیادہ قرضہ ٹرانسپورٹ اینڈ کمیو نیکیشن کے شعبے میں لیا گیا جو تقریباً 101 ارب روپے ہے جو قرضوں کے کل حجم کا تقریباً 41 فیصد ہے،اسی طرح معاشی ترقی کے شعبے کے لیے تقریباً 56 ارب روپے جو کل قرضے کا 21 فیصد تک ہے اور توانائی کے شعبے کے لیے 24 ارب روپے سے زیادہ قرض لیا گیا ہے،اس کے علاوہ علاقائی ترقی کے لیے 21 ارب روپے سے زائد، آب پاشی کے لیے 19 ارب سے زائد جبکہ تعلیم کی شعبے میں شامل منصوبوں کے لیے 10 ارب روپے سے زائد کا قرض لیا گیا۔گورننس اور زراعت کے شعبے کے لیے مجموعی طور پر 10 ارب سے زائد، سوشل ویلفیئر کے لیے 4 ارب، ماحولیات کے شعبے کے لیے ساڑھے 3 ارب، صحت کے لیے2 ارب سے زائد، سیاحت کے لیے ایک ارب روپے سے زائد جبکہ صنعت کے شعبے کے لیے تقریباً 26 کروڑ کا قرضہ حاصل کیا گیا ہے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے گراف پر اگر نظر ڈالیں تو 2020 سے 2027 تک صوبے کو سالانہ 5 ارب روپے سے لے کر 2027 میں سب سے زیادہ سالانہ تقریباً 8 ارب روپے دینا پڑیں گے جس کے بعد اس میں کمی آئے گی 2027 کے بعد 2040 تک سالانہ ادائیگی 4 ارب روپے تک پہنچ جائے گی،ماہرین کہتے ہیں کہ بیرونی قرضے کسی طور بھی کسی ملک کی معیشت کے لیے بہتر نہیں ہوتے، کیونکہ قرض عموماً یا تو پرانے قرضے واپس کرنے یا درآمداد اور برآمدباد کو بیلنس کرنے کے لیے لیے جاتے ہیں’پہلے زیادہ تر پرانے قرضے واپس کرنے کے لیے قرضہ لیا جاتا تھا ۔اصل بات یہ ہے کہ کوئی عالمی ادارہ کسی ملک کو ڈیفالٹ نہیں ہونے دیتا اگر ایسی صورت حال پیدا ہوتو اسے پہلے سے زیادہ شرح سود پر قرض دے دیا جاتا ہے،ہمارے ساتھ کیا ہوا یہ سوال پارلیمنٹ ہی حکومت سے پوچھ سکتی ہے ایک نکتہ تقریباً ہر حکومت نے پکڑ لیا ہے کہ چونکہ ہمارے پاس آمدنی کے ذرائع اتنے نہیں ہیں اس لیے وفاقی حکومت قرض لیتی ہے اور اس نے اب صوبوں کو بھی اختیار دیا ہے تاکہ وفاقی حکومت کو ادائیگی کے بوجھ سے آزاد کرایا جائے اور قرضوں کی واپسی صوبائی حکومت کی ذمہ داری بن جاتی ہے مگر ضمانت تو ریاست کی ہوتی ہے جو وفاقی حکومت کے ذریعے چلائی جاتی ہے،حکومت پاکستان نے موسم سرما میں بجلی کے استعمال پر سبسڈی دینے کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کے مطابق یکم نومبر 2021 سے 28 فروری 2022 تک 300 یونٹس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے پر تقریباً سات سے نو روپے فی یونٹ سبسڈی دی جائے گی۔اس وقت بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت تقریباً 19 سے 22 روپے کے درمیان ہے جو کہ کم کر کے 12.96 روپے کر دی گئی ہے۔ سردیوں میں بجلی کا استعمال گرمیوں کی نسبت آدھے سے بھی کم رہ جاتا ہے لیکن کپیسٹی چارجز کی مد میں بھاری رقم آئی پی پیز کو ادا کرنا ہوتی ہے۔نئے منصوبے سے سردیوں میں بجلی کا استعمال بڑھ سکے گا جسے نقصان کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ آدھا سچ ہے جس کے ذریعے مبینہ طور پر حکومتی کوتاہیوں کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پاور ڈویژن خوب جانتا ہے کہ سردیوں میں گیس کے متوقع بحران کے باعث بجلی کے استعمال کو متبادل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے دراصل حکومت ایک مرتبہ پھر گیس مہیا نہیں کر پا رہی ہے۔ جب سے وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے گیس بحران جوں کا توں قائم ہے۔پہلے سال میں غلام سرور امیدیں دلاتے رہے۔ دوسرے سال میں ندیم بابر گیس کی کمی کا دفاع کرتے رہے اور تیسرے سال میں یہ ذمہ داری حماد اظہر کے کاندھوں پر ڈالی گئی جو ابھی تک اسی عہدے پر براجمان ہیں۔وزرا کی جانب سے گیس بحران پر قابو پانے کے لیے دعوے کیے جاتے رہے ہیں، لیکن عملی اقدامات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے گیس پائپ لائن پر کام کرنا تحریک انصاف کے دعووں کی ترجیحات میں شامل تھا لیکن اس حوالے سے ایک بھی نیا منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ حتیٰ کہ ن لیگ کے دور میں روس کے ساتھ کیے گئے گیس منصوبوں کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔تیسرا حل ایل این جی ہے جس سے متعلق معاملات روز بروز پیچیدہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ن لیگ کے دور میں دو ایل این جی ٹرمینل لگائے گئے تھے۔تحریک انصاف کے مطابق ان کا یومیہ کرایہ تقریباً چار کروڑ روپے ہے۔ یہ انتہائی مہنگے ہیں۔ ہماری سرکار جو ٹرمینل لگانے جارہی ہے ان کا کرایہ صفر ہو گا۔ لیکن تین سال میں اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے اور اس سال بھی گیس کا بحران شدید ہونے کی پیش گوئی ہے، متعدد نجی کمپنیاں پاکستان میں ایل این جی ٹرمینل لگانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ لیکن سرکاری عمل میں درپیش رکاوٹوں کے باعث منصوبے شروع نہیں کیے جا سکے۔حکومت ایل این جی کی خریداری میں بھی ناکام رہی ہے۔ ماہ نومبر میں 11 ایل این جی کارگو منگوائے جانے کا منصوبہ تھا، جن میں سے دو کمپنیوں نے عین موقع پر کارگو دینے سے انکار کر دیا ہے۔ مبینہ طور پر انٹرنیشنل مارکیٹ سے 200 گنا زیادہ منافع ملنے پر معاہدہ معطل کیا گیاعمومی طور پر ایسی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت خلاف ورزی کی صورت میں سخت شرائط رکھی جاتی ہیں، لیکن اس معاہدے میں صرف 30 فیصد جرمانہ رکھا گیا جو ماہرین کے مطابق کم ہے پاکستان میں ایمرجنسی صورت حال پیدا کر کے اس سے فائدہ اٹھانا معمول کی بات ہے کیونکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ آٹا، چینی، مرغی سمیت کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جہاں پہلے قلت پیدا کی گئی پھر اجناس مہنگے داموں فروخت کی گئیں۔سردیوں سے پہلے ایل این جی معاملے پر بھی ایمرجنسی صورت حال کا پیدا ہو جانا شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ یہ حالات جان بوجھ کر پیدا کیے جا رہے ہیں تا کہ مخصوص طبقہ اس سے فائدہ اٹھا سکے عوام کی اکثریت 300 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرتی ہے۔ سردیوں میں بجلی کا زیادہ استعمال کرنے کے لیے ہیٹر، گیزر، چولہا سمیت دیگر اشیا کا الیکٹرک ہونا ضروری ہے۔
؎