پاکستان یا لاپتا پاکستان

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ نے صحافی اور بلاگر مدثر نارو کے لاپتا ہوجانے سے متعلق کیس میں اہم ریمارکس دیے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ہماری آدھی زندگی’’غیر جمہوری حکومتوں‘‘ میں گزری، یہ ’’انھی‘‘ کا کیا دھرا ہے۔ چیف جسٹس نے وفاقی وزیر شیریں مزاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اس لیے زحمت دی کہ ’’ریاست‘‘ نظر نہیں آرہی، ملک میں جبری گم شدگیوں کا رجحان ہے، کسی کا لاپتا ہوجانا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ وزیراعظم اور کابینہ کے اراکین لوگوں کی خدمت کے لیے ہیں۔ لاپتا افراد کی رہائی کے لیے ریاست کا ردعمل غیر مؤثر ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر پبلک آف ہولڈر کا کوئی عزیز لاپتا ہوجائے تو ریاست کا ردعمل کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں پوری ریاستی مشینری متحرک ہوجائے گی۔ چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ عام آدمی کے لاپتا ہونے کی صورت میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کی ذمہ داری وزیراعظم اور کابینہ پر آتی ہے، کیوں نا معاوضے کی رقم وزیراعظم اور کابینہ اراکین ادا کریں۔(روزنامہ جسارت اور جنگ کراچی۔ 2 دسمبر 2021ء)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے یہ ریمارکس پڑھ کر ہمیں جون ایلیا کے دو شعر یاد آگئے۔ جون ایلیا نے کہا ہے:
شرم، دہشت، جھجک، پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
آپ، وہ، جی، مگر یہ سب کیا ہے
تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں؟

چیف جسٹس صاحب نے اپنے ریمارکس میں ’’غیر جمہوری حکومتوں‘‘ کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ لاپتا افراد کا مسئلہ ’’انھی‘‘ کی تخلیق ہے۔ مگر ان ریمارکس میں اصل کردار کا اصل نام لاپتا ہے۔ اس کردارکا ایک نام ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ ہے۔ ایک نام ’’فوج‘‘ ہے۔ ایک نام ’’جرنیل‘‘ ہے۔ ایک نام ’’ایجنسیاں‘‘ ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ عدالتوں میں عام افراد کے خلاف مقدمہ چلتا ہے تو اصل مجرم یا ملزم کا نام لیا جاتا ہے، مگر لاپتا افراد کا مقدمہ اعلیٰ عدالتوں میں آتا ہے تو کوئی لاپتا کرنے والوں کا اصل نام نہیں لیتا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے اہم ریمارکس میں بھی نام کے حوالے سے دھند چھائی ہوئی ہے۔ غیر جمہوری حکومت کا مفہوم راز نہیں، مگر اس نام میں وہ زور اور شدت نہیں ہے جو سیکڑوں انسانوں کو لاپتا کرنے والوں کے اصل ناموں میں ہے۔ لیکن یہ تو طویل جملۂ معترضہ ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ لاپتا افراد کے مقدمات نے معاشرے کو بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بڑے سے بڑا انسان بھی اگر مر جائے تو لواحقین کو دیر یا سویر صبر آجاتا ہے۔ کسی کو کسی مقدمے میں سزا ہوجاتی ہے تو متعلقین اس پر بالآخر صبر کر ہی لیتے ہیں۔ مگر لاپتا افراد کا معاملہ عجیب ہے۔ اس میں لاپتا ہونے والے افراد کے لواحقین روز جیتے، روزمرتے ہیں۔ انہیں کسی پَل چین ہی نہیں آتا۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہوپاتا کہ لاپتا شخص زندہ ہے یا مر گیا ہے؟ لاپتا افراد کا مسئلہ جنرل پرویز کے زمانے سے چلا آرہا ہے، اور معاشرے کا ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے جو کہتا ہو کہ ریاست کے خلاف جرم کرنے والوں کو بخشا جائے، انہیں سزا نہ دی جائے۔ مگر معاشرے کے تمام باشعور لوگ یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ اگر کسی لاپتا شخص نے کوئی بھیانک جرم کیا ہے تو اُسے عدالت میں پیش کیا جائے، اُس پر ملکی قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے، اور جرم ثابت ہوجائے تو بلاشبہ اُسے سخت سے سخت سزا دی جائے، مگر لاپتا شخص کو لاپتا نہ رکھا جائے، اُسے ملک کے نظامِ انصاف سے استفادے کا حق دیا جائے۔ ملک کا نظام انصاف لاپتا افراد نے وضع نہیں کیا۔ یہ نظام حکمران طبقے کا بنایا ہوا ہے، اور اس طبقے کو اپنے ہی بنائے ہوئے نظامِ انصاف کے دروازے لاپتا افراد اور اُن کے لواحقین پر بند نہیں کرنے چاہئیں۔ عدل آکسیجن کی طرح انسانوں کی ضرورت ہے۔ معاشرے دولت اور طاقت سے زندہ نہیں رہتے۔ معاشرے عدل سے زندہ رہتے ہیں۔ اسی لیے حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے مگر عدل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ لاپتا افراد کو نظامِِ عدل تک رسائی دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ بدترین ظلم ہے اور کسی بھی اعتبار سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شایانِ شان نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ صرف لاپتا افراد کا نہیں۔ پاکستان میں کیا ہے جو لاپتا نہیں ہے! پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کو ’’لاپتانستان‘‘ بناکر رکھ دیا ہے۔

پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، اور اس کا نظریہ اسلام ہے۔ لیکن پاکستان کا نظریہ ’’لاپتا‘‘ ہے۔ بلاشبہ ملک کا آئین اسلامی ہے، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے آئین کو اسلام کا قید خانہ بناکر رکھا ہوا ہے۔ وہ اسلام کو آئین سے نکل کر ریاست و سیاست، معشیت و معاشرت پر اثرانداز ہی نہیں ہونے دیتا۔ اسلام سود کو خدا اور رسولؐ کے خلاف جنگ قرار دیتا ہے، اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پورا معاشی نظام سود پر کھڑا ہوا ہے۔ ملک کی اعلیٰ عدالتیں سود کے خلاف فیصلہ دے چکیں، مگر حکمران طبقہ عدالتوں میں اپیل لے کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ پہلے یہ کام میاں نوازشریف نے کیا تھا، اب موجودہ حکمران کررہے ہیں۔ اسلام چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پرچم بلند ہو تاکہ معاشرے میں خیر پھیلے اور بدی کا سدباب ہو، مگر ہمارا حکمران طبقہ نہ معاشرے میں خیر پھیلانے کا کام کررہا ہے، نہ وہ بدی کا راستہ روکنے کے لیے تیار ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ تیزی کے ساتھ مغربی ہوتا جارہا ہے، یہاں تک کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی حال ہی میں فرمایا ہے کہ معاشرے میں مغربی ثقافت کا پھیلائو سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن پاکستان کے اصل حکمرانوں کو اس صورتِ حال پر تشویش بھی نہیں ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کا حال ابتر ہے، ہمارے ملک میں ٹیلی ڈرامہ دس سے پندرہ کروڑ لوگ دیکھتے ہیں، اور اِس وقت ہمارے ٹیلی ڈرامے کا یہ حال ہے کہ معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین نے ایک انٹرویو میں صاف کہا تھا کہ اب ہمارے ڈرامے ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ ملک کے ممتاز ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد اس سلسلے میں حسینہ معین سے بھی ایک قدم آگے گئے، انہوں نے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں فرمایا کہ ہمارے بعض ڈرامے ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں شوہر اور بیوی بھی ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظریہ ’’لاپتا‘‘ ہے، اس لیے کوئی ڈراموں کی خرابی پر بات نہیں کررہا، اور حکمران ڈراموں پر کوئی پابندی عائد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا، مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر آئے دن ملک میں نظریاتی خلفشار پیدا کرنے کے لیے اپنے سیکولر اور لبرل ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ سیکولر اور لبرل عناصر تاثر دیتے ہیں کہ قائداعظم تو سیکولر تھے اور پاکستان کو سیکولر ہی بنانا چاہتے تھے۔ بدقسمتی سے ریاست ان عناصر کا منہ بند کرنے کے لیے تیار نہیں۔

پاکستان کا ایک المیہ ایسا ہے کہ دنیا کا کوئی ملک بھی اس المیے سے دوچار نہیں ہوا۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ایک دن اچانک آدھا ملک ’’لاپتا‘‘ ہوگیا۔ 15 دسمبر 1971ء تک پورا پاکستان روئے زمین پر موجود تھا، مگر 16 دسمبر کو سقوطِ ڈھاکا ہوگیا اور آدھا پاکستان لاپتا ہوکر تاریخ کی دھند میں کھو گیا۔ یہ صورتِ حال کسی قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ پاکستان کے حکمران طبقے نے آدھے پاکستان کو خود لاپتا کیا۔ اس سلسلے میں بھارت یاکسی اور ملک کا کردار ثانوی ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ حماقتیں اور ظلم نہ کرتا تو دنیا کی کوئی طاقت آدھے پاکستان کو لاپتا نہیں کرسکتی تھی۔ آدھے پاکستان کے لاپتا ہونے کے حوالے سے اس شعر میں گہری معنویت محسوس کی جا سکتی ہے:

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم انگریزوں کے غلام تھے تو قائداعظم ایک آزاد انسان کی حیثیت سے سوچ رہے تھے اور قیامِ پاکستان کی جدوجہد کررہے تھے، مگر جب ہم آزاد ہوگئے تو پاکستان کے حکمران طبقے نے ملک کی سیاسی اور معاشی آزادی کو ’’لاپتا‘‘ کردیا۔ اس نے ہماری سیاسی اور معاشی آزادی امریکہ اور یورپ کے ہاں گروی رکھ دی۔ چنانچہ ہمارا سیاسی نظام ’’امریکہ مرکز‘‘ ہے۔ امریکہ چاہتا ہے تو پاکستان میں مارشل لا آجاتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے تو پاکستان میں جمہوریت بحال ہوجاتی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے تو میاں نوازشریف جیل سے سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے تو بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویزمشرف کے درمیان این آر او ہوجاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہماری معیشت آزاد تھی، مگر ہمارے حکمران طبقے نے معیشت کی آزادی کو بھی لاپتا کردیا۔ انہوں نے پاکستان کی معیشت کو قرضوں کی معیشت بنادیا اور ملک کی معاشی آزادی آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے حوالے کردی۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان اپنے وسائل کا 85 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کررہا ہے، جب کہ بھارت اپنے وسائل کا 51 فیصد اور بنگلہ دیش اپنے وسائل کا صرف 20 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ صورتِ حال پاکستان سے کھلی غداری ہے، مگر جو غدار ہیں وہی سب سے بڑے محبِ وطن بنے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا دفاع بھی پچاس سال سے امریکہ مرکز ہے، حالانکہ امریکہ نے 1965ء کی جنگ میں ہمیں ہتھیاروں کی فراہمی بند کردی تھی، اور 1971ء میں امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا کبھی مشرقی پاکستان نہ پہنچ سکا تھا۔

غور کیا جائے تو ہماری آبادی کے بڑے حصے کے لیے تعلیم اور صحت کی سہولتیں بھی ’’لاپتا‘‘ ہیں۔ ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر کھڑے ہیں، اور ملک کی آبادی کا صرف دو فیصد اعلیٰ تعلیم حاصل کرپاتا ہے۔ بدقسمتی سے حکمرانوں نے تعلیم کو نجی شعبے کے حوالے کرکے اسے اتنا مہنگاکردیا ہے کہ عام آدمی اپنے بچوں کو تعلیم دلا ہی نہیں سکتا۔ یہی صورتِ حال صحت کے شعبے کی ہے۔ ملک کی آبادی کا ساٹھ فیصد صحت کی سہولتوں سے محروم ہے، اور چالیس فیصد کو علاج معالجے کی جو سہولتیں فراہم ہیں انہیں معیاری سہولتیں نہیں کہا جا سکتا۔

المناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں پینے کا صاف پانی بھی لاپتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق ملک کی 60 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کو واقعتاً ’’لاپتانستان‘‘ بنادیا ہے۔