سائنس دانوں نے ہماری آنکھ کی ایک دلچسپ کیفیت کے بارے میں انکشاف کیا ہے کہ جب آنکھ سے باریک ترین تفصیل کو دیکھا جاتا ہے تو ہم ایک سیکنڈ کے بھی معمولی حصے تک نابینا ہوجاتے ہیں لیکن ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ تحقیق کے مطابق آنکھ کے ریٹینا میں ایک باریک حصہ ”فیویولا“ ہوتا ہے جو ہمیں کسی شے کی باریک ترین تفصیلات دکھاتا ہے۔ مثلاً بہت ساری اشیا کے ہجوم میں جب ہم اسٹال پر رکھی کتاب یا کسی اشتہار پر نظر جماتے ہیں تو فیویولا کی بدولت ہی دماغ تک اس کا سگنل پہنچتا ہے۔ ہماری آنکھیں جب فوری طور پر بڑے منظر سے کسی چھوٹی شے پر پڑتی ہیں تو اس منتقلی کو ”مائیکروسیکڈ“ کہتے ہیں کہ اس عمل میں آنکھ صرف اسی باریک شے کو دکھاتی ہے اور بقیہ مناظر کو دھندلاتی نہیں بلکہ ان سے ہمیں اندھا کردیتی ہے۔ یونیورسٹی آف روچیسٹر میں بصریات سے وابستہ جینس انٹوئے کے مطابق مائیکروسیکڈز کی بدولت بہت تھوڑی دیر کے لیے بصارت دب جاتی ہے جسے اندھا پن کہہ سکتے ہیں۔ اور جب جب ہم نظر اِدھر اُدھر ڈالتے ہیں تو یہ عمل ہوتا ہے۔ محققین کا اصرار ہے کہ یہ ایک اچھا عمل ہے اور جب ہم دوربین سے دیکھنے کے بعد آنکھ ہٹاتے ہیں اُس وقت بھی یہ عمل واقع ہوتا ہے۔ اس میں آنکھ کو بڑے سے چھوٹے اور چھوٹے سے بڑے منظر کی جانب رجوع کرنے اور نظر کو موافق بنانے میں مدد ملتی ہے۔ اس کی تصدیق کے لیے ماہرین نے کچھ رضاکاروں کو کمپیوٹر اسکرین پر ایک گیم کھیلنے کو دیا جس میں انہیں جانوروں کے باریک بالوں جیسی ایک چادر پر سے اچھلتی ہوئی جو نما مخلوق پر نظر جمانی تھی۔ جو یا فلی دکھائی دینے کی صورت میں انہیں جوائے اسٹک کا بٹن دبانا تھا۔ اس دوران ایک اسکینر آنکھوں کا جائزہ لیتا رہا تھا۔ سارے رضاکاروں نے اعتراف کیا کہ جیسے ہی انہوں نے بڑے پس منظر سے اپنی نظر ننھے کیڑوں پر ڈالی تو وقتی طور پر وہ کیڑے نظر نہیں آئے۔ یہاں تک کہ وہ انہیں براہِ راست بھی نہیں دیکھ سکے تھے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ بلائنڈ اسپاٹ سے ہٹ کر ہم وقتی طور پر بھی بینائی کھودیتے ہیں اور یہ عمل خود بینائی کے لیے بہتر ہوتا ہے۔