حضرت لقمان اگرچہ غلام اور غلام زادے تھے لیکن متقی اور حرص و ہوس سے پاک تھے۔ ان کا آقا بھی ظاہر میں تو مالک تھا لیکن دراصل ان کے مرتبے سے واقف اور دل سے ان کا غلام ہوگیا تھا۔ وہ ان کو کبھی کا آزاد کردیتا لیکن لقمان اپنا بھید چھپا کے رکھنا چاہتے تھے، اور آقا ان کے خلافِ مرضی کوئی کام نہ کرنا چاہتا تھا۔ اسے تو حضرت لقمان سے یہاں تک محبت و عقیدت ہوگئی تھی کہ جو کھانا ملازمین اس کے واسطے حاضر کرتے تو وہ ساتھ ہی لقمان کے پاس آدمی روانہ کرتا تاکہ پہلے وہ کھالیں اور ان کا اُلش وہ کھائے۔ وہ لقمان کا جھوٹا کھاتا اور خوش ہوتا تھا، اور جو کھانا وہ نہ کھاتے اسے پھینک دیتا تھا، اور اگر کھاتا بھی تو بالکل بے دلی سے کھاتا۔ ایک دفعہ کا اتفاق یہ کہ خربوزہ تحفے میں آیا اور لقمان اس وقت حاضر نہ تھے۔ مالک نے ایک غلام سے کہا: جلدی جائو اور میرے فرزند حضرت لقمان کو بلا لائو۔
جب لقمان آئے اور سامنے بیٹھے تو مالک نے چھری لی اور خود خربوزہ کاٹا اور ایک قاش لقمان کو دی۔ وہ انہوں نے ایسے شوق و رغبت سے کھائی کہ مالک نے دوسری قاش دی، یہاں تک کہ سترہویں قاش تک وہ اسی طرح ذوق شوق سے کھاتے رہے۔ جب صرف ایک قاش باقی رہی تو مالک نے کہا کہ اس کو میں کھائوں گا تاکہ معلوم ہو کہ یہ کتنا میٹھا خربوزہ ہے۔ جب مالک نے کھایا تو خربوزے کی کڑواہٹ نے حلق میں مرچیں سی لگادیں اور زبان میں آبلے پڑگئے۔ گھنٹہ بھر تک اس کی کڑواہٹ سے بدمزا رہا۔ پھر حیرت سے پوچھا کہ او عزیز تُو نے اس زہر کو کیوں نوش کیا اور اس قہر کو مہر کیوں سمجھ لیا؟ یہ بھی کوئی صبر ہے! اور یہ صبوری کس سبب سے ہے؟ شاید تُو اپنی جان کا دشمن ہے۔ تُو نے کھانے سے بچنے کا حیلہ کیوں نہیں کیا؟ یہی کہہ دیا ہوتا کہ مجھے اس کے کھانے میں عذر ہے۔
حضرت لقمان نے کہا کہ میں نے تمہارے نعمت بخشنے والے ہاتھ سے اس قدر کھایا ہے کہ مارے شرم کے دہرا ہوا جاتا ہوں۔ اس لیے اے صاحبِ معرفت مجھے شرم آئی کہ ایک تلخ چیز تمہارے ہاتھ سے نہ کھائوں۔ میرے تمام اعضا و جوارح تمہاری عطا سے پلے ہیں اور تمہارے ہی دانہ و دام میں اسیر ہیں۔ اگر میں صرف ایک کڑوے پن پر واویلا مچانے لگوں تو خدا کرے سو راستوں کی خاک میرے اعضا وجوارح پر پڑے۔ تمہارے شکر بخشنے والے ہاتھ نے اس خربوزے میں کڑواہٹ کہاں چھوڑی تھی کہ میں اس کی شکایت کرتا!
(ماہنامہ چشم بیدار۔مارچ 2021ء)