سیالکوٹ کے دلخراش اور انسانیت سوز واقعہ نے اہل پاکستان کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں یقین نہیں آتا کہ انسانیت سے عاری یہ لوگ ہمارے ہی معاشرہ کا حصہ ہیں، سب سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ یہ شرمناک حرکت اسلام کے نام پر کی گئی جو سراسر سلامتی، امن اور محبت کا دین ہے اور بے رحم سفاک ہجوم نے سری لنکا جیسے دوست ہمسایہ ملک سے پاکستان کی خدمت کے لیے آئے ہوئے مہمان سے سفاکیت کا یہ مظاہرہ کرنے کے لیے نبی رحمت، حضرت محمدؐ کی ذات مقدس کی ناموس کا سہارا بھی لیا حالانکہ وہ تو صرف مسلمانوں نہیں، تمام انسانوں بلکہ پوری کائنات کے تمام جن و انس اور دیگر مخلوقات کے لیے رحمت وشفقت کا پیغام لے کر آئے اور خود خالق ارض و سما نے انہیں ’’رحمۃ اللعالمین‘‘ کے ابدی لقب سے نوازا۔ معلوم نہیں ان جنونیوں کی انسانیت کہاں دفن ہو گئی تھی جب انہوں نے سالہا سال سے خدمات انجام دیتے والے فیکٹری مینیجر ’پریانتھا کمارا‘ کو پہلے بے رحمانہ تشدد کے ذریعے قتل کیا، پھر اس کی لاش کو گھسٹتے ہوئے فیکٹری سے باہر چوک میں لائے اور نذر آتش کر دیا، پھر اس ناقابل برداشت منظر کی ویڈیو اور سیلفیاں بنا کر اس طرح سماجی ذرائع پر نشر کی گئیں، گویا کوئی بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا گیا ہو۔ کیا یہ طرز عمل ہمارے اجتماعی ضمیر کے مردہ ہو چکنے کی غماضی نہیں کر رہا…؟؟؟
دکھ کا مقام یہ بھی ہے کہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، سیالکوٹ ہی میں چند برس قبل رمضان المبارک میں دو حافظ قرآن بھائیوں کو ذاتی رنجش کا بدلہ لینے کے لیے ڈاکو ڈاکو کا شور مچا کر ہجوم جمع کیا گیا اور اس وقت بے رحمی سے قتل کر دیا گیا جب وہ نائٹ کرکٹ کھیل کر گھر واپس جا رہے تھے۔ قبل ازیں ایک شخص پر قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کا الزام عائد کر کے گوجرانوالہ میں ایک مشتعل ہجوم نے بے دردی سے موت کی نیند سلا دیا تھا، پچھلے سال خوشاب میں ایک بنک کے گارڈ نے ملازمت سے فارغ کئے جانے پر بنک سے نکل کر شور مچا دیا کہ مینیجر نے اسے نماز پڑھنے سے روکا ہے جس پر وہاں ہجوم جمع ہو گیا اور بنک کو آگ لگا دی، جس سے الزام کا نشانہ بننے والا مینجر بھی جاں بحق ہو گیا، اسی طرح کے کئی دیگر واقعات بھی ماضی قریب میں پیش آ چکے ہیں، اگر ان واقعات کو سنجیدگی سے لیا جاتا اور مستقبل میں ان کے اعادہ کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات حکومتی اور معاشرتی سطح پر کئے جائے تو شاید ہمیں آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا…!!!
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ سیالکوٹ کے حالیہ سانحہ کے بعد تمام دینی و سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے یک زبان ہو کر اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے، ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے بھی وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں آئندہ سانحہ سیالکوٹ جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے جامع حکمت عملی تشکیل دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے سری لنکا کے صدر سے رابطہ کر کے انہیں پریانتھا کمارا کے لرزہ خیز قتل پر پاکستانی عوام کے غم و غصے اور شرمندگی کے جذبات سے آگاہ کیا اور یقین دلایا کہ ذمہ داروں کو ہر صورت کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ ملزمان کی بڑی تعداد کو گرفتار کر کے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش بھی کیا جا چکا ہے۔ اس واقعہ میں روشنی کی ایک کرن بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ دو پاکستانی کارکنوں نے فیکٹری مینیجر کی جان بچانے کی جان توڑ کوشش کی، خود کو ڈھال بنا کر اپنی جان خطرے میں ڈالی اور ہجوم کا تشدد بھی اپنے سری لنکن منیجر کو محفوظ رکھنے کی خاطر برداشت کیا۔ وزیر اعظم نے ایک مثالی کردار ملک عدنان کو تمغہ شجاعت دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔
ضرورت ہے کہ سانحہ سیالکوٹ کے تمام پہلوئوں کا حقیقت پسندی سے تفصیلی جائزہ لیا جائے، حکومت خود بھی معاشرے کی مثبت بنیادوں پر تعمیر، تخریبی عناصر کی تطہیرخصوصاً نئی نسل میں شعور کی بیداری کے لیے جامع، ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کرے۔ اس ضمن میں محراب و منبر کے وارث علماء کرام اور تعلیمی اداروں کے اساتذہ سے بھر پور تعاون بھی حاصل کیا جائے تاکہ عوام میں دین کے حقیقی تصورات کو اجاگر اور نوجوانوں کو ان کی ذمہ داریاں احسن انداز میں ادا کرنے کے لیے تیار کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کردار ورقی و برقی اور معاشرتی ذرائع ابلاغ کا ہے کہ وہ نئی نسل کو بے مقصدیت اور بے راہروی کی شاہراہ پر بگٹٹ دوڑانے کی بجائے انہیں ایک بامقصد زندگی گزارنے اور باکردار شخصیت بنانے پر اپنی توانائیاں صرف کریں۔ آخری اور اہم ترین بات یہ کہ سانحہ سیالکوٹ کے مجرموں کو جلد از جلد مثالی سزائیں سنا کر ان پر سر عام عمل کیا جائے تاکہ یہ دوسرے لوگوں کے لیے باعث عبرت بن سکیں اور مستقبل میں ایسے واقعات کے اعادہ سے ہمارا معاشرہ محفوظ رہ سکے… !!! (حامد ریاض ڈوگر)