مقالاتِ بہاول پور

کتاب
:
مقالاتِ بہاول پور : تاریخ، تہذیب، انقلاب
مصنف
:
ڈاکٹر شاہد حسن رضوی
صفحات
:
309 قیمت:600 روپے
ناشر
:
شہاب دہلوی اکیڈمی، بہاول پور
رابطہ
:
3009684150/0622731934

ریاست بہاول پور اس عظیم جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی و تہذیبی تسلسل کا مرکزی نقطہ ہے جسے وادیِ سندھ کی تہذیب کہتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت برعظیم پاک و ہند میں 8 صوبوں کے علاوہ 562 چھوٹی بڑی خود مختار ریاستیں موجود تھیں، انھی میں سے ایک ریاست بہاول پور تھی۔ 3 اکتوبر 1947ء کو ریاست بہاول پور کا مملکتِ خداداد پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا۔ بہاول پور پاکستان میں شامل ہونے والی سب سے بڑی ریاست تھی۔1955ء میں ون یونٹ کے قیام پر یہ ریاست مغربی پاکستان میں مدغم ہوگئی، اور 1970ء میں ون یونٹ کے خاتمے پر اسے پنجاب کا ایک ڈویژن قرار دیاگیا۔
ریاست بہاول پور کا قیام 1727ء میں عمل میں آیااور عباسی خاندان کے امیر صادق محمد خان اس کے پہلے حکمران بنے۔ عباسی حکمرانوں کا عہدِ حکومت (1727ء۔ 1955ء)بہاول پور کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ بالخصوص نواب محمد بہاول خان پنجم (1903ء۔1907ء) کے عہد میں ریاست نے بہت ترقی کی۔ اسی دور میں بہاول وکٹوریہ ہسپتال، پولیس ٹریننگ سینٹر، بہاول پور کلب، پیپلز بینک، یتیم خانہ کے علاوہ گلزار محل، نشاط محل اور مبارک منزل تعمیر کرائے گئے۔ ان کی ناگہانی موت اور جانشین کی کم سنی کے باعث ریاست کا انتظام کونسل آف ریجنسی (1907ء۔1924ء) نے سنبھالا جس کے صدر مولوی سر رحیم بخش تھے، جب کہ کئی انگریز اس کونسل کی مدد کرتے رہے۔ وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ ریڈنگ نے 1924ء میں عنانِ ریاست نواب صادق محمد خان خامس عباسی کے سپرد کردی جو ون یونٹ کے قیام تک ریاستی انتظامی امور سرانجام دیتے رہے۔
نواب محمد صادق خان خامس کے عہد میں تعلیم پر خاص توجہ دی گئی اور بہاول پور میں جامعہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم ہوئی۔ جامعہ عباسیہ نے بتدریج ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے جامعہ اسلامیہ کی حیثیت اختیار کی۔ جامعہ کا یہ اسلامی تشخص اس لحاظ سے بھی امتیازی وصف کا حامل ہے کہ پاکستان میں جامعہ اسلامیہ کی صورت میں پہلی اسلامی یونیورسٹی قائم ہوئی، اور اسی کی جدید شکل آج ”اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور“ کی صورت میں موجود ہے۔ نواب صاحب کے قائداعظم محمد علی جناح ؒ سے انتہائی قریبی مراسم تھے۔ نواب صاحب نے ہر طرح سے مسلم لیگ کی مدد کی۔ قیام پاکستان کے بعد ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا، اور اس نوزائیدہ مملکت کی بھرپور امداد بھی کی۔
ریاست بہاول پور میں جہاں سرائیکی زبان و ادب کو فروغ حاصل ہوا، وہیں اردو زبان کو بھی امیرانِ بہاول پور کی سرپرستی حاصل رہی۔ 1866ء میں اردو زبان کو ریاست بہاول پور کی سرکاری، عدالتی اور دفتری زبان قرار دیا گیا۔ اسی سال سرکاری اہتمام سے صادق الانوار پریس قائم ہوا، اور صادق الاخبار کے نام سے ہفتہ وار جریدے کا اجرا ہوا۔
فاضل مصنف ڈاکٹر شاہد حسن رضوی (سابق صدر، شعبۂ تاریخ اور مطالعہ پاکستان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور) بہاول پور کی معروف علمی، ادبی شخصیت اور معروف صحافی سید مسعود حسن شہاب دہلوی کے فرزند ہیں۔ معروف ادبی پرچے ”الہام“ اور ”الزبیر“ کے مدیر ہیں۔ اس سے قبل بہاول پور کی تاریخ پر آپ کے متعدد تحقیقی مقالات اور ایک کتاب ”بے مثل ریاست کا بے مثل شہر، بہاول پور“ بھی شائع ہوچکی ہے۔
پیش نظر کتاب ”مقالاتِ بہاول پور“ درجِ ذیل 18 تحقیقی مقالات پر مشتمل ہے:
1۔ بہاول پور کے جغرافیائی خدوخال، 2۔ روہی کی گم گشتہ تہذیب و ثقافت، 3۔ بہاول پور کی تاریخی، لسانی اور تہذیبی حیثیت، 4۔ سابق ریاست بہاول پور: رسوم و رواج کے آئینے میں، 5۔ پتن منارہ: قدیم تہذیبی ادوار کی زندہ علامت، 6۔ عظمتِ رفتہ کی سرزمین اُوچ تاریخ کے آئینے میں، 7۔ روہی کے قلعے… ہمارا تاریخی ورثہ، 8۔ بہاول پور کی ثقافتی میراث: (باقی صفحہ 41پر)
شاہی محلات، 9۔ برصغیر میں چلنے والی انقلابی تحریکوں کے ریاست بہاول پور پر اثرات، 10۔ تحریکِ پاکستان… عوامی شعور کی بیداری اور مقامی اخبارات، 11۔ روشن خیال فریدؒ، 12۔ علامہ محمد اقبال اور بہاول پور، 13۔ مادرِ ملت فاطمہ جناح اور بہاول پور، 14۔ جدید ریاست بہاول پور کا بانی ”کرنل چارلس چیری منچن“، 15۔ ریاست بہاول پور میں تعلیم کا ارتقاء، 16۔ فروغِ زبان و ادب میں صادق ایجرٹن کالج کا کردار، 17۔ ریاست بہاول پور میں فروغِ اردو زبان و ادب کی مساعی، 18۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور۔ نظریاتی ریاست کا نظریاتی ادارہ
ڈاکٹر شاہد حسن رضوی نے ریاست بہاول پور سے متعلق اپنے ان مقالات کو موضوعاتی اعتبار سے مختلف عنوانات کے تحت ترتیب دیا ہے تاکہ محققین اور طلبہ کو مطلوبہ موضوعات تک رسائی میں مدد مل سکے اور ریاست بہاول پور کے جغرافیہ، تاریخ، تہذیب و تمدن ، اس کی گم گشتہ اقدار، اس کی تاریخی،لسانی اور تہذیبی حیثیت، ثقافتی ورثے، رسم و رواج، اس کے قدیم آثار کی بازیافت کے لیے کی گئی کاوشوں، اس کے قدیم و عظیم آثار کی حامل بستیوں اور علاقوں، ا س کے قلعوں اور محلات کا ذکر تازہ ہو۔ علاوہ ازیں ریاست بہاول پور پر برصغیر پاک و ہند میں چلنے والی انقلابی تحریکوں کے اثرات، عوامی شعور کی بیداری میں حصہ لینے والے اداروں، تحریکِ پاکستان میں شامل کاروانِ سیاست و صحافت کا ذکرِ خیر، ریاست بہاول پور سے مختلف تاریخی شخصیات کا تعلق بالخصوص بلبل ِ ہند حضرت خواجہ غلام فریدؒ، حضرت علامہ محمد اقبالؒ، مادرِ ملت فاطمہ جناح اور انگریزی دور کے پولیٹکل ایجنٹ کرنل سی۔ سی۔ منچن کا ذکر صراحت سے کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بہاول پور کی تاریخ، تہذیب اور انقلاب کے حوالے سے ایک مستند ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔