مولانا ظفر علی خاں

ہماری روزمرہ بول چال میں یہ محاورہ کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ فلاں شخص اپنی ذات میں ایک ادارہ ہے۔ ہم بسا اوقات مروۃً، بعض اوقات فیشن کے طور پر، کبھی خوشامد کے لیے اور کبھی کبھار حقیقت میں اس اردو محاورے کا بے دریغ استعمال کرنے کے عادی ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے یہ اپنی افادیت اور اہمیت کھوتا جارہا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے علمی، سیاسی، سماجی اور صحافتی پس منظر میں اگر ماضیِ قریب میں یہ محاورہ کسی شخص پر سو فیصد صادق آتا ہے تو وہ مولانا ظفر علی خاں کی ذات ہے۔ اس ایک شخص کی ذات میں اللہ تعالیٰ نے جتنی خوبیاں، صلاحیتیں، قابلیت اور ہنر اکٹھے کردیئے تھے وہ خود ایک حیران کن امر ہے۔ پھر ان صلاحیتوں کا جس قدر بھرپور انداز میں استعمال اس دہقانی شخص نے کیا، اس کی مثال بھی شاذ ہی نظر آتی ہے۔ ایک عام سے کسان گھرانے میں پیدا ہونے والے ظفر علی خاں نے صحافت، سیاست، خطابت، شعر و ادب اور جرأت و استقامت کے میدانوں میں جو شہرت پائی اس کو ترستے ترستے بہت سے لوگ قبر میں اتر جاتے ہیں مگر ناموری کے اس مقام تک نہیں پہنچ پاتے، جس کو ظفر علی خاں ہمیشہ اپنے ساتھ لیے پھرتے رہے۔ وہ ایک متروک اردو محاورے کے مصداق ایسے پوت تھے جس کی کامیابی کے پائوں پالنے ہی میں نظر آگئے تھے۔ وہ طالب علم ہوئے تو ایسے کہ سرسید جسے نباض اور جہاندیدہ شخص نے بے ساختہ کہا:
’’ظفر علی خاں علی گڑھ کے اُن ہونہار طلبہ میں سے ہیں جنہیں آئندہ چل کر اپنی قابلیت کے بل بوتے پر ملک و قوم کی ذمہ داریاں سنبھالنا ہیں۔ میں ان میں ایک روشن مستقبل کے آثار دیکھ رہا ہوں‘‘۔
وہ 1906ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے ڈھاکہ میں ہونے والے اُس اجلاس میں شریک ہوئے جس میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تو ہندوستان بھر کے مسلم زعما نے انہیں طلبہ اور نوجوانوں کی نمائندگی کے لیے منتخب کرلیا۔
تعلیم سے فارغ ہوئے تو نواب محسن الملک جیسے قدآور سیاسی و علمی شخص نے انہیں اپنا پرائیویٹ سیکریٹری مقرر کرلیا۔ نواب حیدرآباد نے ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کی گونج سنی تو انہیں اپنا اتالیق بنالیا۔ ساتھ ہی برصغیر کی اس سب سے بڑی مسلم ریاست میں تعلیم و تدریس اور ’’دکن گزٹ‘‘ کی ذمہ داریاں بھی انہیں سونپ دیں۔
ترجمے کے میدان میں اترے تو لارڈ کرزن کی کتاب “Persia and the persian question” کا ’’خیابانِ فارس‘‘ کے نام سے بے مثال اردو ترجمہ، اور مولانا شبلی نعمانی کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’الفاروق‘‘ کا ’’عمر دی گریٹ‘‘ کے نام سے ایسی شستہ اور رواں انگریزی میں ترجمہ کیا کہ بڑے بڑے انگریزی دان آج بھی اس انگریزی کو پڑھ کر سر دھنتے ہیں۔
والد کی وفات کے بعد یکم جنوری 1910ء سے ہفت روزہ ’’زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھالی تو پہلے اسے کرم آباد سے لاہور منتقل کرکے روزنامہ بنایا، اور پھر اُس پر اس قدر محنت کی کہ صرف ایک سال میں اس کی اشاعت 5 ہزار اور اگلے چند ماہ میں 25 ہزار تک پہنچ گئی۔ پھر اسی ’’زمیندار‘‘ کے ذریعے آزادیِ ہند، شہری حقوق اور آزادیِ اظہار کے وہ معرکے لڑے جو صحافتی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
سیاسی و سماجی تحریکوں میں قدم رکھا تو تحریکِ خلافت اور مسجد شہید گنج تحریک کے علاوہ قیامِ پاکستان کی تحریک کو اس حوصلے اور حکمت سے آگے بڑھایا کہ ان تحریکوں کا تذکرہ مولانا کے ذکر کے بغیر ہمیشہ ادھورا رہے گا۔
جرأتِ اظہار کا مرحلہ آیا تو زندگی کے 14 سال جیلوں میں کاٹ دیئے۔ جرأت و بہادری کا یہ عالم تھا کہ اوائل جوانی میں والد سے ملنے کشمیر گئے تو وہاں اچانک ایک انگریز افسر آگیا جس نے نخوت و تکبر سے وہاں بیٹھے ہوئے ظفر علی خاں سے کہا ’’ہمارا گھوڑا پکڑو ہم ابھی آتا ہے‘‘۔ نوجوان ظفر علی خاں نے اسی لہجے میں جواب دیا ’’ہم تمہارے باپ کا نوکر نہیں ہے‘‘۔ ان کی جرأت و ہمت کا ایک اور واقعہ ملاحظہ ہو، جب پنجاب کی یونینسٹ حکومت کے بھیجے ہوئے فوجی کعبہ کی بے حرمتی اور کعبہ پر فائرنگ کے بعد واپس لوٹے تو ان کا سرکاری سطح پر استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر صرف ظفر علی خاں ایسے نڈر لیڈر تھے جنہوں نے اُسی روز لاہور میں احتجاجی جلسہ کرکے یہ فی البدیہ قطع پڑھا:
مادرِ ہند کے فرزندانِ گرامی آئے
دیکھو کس شان سے انگریز کے حامی آئے
لعنت ہر دو جہاں کی ہے سیاہی منہ پر
کر کے برباد حرم کو یہ حرامی آئے
جس پر جلسے میں موجود انگریز مجسٹریٹ نے موقع پر ہی مولانا کو چار ماہ قید اور ’’زمیندار‘‘ کی بندش کا حکم صادر کیا۔
انگریز اور ہندو کی غلامی سے آزادی کی تحریک اور پاکستان کے قیام میں مولانا کی جدوجہد اور قربانیوں کا تو خود قائداعظم نے 1936ء میں لاہور میں اِن الفاظ میں اعتراف کیا:
’’مجھے ظفر علی خاں جیسے نڈر لوگ مل جائیں تو مسلمانوں کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی‘‘۔ 23 مارچ 1940ء کے منٹو پارک لاہور کے تاریخی جلسے میں پاکستان کے مطالبے پر مبنی جو قرارداد انگریزی زبان میں مولوی فضل حق نے پیش کی اُس کا فی البدیہ فوری اور پُرجوش اردو ترجمہ کرنے کا اعزاز مولانا ظفر علی خان ہی کے حصے میں آیا۔
عشقِ رسولؐ مولانا کی سیاست، صحافت اور ادب و شاعری کا ایک ایسا پہلو ہے جو دنیا میں ان کی عزت و توقیر میں اضافے کا باعث بنا اور آخرت میں ان کی بخشش کا ذریعہ بنے گا۔ ان کی مشہور نعت’’وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں‘‘اور ’’دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو‘‘ آج بھی اہلِ ایمان کے دلوں کو گرما رہی ہیں۔
مولانا نے پوری زندگی صعوبتیںبرداشت کیں، مقدمات کا سامنا کیا، جیلیں کاٹیں، اخبار بند کروائے لیکن اپنے اصولوں سے پیچھے نہ ہٹے۔
ہم رہروِ دشتِ بلا روزِ ازل سے
اور قافلہ سالار حسینؓ ابنِ علیؓ ہے
آج کے اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت کے لیے مولانا کا پیغام آج بھی یہی ہے:
دو حق و صداقت کی شہادت سرِ مقتل
اٹھو کہ یہی وقت کا فرمانِ جلی ہے
مولانا ظفر علی خاں کی جرأت، راست روی اور علمی و ادبی مقام پر اُس دور کے اکابرین نے انہیں ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا:
٭ ’’اس نوجوان میں بلا کی تیزی ہے۔ اس بدلتے ہوئے دور میں ایسے ذہین نوجوانوں کا ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ مسلمانوں میں جوہر کی کمی نہیں، تربیت کی کمی ہے۔ ظفر علی خاں نے علی گڑھ میں رہ کر جو کچھ حاصل کیا ہے، حیدرآباد اس سونے پر سہاگے کا کام دے سکتا ہے‘‘۔
(نواب محسن الملک)
٭’’ظفر علی خاں میرے شاگردوں میں سے ہیں۔ پنجابی نژاد ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ انہیں نظم و نثر دونوں پر قدرت حاصل ہے۔ یہاں نوجوانوں میں تو وہ سب سے آگے ہیں۔ اپنی نظم و نثر میں کہیں بھی ٹھوکر نہیں کھاتے۔ پنجاب نے ظفر علی خاں اور اقبال پیدا کرکے اپنے ماضی کی تلافی کردی ہے‘‘۔
(نواب مرزا داغ دہلوی)
٭’’ظفر علی خاں کا نام اور کام محو ہونے کی چیز نہیں۔ ہمارے چل چلائو کا زمانہ ہے لیکن ایک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے کی باگ ڈور نوجواں نے سنبھال رکھی ہے۔
(علامہ شبلی نعمانی)
٭’’ظفر علی خاں کے قلم میں مصطفیٰ کمال کی تلوار کا بانکپن ہے۔ انہوں نے مسلمانانِ پنجاب کو نیند سے جھنجھوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں۔‘‘
(شاعر مشرق علامہ اقبال)
٭’’ظفر علی خاں کو تحریکوں کی عمارت بنانے میں کمال حاصل ہے۔ وہ اُن لوگوں میں سے ہیں جو ہمیشہ راہ و منزل سے بے نیاز ہوکر چلتے ہیں۔‘‘
(مولانا ابوالکلام آزاد)
٭’’ظفر علی خاں صحافی سے زیادہ ادیب ہیں، اور ان کے کلام میں جو تلخی ہے وہ سیاست کی ہے، اور جو چاشنی ہے وہ ادب کی ہے۔‘‘
(مولانا محمد علی جوہر)
٭’’ظفر علی خاں نے جو قومی و ادبی معرکے سر کیے ہیں اس کا اعتراف تو ان کے دشمنوں کو بھی ہے۔‘‘
(مولانا شوکت علی)
٭ ’’مولانا ظفر علی خاں نے اردو ادب کو سیکڑوں الفاظ اور بیسیوں ترکیبیں دی ہیں جو ان کے پیار آفرین قلم کا قابلِ فخر سرمایہ ہیں۔‘‘
(شیخ سر عبدالقادر)
٭’’اردو ادب نے تین کامل الفن استاد پیدا کیے ہیں: محمد رفیع سودا، اکبر الٰہ آبادی، ظفر علی خاں۔‘‘
(سید سلیمان ندوی)
٭ہندوستانی مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے محرک چار ہیں: ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر، اقبال اور ظفر علی خاں‘‘۔
(ڈبیلو، سی، سمتھ)
انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس کراچی (1936ء) میں نمازِ عصر کے موقع پر جلسہ ملتوی نہ کرنے کی بنا پر ظفر علی خاں جب کانگریس سے علیحدہ ہوگئے تو گاندھی جی نے کہا: ’’میں مولانا ظفر علی خاں کی عزت کرتا ہوں۔ وہ اپنی دھن کے پکے ہیں۔ ہمیں ان سے ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے دیش کے لیے بڑی بڑی کٹھنائیں سہی ہیں‘‘۔
اسی موقع پر پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا: ’’یہ صحیح ہے کہ ہمارے بہت سے ساتھی سیاسیات میں مختلف راستہ اختیار کرتے چلے گئے۔ کچھ بھی ہو لیکن اس میں تو شک نہیں کہ مولانا ظفر علی خاں غیر ملکی حکومت کے خلاف بڑی جوانمردی سے لڑتے رہے ہیں۔‘‘
خواجہ حسن نظامی، جن کی مختلف امور میں ظفر علی خاں سے مخاصمت رہی، ان کی شخصیت کی قلمی تصویر بڑے دلچسپ پیرائے میں پیش کرتے ہیں:
’’میانہ قد، گندمی رنگ، چھریرا بدن، آنکھیں روشن اور متحرک، آواز بلند اور باوقار، بولنے میں روانی اور بے باکی، نظم و نثر لکھنے میں پنجاب کے پانچوں دریائوں سے زیادہ رواں، قادر الکلام، ان کی اردو عرب سے بن کر آئی ہے، اور فارس کے راستے یہاں پہنچی ہے۔ ہجو خوب لکھتے ہیں۔ ترجمہ کرنے میں ان کی کوئی برابری نہیں کرسکتا۔‘‘
آج اس بات کا احساس شدت سے ہوتا ہے کہ مولانا ظفر علی خاں جیسے بے لوث رہنما اور بے پناہ صلاحیتوں کے حامل ادیب، شاعر، صحافی اور مقرر دہائیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ آج مولانا کی شخصیت اور نام کو نوجوان نسل تک پہنچانے کی شدت سے ضرورت ہے۔
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را