ٓٓٓٓآدمی کی اصل…انسانی نسل کی افزائش اور انواع پر اس کے اثرات

آدمی کی اصل کیا ہے؟ ہم اس سوال کی تحقیق میں قرآن کی آیات تک رسائی پاچکے ہیں۔ ہم شاید یہاں اس خیال پر قانع ہوں کہ اس موضوع پر دستیاب قرآنی مواد بس یہی کچھ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ جب ہم موجودہ سائنسی ڈیٹا کی روشنی میں قرآن کا مطالعہ آگے بڑھاتے ہیں تو انسانی افزائشِ نسل پر مزید حقائق سامنے آتے ہیں۔ درحقیقت اس موضوع پرقرآن کے بیانات، کہ آیا نسلِ انسانی کن کن تغیرات سے گزری ہے، اور علم الاشکال الاعضاء میں اس کی کیا صورتیں بنی ہیں، اہم اکتشافات ہوتے ہیں۔
علم الاشکال الاعضاء کی صورت گری جینیاتی کوڈ کی مرہونِ منت رہی ہے۔ والدین کی جانب سے متحد اور متشکل کروموسومز حاصل ہوتے ہیں، یہ آدمی کی پیدائشِ نو ممکن بناتے ہیں۔ یہ جینیاتی توارث مل کر مستقبل کے انسان کی صورت متعین کرتے ہیں۔ سب سے پہلے جنین میں، اُس کے بعد رحمِ مادر میں نشوونما ہوتی ہے۔ اس مقام پر والدین کی جانب سے جو بھی ممکنہ عضوی وراثت منتقل ہوتی ہے، نئے انسان میں متشکل ہوتی ہے۔ بتدریج ترامیم شدہ تشکیلِ نو بچے کی پیدائش پر واضح ہوجاتی ہے۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے، ایک نئی صورت نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے۔ یوں بچے کی منفرد شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ماسوائے جڑواں بچوں کے جو ایک ہی جرم خلیہ سے تشکیل پاتے ہیں، کوئی بھی آدمی کسی دوسرے آدمی سے پوری طرح مشابہ نہیں ہوتا۔ یہ وہ تخلیقی تنوع ہے جوانسانی انواع پر اثرانداز ہوتا ہے۔ لہٰذا ان ترامیم کا مجموعی انضمام نسلوں تک صورتیں بدلتا رہتا ہے، عضویاتی تبدیلیاں لاتا ہے، جیسا کہ مختلف انسانی گروہوں کے مابین محقق بھی ہوچکا ہے۔
اس لیے ہم قرآن میں موجود اُن اہم نکات کا ضرور جائزہ لیں گے جو اس ترامیم شدہ انسانی افزائشِ نسل پر دال ہوں۔ یہاں میں مختصراً اُس سوال پر حاصلِ مطالعہ کا خلاصہ پیش کروں گا کہ جو’’بائبل، قرآن، اور سائنس‘‘ میں سامنے آیا تھا۔ جب ہم سائنسی ڈیٹا کی قرآن سے ہم آہنگی محقق کرتے ہیں تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن کا متن اُس فرد سے مخاطب ہے جس کا تعلق ساتویں صدی عیسوی سے ہے۔ یہ وہ عہد ہے جب کسی بھی انسان سے اس موضوع پر اس معیار کی تحقیق کا صدور ممکن نہ تھا۔ سائنس نے ابھی ترقی نہیں کی تھی۔ انسانی افزائشِ نسل پر اس درجے کی تحقیق موجود نہ تھی۔ اس موضوع پر ہر حوالہ توہمات اور دیومالائیت سے آلودہ تھا۔ ظاہر ہے اس کے سوا ہو بھی کیا سکتا تھا؟
اس موضوع کی پیچیدہ میکانیت سمجھنے کے لیے لازم تھاکہ کم از کم مائیکرو اسکوپ دستیاب ہوتا، جو ظاہر ہے کہیں موجود نہ تھا۔ ابھی بنیادی سائنس کی پیدائش بھی نہ ہوئی تھی، کہ جس نے بعد میں فزیالوجی (اعضا کا مطالعہ)، امبریالوجی (جنین کا مطالعہ) اور اوسٹریٹکس (جراحت زچگی کا مطالعہ) کی راہ ہموار کی۔
اس ضمن میں، مَیں کلیات (theories) پیش نہیں کروں گا، کیونکہ یہ کلیے بدلتے رہتے ہیں، انہیں استحکام حاصل نہیں۔ جو تھیوری ماضی میں درست سمجھی جاتی ہے، مستقبل میں جھٹلا دی جاتی ہے، اور اس میں مزید ترمیم کی گنجائش رہتی ہے۔ یہاں میںصرف ثابت شدہ حقائق رکھوں گا، یہ ڈیٹا کے مطابق ہوں گے، انہیں تجربات سے مستحکم کیا جاچکا ہے، اور مؤثر طور پر عمل میں لایا جاچکا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ افزائشِ نسل ایک ترتیب سے ہوتی ہے۔ اس کی ابتدا میں بیضہ مادہ کو نر تولید سے بارور کیا جاتا ہے، پھر یہ ایک نالی سے گزر کر بیضہ دان سے بیضہ مادہ کے رحم میں داخل ہوتا ہے، مرد کا جرم خلیہ اسپرمیٹوزون کہ جو ایک نطفہ میں لاکھوں کروڑوں ہوتے ہیں، نئے آدمی کی تخلیق کے لیے صرف ایک اسپرمیٹوزون کافی ہوتا ہے، اور یہ ایک نطفہ خود ایک کیوبک سینٹی میٹر ہوتا ہے۔ یہ عمل حمل ٹھیرادیتا ہے۔
جوں ہی جنین نمایاں ہوتا ہے، ایک گوشت نما لوتھڑا نظرآتا ہے، اعضاء نظر نہیں آتے۔ پھر یہ بتدریج انسانی صورت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ سب سے پہلے دماغ خلق ہوتا ہے، یہ ابتدائی مرحلے میں سارے جسم سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کے بعد زندگی قائم کرنے والا ڈھانچہ متشکل ہوتا ہے، اور اس کے اردگرد پٹھے چڑھتے ہیں۔ نروس نظام تشکیل پاتا ہے، پھر دورانِ خون کی رہ گزر بنتی ہے، اور اس طرح سارا جسم وجود میں آجاتا ہے۔
قرآن کا بیان
ایک خلاصہ اُن حاشیوں کا، جو آدمی کی نشوونما کے ابتدائی مراحل بیان کرتے ہیں۔ سمجھنے کی سہولت کے لیے چند نکات مندرجہ ذیل یوں ہوسکتے ہیں:
1۔ نطفہ کی ضروری مقدار، 2۔سیال کی پیچیدہ نوعیت،3۔تولیدی خلیہ کی باروری،4جنین کا ارتقا
نطفہ کی ضروری مقدار
’’اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بُوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے صریحاً وہ ایک جھگڑالُو ہستی بن گیا۔‘‘ (نحل، آیت 4)
’’کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحمِ مادر میں)ٹپکا جاتا ہے؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا درست کیے، پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں۔ کیا وہ اِس پر قادر نہیں ہے کہ مرنے والوں کو پھر سے زندہ کردے؟‘‘ (قیامۃ، آیت 37)
یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ قرآن واضح طورپر کہہ رہا ہے کہ تولیدی خلیہ کی باروری کا انحصار نطفہ کی مقدار پرنہیں ہے۔ یقیناً یہ اسپرمیٹوزون ہے جو ڈی این اے ٹیپ کا حامل ہوتا ہے۔ یہی والد کی جانب سے دیے گئے جین کوآگے بڑھاتا ہے، جو والدہ کی طرف سے دیے گئے جین میں مل کر جینیاتی وراثت متشکل کرتا ہے، اور مستقبل کا آدمی وجود میں آتا ہے۔ دونوں جینز کی خصوصیات اس نئے انسان میں یکجا ہوجاتی ہیں۔ اس نئے فرد کی جنس بھی جینیاتی طور پر ہی طے ہوتی ہے۔ قر آن اس باب میں کہتا ہے:
’’پھٹکار ہو انسان پر، کیسا سخت مُنکرِ حق ہے یہ۔ کس چیز سے اللہ نے اِسے پیدا کیا ہے؟ نُطفہ کی ایک بوند سے۔ اللہ نے اِسے پیدا کیا، پھر اِس کی تقدیر مقرر کی، پھر اِس کے لیے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اِسے موت دی اور قبر میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے وہ اِسے دوبارہ اُٹھا کھڑا کرے۔ ہرگز نہیں، اِس نے وہ فرض ادا نہیں کیا جس کا اللہ نے اِسے حکم دیا تھا۔‘‘ (عبس، 19-20)
ہمیں یہاں لازماً یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ قرآن اس مرحلے پر آدمی کی تقدیر مقررفرماتا ہے، کہ آیا پیدا ہونے والا مرد ہوگا یا عورت۔ اُس کی خصوصیات کیا ہوں گی، کیا خوبیاں، کیا خرابیاں ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔
تولیدی خلیہ کی پیچیدگی
یہ بڑی بھرپور تخلیق ہے، اور بڑے واضح انداز میں قرآن نے اسے بیان کیا ہے:
’’ہم نے انسان کو ایک مخلُوط نُطفے سے پیدا کیا۔‘‘ (دہر، آیت 2)
مخلوط نطفہ کی اصطلاح عربی کے لفظ ’’امشاج‘‘ پر خوبی سے اطلاق کرتی ہے۔ جس مخلوط نطفہ کا ذکر قرآن کررہا ہے، انتہائی پیچیدہ منویہ سیال ہے، یہ غدود کہ جو جسم کی ضرورت یا اخراج کے لیے ریزشیں پیدا کرتے ہیں، پر مشتمل ہوتا ہے۔ قرآن صرف یہی نہیں بتاتا بلکہ یہ معلومات بھی فراہم کرتا ہے کہ مرد کا تولیدی خلیہ کس طرح منویہ سیال سے لیا جاتا ہے:
’’اُس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی، پھر اُس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے، پھر اُس کو نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی، اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور دل دیے۔ تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔‘‘ (سجدہ، آیت 8)
تولیدی خلیہ کی بارآوری
رحمِ مادر میں تولیدی خلیہ کی بار آوری کس طرح ہوتی ہے، اس کا بیان قرآن میں کئی جگہ آیا ہے۔ اس سیاق و سباق میں عربی کا لفظ ’’علق‘‘ استعمال ہوا ہے، یہ بالکل درست معنی واضح کرتا ہے، ایک ایسی شے جو ’منسلک‘ ہوجاتی ہے۔
’’کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحمِ مادر میں) ٹپکا جاتا ہے؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا درست کیے، پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں۔ کیا وہ اِس پر قادر نہیں ہے کہ مرنے والوں کو پھر سے زندہ کردے؟‘‘(قیامۃ،37)
یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ تولیدی خلیہ کی تخم ریزی کے چھٹے روز پیدائش شروع ہوجاتی ہے، یعنی تولیدی خلیہ منسلک ہوجاتا ہے۔ یہاں اس تحقیق میں متواتر یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’’علق‘‘ کی مانند، عربی الفاظ کے اصل اور قدیم معنی سائنسی دریافتوں کی تفہیم کے لیے زیادہ موزوں ہوتے ہیں، جبکہ اخذ کردہ معانی یا قدیم تشریح غلط تعبیرات کی جانب لے جاتی ہیں۔
رحمِ مادر میں جنین کا ارتقا
جب تولیدی خلیہ رحمِ مادر میں ’’علق‘‘ کا چکر مکمل کرلیتا ہے، مکمل طورپر منسلک ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد جنین کہ جسے قرآن ’’گوشت کا لوتھڑا‘‘ کہتا ہے، اگلے مرحلے کی جانب بڑھتا ہے۔ یہ اپنی ابتدائی حالت میں بیس روز قائم رہتا ہے ، پھرانسانی صورت میں ڈھلنا شروع ہوتا ہے۔ ہڈیاں اورہڈیوں کے ریشے بننے لگتے ہیں، جنہیں پٹھے بتدریج ڈھانپ لیتے ہیں۔
’’ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا، پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دُوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔‘‘(مومنون، 14)
اس ضمن میں قرآن دو طرح کے گوشت کا ذکر کرتا ہے، ایک ’’المغضۃ‘‘ یعنی ایسا گوشت کہ جیسے چبایا گیا ہو، دوسرا ’’لحم‘‘ یعنی صحیح سالم گوشت جیسے کہ پٹھے ہوتے ہیں۔ قرآن اس دوران آدمی کے حواس کی بیداری کا حوالہ بھی دیتا ہے:
’’اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور دل دیے ۔ تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔‘‘(سجدہ، 9)
’’وہ تمہیں اُس وقت سے خوب جانتا ہے جب اس نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں ابھی جَنین ہی تھے۔‘‘ (نجم، 45-46)
آیات واضح کرتی ہیں کہ نطفہ کی حقیر سی مقدار بھی انسان کی پیدائش ممکن بناتی ہے۔ یہ نطفہ ہے جس میں اسپرمیٹوزون ہوتا ہے، یہ ہیمی کروموسوم کا حامل ہوتا ہے، کہ جو نئے انسان کے جنسی خط وخال متعین کرتا ہے۔ اس سیاق و سباق میں سائنسی ڈیٹا قرآن کے بیان سے قطعی مطابقت اختیار کرگیا ہے۔ قرآن کا بیان آج ایک سائنسی حقیقت ہے۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ دورِ نبوت (صلی اللہ علیہ وسلم) میں کوئی انسان امبریالوجی(Embryology) کی ایسی تفصیل جان سکا ہو؟ جبکہ یہ ڈیٹا نزولِ قرآن کے ہزار سال بعد دریافت ہوا ہے۔
سائنس کی تاریخ سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کے ان بیانات کی کوئی انسانی وضاحت ممکن نہیں ہے۔ ( یقینا اس مضمون کی آخری سطرواضح کررہی ہے کہ صاحبِ مضمون قرآن کی اُلوہی حیثیت پراظہارِ تیقن کررہے ہیں، اور اسے اللہ رب العزت کے معجزاتی کلام کے طورپر پیش کررہے ہیں۔مترجم)