مقبوضہ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے دعویٰ کیا ہے کہ دو سال بعد کشمیر میں عسکریت کا وجود نہیں ملے گا۔ بھارتی نمائندے کا یہ دعویٰ اگر پیش گوئی اور فلمی ڈائیلاگ ہے تو اس کی چنداں اہمیت نہیں، کیونکہ کشمیر کی عسکریت نے مسئلہ کشمیر کے سیاسی پہلو سے جنم لیا، اور اس مسئلے کے سیاسی حل کے بغیر ایسا بظاہر ممکن نہیں آتا۔ اس دعوے کی بنیاد اگر بھارت کی فوجی طاقت اور کشمیریوں کو کچلنے پر ہے تو بھی بھارت کشمیریوں کی کئی نسلوں کو ختم کرنے کے باوجود عسکریت کو ختم نہیں کرسکا۔ ایک کے بعد دوسری نسل سامنے آکر بھارت کو للکار رہی ہے۔ ہاں اگر اس دعوے کے پیچھے کوئی سفارتی کھچڑی، کوئی معاشی منصوبہ بندی اور بیک چینل ڈپلومیسی کا کوئی اور کھیل ہے تو پھر یہ بات قابلِ فہم ہے۔
بھارت اپنے بل بوتے پر کشمیریوں کی تحریک کو کچل نہیں سکا، اس لیے مجبور ہوکر کشمیر میں مستقل قیامِ امن کا بوجھ اُٹھانے کے لیے کئی ظاہری اور پوشیدہ نئے شراکت دار تلاش کرلیے گئے ہیں۔ ظاہری شراکت داروں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ یہ دونوں اسلامی ممالک پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات بھی رکھتے ہیں اور پاکستان ان کے معاشی احسانات کے بوجھ تلے دبا ہوا بھی ہے۔ بھارت نے متحدہ عرب امارات اور کشمیر انتظامیہ کے درمیان کشمیر میں سرمایہ کاری کے منصوبے پر دستخط کرائے ہیں۔ اس معاہدے میں بھارت کی حکومت نے محض اپنے سہولت کار ہونے کا کردار ادا کیا۔ دبئی اور سری نگر کے درمیان بھارتی ائرلائن گوفرسٹ کی پروازیں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی طرح سعودی عرب بھی کشمیر میں براہِ راست سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے۔ سرمایہ دار کبھی ایسے مقام پر سرمایہ نہیں لگاتا جہاں مستقبل میں امن کے قیام کا کوئی امکان اور امید نہ ہو۔ جنگ زدہ علاقے میں اگر کوئی سرمایہ کاری کررہا ہے تو لامحالہ اُسے فریقین نے مستقبل کے پُرامن منظر کا خواب دکھایا ہوگا۔ کوئی ایک فریق یک طرفہ طور پر یہ خواب نہیں دکھا سکتا ایسے میں جب کہ وہ چار عشروں سے سرتوڑ کوشش کے باوجود حالات کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہو۔ سوال یہ ہے کہ اگر بھارت کشمیر انتظامیہ اور عرب ملکوں کو آمنے سامنے بٹھاتا ہے اور ایسے عالم میں کہ جب وہ کشمیر کی الگ شناخت ختم کرکے اسے یونین ٹیرٹری میں بدل چکا ہے تو یہ ایک معنی خیز بات ہے۔ ایک طرف بھارت نے کشمیر کا اسٹیٹس کم کرکے اپنے اصل علاقوں یوپی اور مہاراشٹرا سے بھی کم کردیا۔ دوسری جانب وہ اسی کشمیر کی انتظامیہ کو اپنی سرپرستی میں دوسرے ملکوں کے ساتھ معاہدات کروا رہا ہے۔
جنرل پرویزمشرف اور من موہن سنگھ کے ادوار میں چلنے والے پیس پروسس میں بھارت اس حد تک وادی کشمیر کو اسپیس دینے پر آمادہ تھا کہ سرحدی رد و بدل کے بغیر پاکستان ہائیڈل، صحت اور سیاحت کے کچھ مشترکہ منصوبوں میں شامل ہوجائے۔ یہ شمولیت آزادکشمیر کے نام سے بھی ہوسکتی تھی اور پاکستان براہِ راست بھی اس میں شامل ہوسکتا تھا۔ یہ پیس پروسیس ناکام ہوگیا اور پاکستان نے وادی میں پانچویں سوار اور بارہویں کھلاڑی کا کردار قبول کرنے سے انکارکردیا۔اب یوں لگتاہے کہ امریکی سرپرستی میں چلنے والے پیس پروسس میں پاکستان کے لیے مختص یہ اسپیس عرب ملکوں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ عرب ملک بھارت کے ہم پیالہ و ہم نوالہ ہیں، انہیں کشمیر میں اسپیس دینے سے بھارت کی انا زخمی ہوتی ہے اور نہ ہی اسے کسی اندرونی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یوں عرب ممالک کشمیر میں قیام امن کے ضامن اور شراکت دار بن کر اُبھر سکتے ہیں۔
یہ وہی انداز ہے جو پاکستان برسوں پہلے اپنا چکا ہے۔ پاکستان نے ابتدا میں یہ دیکھ لیا تھا کہ وہ بھارت کو کشمیر میں تنہا شکست نہیں دے سکتا تو اس نے تنازعے میں اپنا نیا شراکت دار ڈھونڈ لیا۔ یہ شراکت دار عوامی جمہوریہ چین تھا۔ پاکستان نے چین کے ساتھ معاہدہ کرکے سرحدی تنازعے کو مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک مؤخر کردیا اور اقصائے چین پر چین کا کنٹرول تسلیم کرکے اسے تنازعے کا فریق بنادیا۔ اس طرح بھارت کے مقابلے میں چین اور پاکستان باہمی شراکت دار بن کر اُبھرتے چلے گئے۔ چین اور پاکستان نے بھارت کے مقابلے میں کئی مہمات مل کر چلائیں۔ اب برسوں بعد کشمیر میں حالات کو نارمل بنانے کی کوشش میں تھکا اور ٹوٹا ہوا بھارت عالمِ مجبوری میں امن کے نئے شراکت دار اور ضامن تلاش کرکے قریب قریب وہی راستہ اپنا رہا ہے۔ حالات کا جبر ہے کہ یہ شراکت دار بھی مسلمان ممالک ہیں۔ یہ ممالک بھارت کے بہترین دوست ہیں تو پاکستان کے لیے کسی مہربان چھائوں سے کم نہیں۔ آئی ایم ایف جب بھی پاکستان کی معاشی شہہ رگ پر پائوں رکھ کر ڈریکولا بنتا ہے تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس ڈریکولا کے مقابلے میں سانتا کلاز بن کر سامنے آتے ہیں، اور یوں پاکستان کی معاشی مشکلات میں یکایک کمی آتی ہے۔ پاکستان کشمیر میں اپنے ایسے محسن اور مہربان کرداروں کی سرمایہ کاری ڈبونے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ جوں جوں ان عرب ملکوں کا سرمایہ وادیِ کشمیر میں لگتا چلا جائے گا، امن کا قیام ان کی ضرورت اور پاکستان کی مجبوری بنتا جائے گا۔ عرب ملکوں کو دی جانے والی اسپیس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بھارت بظاہر اپنے فوجی جبر، قہر اور اعصابی مضبوطی کے تاثر کے باوجود کشمیر میں اپنی اسپیس میں کمی پر آمادہ اور نئے شراکت داروں کو قبول کرنے پر مجبور ہورہا ہے۔