لیبیا میں 24 دسمبر کو عام انتخابات ہونے والے ہیں، جن میں نیا صدر منتخب کیا جائے گا۔ ایک عشرے سے بھی زائد مدت تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد لیبیا کے باشندوں کو ایک بار پھر ایک حقیقی چیلنج کا سامنا ہے۔ امیدواروں میں جنرل خلیفہ ہفتر بھی شامل ہیں۔ اُنہیں روس اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے اور اُن پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے۔ ایک اور مضبوط امیدوار سابق صدر معمر قذافی کے صاحبزادے سیف قذافی ہیں۔ سیف کو بھی روس اور یو اے ای کی حمایت حاصل ہے۔ دیگر تین صدارتی امیدواروں کو امریکہ، برطانیہ، مصر، فرانس، اٹلی اور ترکی کی حمایت حاصل ہے۔
خلیفہ ہفتر اور سیف قذافی کو زیادہ پریشان کن امیدوار بنانے والا عامل اُن کا روسی حمایت یافتہ ملٹری کنٹریکٹرز کے نیٹ ورک ویگنر گروپ سے رابطہ ہے۔ اطلاعات ہیں کہ اس گروپ کو یو اے ای کی حمایت و مدد بھی حاصل ہے۔ خلیفہ ہفتر اور سیف قذافی میں سے کسی ایک کے صدر بننے کا واضح امکان ہے۔ کوئی بھی جیتے، لیبیا میں ویگنر گروپ کے تحت ملٹری کنٹریکٹرز کا ایک بڑا نیٹ ورک اہم اور بنیادی ریاستی امور پر متصرف ہوگا۔ اور یوں ماسکو اور ابوظہبی ممکنہ طور پر مشرقِ وسطیٰ میں اپنے اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع کریں گے۔
اس امر کے شواہد بھی موجود ہیں کہ روس اور یو اے ای نے بھاری فنڈنگ کے ذریعے بیرونی فوجیوں کو لیبیا کے دارالحکومت ٹریپولی اور دوسرے بڑے شہر بن غازی میں سیاسی معاملات پر متصرف ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بن غازی خلیفہ ہفتر کا گڑھ رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے کئی رپورٹس میں بتایا ہے کہ یو اے ای نے مبینہ طور پر سوڈان اور چاڈ کے فدائین کو لیبیا میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کو لیبیا میں ویگنر گروپ کے پردے میں روسی جنگجوؤں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور اس حوالے سے روس اور یو اے ای کے درمیان بڑھتے ہوئے اشتراکِ عمل کے حوالے سے تحفظات لاحق ہیں۔
میں نے اپنے ساتھیوں اولیور اِمہوف اور جیک مارگولین کے ساتھ لیبیا میں ایک سال گزارا ہے تاکہ روس، یو اے ای اور ویگنر گروپ کے روابط کے بارے میں ٹھوس شواہد جمع کیے جاسکیں۔ ویسے تو خیر 2019ء کے موسمِ بہار میں ٹریپولی میں جنرل خلیفہ ہفتر کی لشکرکشی کے ساتھ ہی یہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ ویگنر گروپ کو یو اے ای کی طرف سے فنڈنگ حاصل ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ رواں سال مارچ تک اس حوالے سے کوئی بھی ثبوت نہ مل سکا تھا۔ یو اے ای کی مسلح افواج کے لیے چین میں تیار کردہ ڈرونز بھی لیبیا میں دیکھے گئے۔ علاوہ ازیں لیبیا کے طول و عرض میں روسی بولنے والے جنگجوؤں کی موجودگی کی اطلاعات بھی ملیں، مگر پھر بھی بہت دور سے ان تمام باتوں کو ملا کر کوئی جامع تصویر تیار کرنا بہت مشکل تھا۔
پھر دو ایسی باتیں ہوئیں جن کے باعث ہم اپنی سوچ تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے۔ پہلی تو یہ کہ امریکی جریدے فارن پالیسی نے نومبر 2020ء میں امریکی محکمہ دفاع کی ایک گمنام سی رپورٹ کے بارے میں اسکینڈل شایع کیا۔ یہ رپورٹ لیبیا میں روسی جنگجوؤں کے لیے یو اے ای کی فنڈنگ کے بارے میں تھی۔ اس کے دو ماہ بعد دی ٹائمز آف لندن نے لیبیا میں امریکہ کے ہاتھوں پکڑی جانے والی روسی ساخت کے پینٹسر ایس ون اینٹی ایئرکرافٹ میزائل بیٹری کے بارے میں رپورٹ شایع کی۔ اس رپورٹ سے ہمیں سیٹلائٹس کے ذریعے لی جانے والی تصویروں، کسٹمز ریکارڈ، پروازوں کے مواد، سوشل میڈیا کی پوسٹس اور روایتی میڈیا کی اُن رپورٹس کا جائزہ لینے کی تحریک ملی جو روسی جنگجوؤں کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں تھی، اور ساتھ ہی ساتھ ان کا تعلق روس کے پینٹسر پلیٹ فارمز کے ہاتھوں پہنچنے والے شدید جانی و مالی نقصان سے بھی تھا۔ جو مواد ہم نے کھنگالا اُس میں سب کچھ ایسا نہیں تھا جس کی بنیاد پر ہم یہ دعویٰ کرسکیں کہ بہت سے شواہد مل گئے ہیں، مگر ہاں، ایسا بہت کچھ دکھائی دیا جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا تھا کہ ویگنر گروپ کو روس اور یو اے ای کی بھرپور حمایت و مدد حاصل تھی۔ اس مواد کی جانچ پڑتال لازم ہوگئی۔ روس نے بظاہر ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کرلیا ہے جو اُسے شمالی افریقا میں اپنی مرضی کے مطابق جنگ چھیڑنے کی گنجائش فراہم کرتا ہے، اور یہ کام اُس نے امریکہ کے اتحادی یو اے ای کی مدد سے کیا ہے۔
ٹریپولی کی لڑائی کے دوران ویگنر گروپ کی جانب سے کیے جانے والے بڑے آپریشنز اور پروازوں اور ہتھیاروں کے حصول کے ڈیٹا، نیز یو اے ای اور روس کے درمیان عسکری اور تکنیکی تعاون کے معاہدوں کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ دونوں کے درمیان بہت کچھ چل رہا ہے۔ اس حوالے سے تحقیقات کی ابتدا یو اے ای کے لیے روس کی ڈیفنس لاجسٹکس کی پائپ لائن اور پھر وہاں سے اشیاء و خدمات کی لیبیا کو منتقلی ہے۔ 30 سال کے دوران یو اے ای نے ملٹی ٹیکنیکل ایگریمنٹس کے ذریعے روس کو پینٹسر ایس ون اینٹی ایئر کرافٹ میزائل کی بیٹریاں تیار کرنے کے لیے کم و بیش 73 کروڑ 40 لاکھ ڈالر فراہم کیے ہیں۔
تجزیوں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خلیفہ ہفتر کی لیبین نیشنل آرمی اور یو اے ای کی چھتری تلے ویگنر گروپ کے تحت کام کرنے والے جنگجوؤں پر غیر معمولی حملوں اور اُن میں پینٹسر ایس ون میزائل سسٹمز کو پہنچنے والے شدید نقصان کے باعث ہی لیبیا میں جنگ کا نقشہ پلٹا اور خلیفہ ہفتر کو مذاکرات کی میز تک آنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ سب کچھ گزشتہ برس ہوا تھا۔ اس نقصان سے روس کو اپنے میزائل سسٹم میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اُسے اَپ گریڈ کرنے پر بھی مجبور ہونا پڑا۔ ان میزائل سسٹمز کو ڈرون حملوں سے محفوظ بنانا بنیادی معاملہ تھا۔ علاوہ ازیں دفاعی تعیناتیوں کے مقامات تک رسائی یقینی بنانا تھی۔
ہم نے اپنی معلومات کی بنیاد پر جو تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرنا شروع کی تب تک روس اور ترکی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کا مقصد لیبیا سے غیر ملکی افواج اور جنگجوؤں یعنی فدائین کو نکالنا تھا۔ اس کے دو ماہ بعد اکتوبر میں نئی رپورٹس سامنے آئیں جن میں بتایا گیا تھا کہ ویگنر گروپ اور مالی کی فوجی حکومت کے درمیان طے پایا ہے کہ گروپ کی جنگی کارروائیوں کو سواحلی علاقوں تک پھیلایا جائے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اقوامِ متحدہ نے مختلف رپورٹس کی بنیاد پر ویگنر گروپ کو لیبیا میں جنگی جرائم کے ارتکاب کا ملزم قرار دینے کی ٹھان رکھی ہے۔
جو کچھ ہم نے معلوم کیا یا پایا وہ لیبیا میں یو اے ای کی براہِ راست فنڈنگ کے ثبوت کے کھاتے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ روس سے اسلحے کی لیبیا منتقلی کے نیٹ ورک کے بارے میں ٹھوس شواہد حاصل کرنے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہاں، یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ روس نے لیبیا میں ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کرلیا ہے جہاں سے وہ شمالی افریقا میں اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی ملک یا خطے کے خلاف جنگ چھیڑ سکتا ہے۔
اب اُسے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ خلیفہ ہفتر اور سیف الاسلام قذافی میں سے جو بھی صدر منتخب ہوگا اُسے ملک کو درست راہ پر گامزن کرنے اور رکھنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ اُسے کئی چیلنجز کا سامنا ہوگا اور سب سے بڑا چیلنج روسی اور اماراتی اثرات کا دائرہ محدود رکھنے کا ہوگا۔
(کینڈیس رانڈاکس نیو امریکہ اور ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے مشترکہ منصوبے دی سینٹر آن دی فیوچر آف وار کی سینئر فیلو اور پروفیسر ہیں۔)
………
Libya Is a Testing Ground for Russia-UAE Cooperation in the Middle East
Candace Rondeaux
Nov. 5, 2021