زندگی اے زندگی! اور یہ قیمتی زندگی وطنِ عزیز کے دوسرے بڑے صوبے، صوبہ سندھ میں اتنی ارزاں، اس قدر کم قیمت اور اس حد تک کم حیثیت ہوچکی ہے کہ آج سندھ کا ہر باسی خود کو یکسر غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب سندھ بھر کے مختلف علاقوں سے بے گناہ انسانی جانوں کے بہ کثرت اتلاف کی خبریں سامنے نہ آتی ہوں۔ معمولی بات پر کسی بھی مرد و زن بلکہ معصوم بچوں تک کی زندگی کو بڑی بے رحمی اور سنگ دلی کے ساتھ ختم کردینا قانون کی عمل داری اور حکومتی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے خوفِ خدا اور خوفِ آخرت سے بے نیاز ظالم افراد کے لیے بے حد سہل اور آسان بن چکا ہے۔ ایسے ایسے دردناک اور الم ناک سانحات رونما ہورہے ہیں کہ اہلِ دل اور حساس افراد کے لیے ان سے اغماض برتنا اور متاثر نہ ہونا کارِدارد بن چکا ہے۔ دل دہل جاتا ہے اور راتوں کی نیند، دن کا قرار رخصت ہوتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔ بدقسمتی سے قانون کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے بے گناہ انسانی جان لینے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس اپنا کردار صحیح معنوں میں ادا کرنے سے معذور اور مجبور دکھائی دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ سندھ خود کو شدید احساسِ عدم تحفظ میں مبتلا دیکھتے ہیں۔ ہمہ اقسام قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کرانے والا کوئی سرکاری ادارہ نہیں ہے، لہٰذا بااثر اور طاقتور افراد اور عناصر کھل کر کھیل رہے ہیں، حکومتی عمل داری کو للکار رہے ہیں، لیکن ان پر گرفت کرنے کی جرأت کسی میں نظر نہیں آتی۔ ہر سال 20 نومبر کو دنیا بھر میں ’’بچوں کے حقوق‘‘ کا دن منایا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اسی روز سکھر اور خیرپور اضلاع کے سنگم پر واقع قصبہ ببرلو میں ایک انتہائی دردناک اور الم ناک سانحہ رونما ہوا۔ 11 برس کے پھولوں کی طرح معصوم اور خوب صورت، پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی، سکھر کے ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے سینٹ میری میں پانچویں جماعت کے ذہین و فطین پوزیشن ہولڈر طالب علم کانہا کمہار سچدیو کو دو وحشی صفت ملزمان سید انعام شاہ اور مدثر منگنہار نے اغوا کرنے کے بعد اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور پھر اپنا مکروہ فعل افشا ہوجانے کے خوف سے بڑی بے دردی کے ساتھ مذکورہ بچے کے سر کو پتھروں سے کچل کر ہلاک کر ڈالا اور لاش کو بعدازاں ایک ویران جگہ پر پھینک دیا۔ رات بھر تلاش کرنے کے بعد گم شدہ معصوم بچے کی مسخ شدہ نعش جب دوسرے روز ملی تو اسے دیکھ کر مقتول بچے کے والدین اور اہلِ خانہ سمیت تمام اہلِ سندھ کے دلوں پر ہی گویا ایک طرح سے قیامت گزر گئی۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر معصوم مقتول بچے کی نعش پر اس کے آزردہ اور سوگ میں ڈوبے ہوئے والدین اور بہنوں کی آہ و زاری نے ہر صاحبِ دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس الم ناک سانحے پر تاحال سندھ بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جن میں گرفتار وحشی اور درندہ صفت ملزمان کو عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ بڑی شدت کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ معصوم کانہا کمہار سچدیو کا بے رحمانہ قتل کوئی پہلا یا پھر آخری قتل ہرگز نہیں ہے، بلکہ سندھ میں بھُنگ (تاوان) کے بدلے معصوم بچوں کے اغوا اور اُن کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں ایک عرصے سے دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے، صرف امسال جنوری تا ماہِ نومبر سندھ بھر میں بچوں کے اغوا کے 898،اور معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کے 325 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ گزشتہ 4 ماہ یعنی اگست تا نومبر معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد انہیں قتل کرنے کے متعدد واقعات ہوچکے ہیں اور ان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بچے تو کائنات کا حسن ہیں لیکن ان کی زندگی سے کھیلنے والوں کو عبرت ناک مثالی سزائیں بہت کم مل پاتی ہیں۔ بہت سارے سانحات کے مرکزی کردار (مجرم) اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچتے، جو بلاشبہ ایک بڑا المیہ ہے۔ اس کے پسِ پردہ بہت ساری وجوہات کارفرما ہیں، جن میں ملزمان کا بااثر ہونا اور قبل از سزا ہی بذریعہ رجوانی یا جرگہ ملزمان پر معمولی جرمانے عائد کرکے ان کو ایک مرتبہ پھر معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے چھوڑ دینا بھی ایک قابلِ ذکر پہلو ہے۔ بدقسمتی سے بہت سارے واقعات تو بوجوہ ہمیشہ پوشیدہ رہتے ہیں اور کبھی سامنے نہیں آتے، وجہ وہی ہے جو اوپر بھی لکھی جاچکی ہے، یعنی حکومتی رٹ نہ ہونے کے باعث بچوں کے ورثا کا اس حوالے سے ملزمان کو کسی نوع کی سزا نہ ہونے کا خدشہ، اور مایوسی۔
بچوں سے جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں ضلع دادو پہلے اور لاڑکانہ، خیرپور کے اضلاع دوسرے نمبر پر ہیں، جہاں پر بچوں کے ساتھ زیادتی کے 21 اور ترتیب وار 18-18 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ سکھر اور کشمور اضلاع میں 15-15، حیدرآباد میں 11، جبکہ جیکب آباد میں 8، شکارپور میں 7، بدین میں 6 اور نوشہروفیروز میں 4 واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔ معلوم نہیں حکومت اور اُس کے اداروں کو کب اور کس طرح سے اپنی ذمے داریوں کا احساس ہوگا، اور کب معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ ختم ہوگا اور مقتول بچوں کے قاتل اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گے۔
ابھی سندھ کے باشندے، معصوم بچے کانہا کمہار کی الم ناک موت کے صدمے سے باہر نہیں نکلے تھے کہ بروز منگل 23 نومبر کو سندھ کے مشہور تعلیمی ادارے چانڈکا میڈیکل کالج شہید محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ میں ایک اور دل دہلا دینے والے الم ناک سانحے کی خبر سامنے آئی۔ مذکورہ تعلیمی ادارے کے ہاسٹل سے دادو کی رہائشی فورتھ ایئر کی میڈیکل کی طالبہ نوشین کاظمی کی اُس کے اُس کمرے سے جہاں وہ رہائش پذیر تھی، مبینہ طور پر پنکھے سے معلق لاش ہاتھ آئی ہے، جس کے بارے میں ہاسٹل اور یونیورسٹی انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبہ نے خودکشی کی ہے۔ ڈاکٹر نوشین کاظمی ضلع دادو کے تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھنے والی بے حد ذہین طالبہ تھی۔ اس کے نانا سندھ کے معروف استاد اور ایک بڑے شاعر استاد بخاری ہیں، جبکہ والد ہدایت شاہ محکمہ سوشل ویلفیئر میں چائلڈ پروٹیکشن آفیسر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی بڑی خوش مزاج اور حصولِ تعلیم کی بے حد شائق تھیں اور اِس مرتبہ بھی وہ خوشی خوشی کالج گئی تھی، اور وہ جس مزاج کی باہمت اور زندہ دل لڑکی تھی، اس کے بارے میں خودکشی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا، لہٰذا یونیورسٹی انتظامیہ سراسر جھوٹ بول کر اپنی نالائقی پر پردہ ڈال رہی ہے، کیوں کہ درحقیقت ان کی بیٹی کو نامعلوم قاتل یا قاتلوں نے بعداز قتل بڑی چالاکی اور مکاری کے ساتھ خودکشی کا رنگ دیا ہے۔ ڈاکٹر نوشین کاظمی کی موت یا مبینہ خودکشی کے بعد مذکورہ تعلیمی ادارہ طلبہ و طالبات میں شدید خوف و ہراس پھیل جانے کی وجہ سے تاحکمِ ثانی بند کردیا گیا ہے۔ چانڈکا میڈیکل کالج میں یہ دوسرا واقعہ بلکہ سانحہ ہے، یہاں پر دو سال پیشتر میرپور ماتھیلو ضلع گھوٹکی کی ایک ذہین طالبہ ڈاکٹر نمرتا کمہاری کی نعش بھی اس کے کمرے سے بعینہٖ دریافت (برآمد) ہوئی تھی اور کالج انتظامیہ نے اس کی موت کو بھی خودکشی ہی قرار دیا تھا، لیکن ورثا نے ڈاکٹر نوشین کاظمی کے والدین کی طرح ہی اپنی بیٹی کی موت کو قتل قرار دیا تھا، لیکن دو برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود ڈاکٹر نمرتا کی موت یا مبینہ خودکشی کی وجوہات سامنے نہیں آسکی ہیں۔ علاوہ ازیں تین برس قبل سندھ یونیورسٹی کے ہاسٹل سے ایک ہونہار طالبہ نائلہ رند کی بھی نعش برآمد ہوئی تھی، اور اس کی موت کو بھی ورثا نے قتل قرار دیا تھا۔ اہلِ سندھ اپنی ان بیٹیوں کی جدائی کے صدمے سے نڈھال ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ سندھ کے تعلیمی ادارے اب مقتل میں بدلتے جارہے ہیں جہاں پر کسی کی جان اور آبرو محفوظ نہیں ہے۔ ڈاکٹر نوشین کاظمی کے اس واقعے نے متعدد انتظامی، قانونی اور یونیورسٹیوں میں رہائش پذیر طالبات کے تحفظ کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ سندھ میں پہلے ہی لڑکیوں کی تعلیم کی شرح بہت کم ہے اور مذکورہ سانحات کی وجہ سے بچیوں کے والدین کے اذہان میں سنگین خدشات نے نموپائی ہے۔ سندھ بھر میں ڈاکٹر نوشین کی الم ناک موت پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈاکٹر نوشین کے والد ہدایت شاہ نے اپنی بیٹی کی موت پر جاری کردہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں واقعے کو خودکشی قرار دینے کو مسترد کرتے ہوئے اسے قتل قرار دیا ہے۔ دو برس قبل ڈاکٹر نمرتا کے ورثا نے بھی خودکشی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے قتل قرار دیا تھا۔ اس قتل پر بھی سخت احتجاج صوبے بھر میں ہوا تھا۔ انکوائری بھی ہوئی تھی لیکن اس کی رپورٹ تاحال سامنے نہیں آسکی ہے۔ اپنی آنکھوں میں اعلیٰ تعلیم کا خواب سجائے سنہری مستقبل کے لیے سعی کرنے والی طالبات اور ان کے والدین اگر مذکورہ سانحات کی بنا پر اپنی بیٹیوں کے لیے بے حد تشویش اور اضطراب میں مبتلا ہوگئے ہیں تو وہ اس میں بالکل حق بہ جانب ہیں۔ سندھ میں کبھی پی پی پی کے گھنور اسران نامی ایم پی اے اپنے کارندوں کے ساتھ بے گناہ فہمیدہ سیال نامی خاتون کو ضلع قمبر شہدادکوٹ میں سرِعام قتل کرتے دکھائی دیتے ہیں… کبھی گوٹھوں، قصبات اور شہروں میں بے گناہ خواتین کو کاروکاری سمیت دیگر من گھڑت الزامات عائد کرکے بڑی بے رحمی کے ساتھ مار دیا جاتا ہے… اور کبھی حصولِ علم میں مصروف ہونہار طالبات کو بلاسبب ہی پراسرار انداز میں ختم کرکے اسے خودکشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔ کیا اتنا زیادہ ظلم ماسوائے سندھ کے کہیں اور بھی ممکن ہے اور ہوتا ہوگا؟ جب سندھ کے تعلیمی اداروں سندھ یونیورسٹی کے ماروی ہاسٹل سے نائلہ رند اور لاڑکانہ چانڈکا کالج اینڈ میڈیکل یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل سے ڈاکٹر نمرتا اور ڈاکٹر نوشین کی اُن کے کمروں سے پنکھوں سے لٹکی ہوئی لاشیں ملیں گی تو آخر وہ کیوں کر اور کس لیے یہ سوچنے پر خود کو مجبور نہیں پائیں گے کہ اب ان کی لاڈلی اور ہونہار بیٹیاں تعلیمی اداروں میں محفوظ نہیں رہی ہیں۔ یہ سوچ اور ان کے خدشات مستقبل میں مزید بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کی راہ میں مانع اور مزاحم ہوں گے، جس کی ذمہ داری چارو ناچار بالآخر حکومت ِسندھ اور اس کے ذمہ داران ہی پر عائد ہوگی جو اس حوالے سے ڈھیٹ، بے حس اور گونگے، بہرے اور اندھے بنے ہوئے حال مست اور کھال مست صرف اور صرف کرپشن کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔
یہ آخری سطور تحریر کی جارہی تھیں کہ اطلاع ملی: ڈاکٹر نوشین کے واقعے پر حکومت نے جوڈیشل انکوائری کا فیصلہ کیا ہے اور ہاسٹل کی ڈپٹی پرووسٹ لبنیٰ عدنان کو ہٹاکر چارج ڈاکٹر فریدہ راجا کے حوالے کردیا گیا ہے، جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ڈاکٹر نوشین کی موت پر احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف کیس کے اندراج کے لیے پولیس کو خط تحریر کیا ہے۔ اللہ کرے نائلہ رند، ڈاکٹر نمرتا کمہاری اور ڈاکٹر نوشین کاظمی کی پراسرار اموات کے حقائق جلد سامنے آجائیں، آمین۔