ـ2023 کے انتخابات اور پنجاب کی سیاسی جنگ مستقبل کی حکمرانی کے نظام کا تعین کرے گی

وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج حزبِ اختلاف نہیں بلکہ گورننس یعنی حکمرانی کا بحران، معاشی بدحالی اور مہنگائی ہے۔ حکومت کے لیے یہ چیلنج اِس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اُسے 2023ء کے انتخابات میں اِس تاثر کی نفی کرنا ہے کہ وہ ایک ناکام حکومت تھی۔ وگرنہ دوسری صورت میں اسے سیاسی میدان میں معاشی بدحالی یا مہنگائی کے تناظر میں شدید عوامی ردعمل کی صورت میں بھاری سیاسی قیمت ادا کرنا پڑسکتی ہے۔ تحریک انصاف کی بڑی ناکامی یہ بھی ہے کہ دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اس کی صوبائی حکومتیں اور وزرائے اعلیٰ بھی اپنی حکومت کا کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کرسکے، حالانکہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں ماضی کے مقابلے میں مالی اور انتظامی طور پر زیادہ خودمختار ہیں، اور اسی بنیاد پر گورننس یا حکمرانی سے منسلک معاملات کی بڑی ذمے داری یا جواب دہی بھی صوبائی حکومتوں کے دائرۂ کار میں آتی ہے۔
2023ء کے انتخابات میں ایک بڑی سیاسی جنگ پنجاب میں لڑی جانی ہے۔ یہی سیاسی جنگ مستقبل کی حکمرانی کے نظام کا تعین کرے گی۔ پنجاب میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) میں مقابلہ ہے، جبکہ پیپلزپارٹی بھی اِس بار کوشش کررہی ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی قابلِ قبول سیاسی حصہ حاصل کرسکے۔ مسلم لیگ (ن) کی سیاسی طاقت کو بھی پنجاب کی سطح پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومتی جماعت کی مشکل یہ ہے کہ پنجاب میں اس کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار اپنی حکومت کی کامیابی کا تاثر پیدا کرنے میں بدستور ناکامی کا شکار ہیں۔ آئندہ سال مارچ یا اپریل میں پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات بھی متوقع ہیں، اور یہاں پہلی بار میئر یا چیئرمین کے براہِ راست انتخاب کا طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے جو سیاسی فریقوں میں ایک بڑی سیاسی جنگ کا منظرنامہ پیش کرکے ثابت کرے گا کہ کون کس پر سیاسی برتری حاصل کرتا ہے۔ یہی جنگ 2023ء کے انتخابات کی بھی سیاسی جھلک نمایاں کرنے میں معاون ثابت ہوگی کہ حکمران جماعت کہاں کھڑی ہے۔
حکومت کی کوشش ہے کہ وہ ملک میں صحت کارڈ، احساس پروگرام، راشن اسکیم، نوجوانوں کے لیے قرضہ پروگرام کے ساتھ عام آدمی یا کمزور طبقات کو کسی حد تک معاشی ریلیف دے سکے۔ یقینی طور پر ان پروگراموں سے کچھ لوگ استفادہ کررہے ہیں، مگر کیا یہ پروگرام مجموعی طور پر حکومتی کامیابی کا تاثر قائم کرسکیں گے؟ سیاست میں عمومی طور پر Perceptions کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، اور یہی وہ بنیاد ہوتی ہے جس پر عوام اچھی یا بری حکمرانی کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ اس محاذ پر حکومت کو خاصی مشکلات کا سامنا ہے، اور بالخصوص بڑے شہروں کی سطح پر بڑھتی ہوئی مہنگائی کا دفاع کرنا حکومتی لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کررہا ہے۔ مہنگائی کی وجہ جہاں عالمی حالات ہوسکتے ہیں، وہیں ایک بڑا مسئلہ حکومتی سطح پر معاشی مینجمنٹ، نگرانی، جوابدہی اور شفافیت سے جڑے مسائل ہیں، جن کا بہتر حل تلاش کرنے میں موجودہ حکومت ناکام ہے۔
حکومت یا وزیراعظم عمران خان ان ساری خرابیوں یا مشکلات کو محض سابقہ حکمرانوں پر ڈال کر اپنا سیاسی مقدمہ بہتر نہیں بناسکتے۔ عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اب تک کی حکومت سے ہمیں کیا ریلیف ملا ہے اور ایسے کون سے اقدامات ہیں جو ہماری زندگیوں میں کوئی بہتری پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں؟ پیٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافے سمیت روزمرہ سے جڑے معاملات میں واقعی عوام پریشان ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تبدیلی کا حقیقی ایجنڈا کہاں ہے؟ معاشی محاذ پر حکومتی سطح سے بار بار ٹیم کی تبدیلی اورانتظامی سطح پر بیوروکریسی کی تواتر سے اکھاڑ پچھاڑ بھی کسی جامع پالیسی یا عمل درآمد کے نظام میں رکاوٹ ہے۔ شوکت ترین نے خود اعتراف کیا ہے کہ حکومتی سطح پر بعض فیصلوں میں تاخیر نے بھی کچھ بڑے مسائل کو جنم دیا۔
یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ موجودہ عالمی سیاسی اور معاشی حالات میں کوئی بھی حکومت پاپولر ایجنڈے کے تحت حکمرانی کے نظام میں انقلاب نہیں لاسکتی، اور نہ ہی اس کے کوئی امکانات موجود ہیں۔ جمہوری نظام میں حکومت اپنے تدبر یا حکمت ِعملی سے سیاسی، انتظامی اور معاشی پیچ ورک کرکے نظام کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اصلاحات کا عمل یا پیچ ورک اس حد تک کمزور یا بوسیدہ ہے کہ وہ مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام ہورہا ہے۔ ایسے میں حکومت کے پاس کوئی بڑے انقلابی آپشن موجود نہیں ہوتے۔ یہ جو ہمارا سیاسی طبقہ حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے بڑے بڑے نعروں ،جذباتی تقریروں اور وعدوں کی مدد سے سب کچھ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، یہی دعوے ان کی حکمرانی میں ان کا پیچھا کرتے ہیں۔یہی صورتِ حال عمران خان کو بھی درپیش ہے جنہوں نے اقتدار میں آنے سے قبل سب کچھ جادوئی عمل سے ٹھیک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
حال ہی میں حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ ہوگیا ہے۔ مشیر خزانہ شوکت ترین نے یقین دلایا ہے کہ اس معاہدے کی بنیاد پر کوئی نیا ٹیکس لگایا جائے گا اورنہ ہی بڑھایا جائے گا۔ اُن کے بقول آنے والے دنوں میں ڈالر بھی نیچے آئے گا اور ہم نے آئی ایم ایف کو صاف صاف بتادیا ہے کہ ہم کوئی نیا ٹیکس نہیں لگائیں گے۔ شوکت ترین نے یہ بھی کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کے غریب طبقات پر منفی اثرات ڈالنے کے بجائے اخراجات کو کم کرنے کے لیے مخصوص رعایت کا طریقہ کار اپنایا جائے گا۔ اگر ایسا ہوسکا تو یقینی طور پر اس کی پذیرائی بھی کرنا ہوگی، لیکن ماضی کے تجربات کو سامنے رکھیں تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ بڑا بوجھ عام آدمی پر ہی پڑتا ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اُس سے بھی حکومت کے لیے معاشی میدان میں نئے چیلنج سامنے آسکتے ہیں۔
اس لیے موجودہ صورتِ حال میں حکومت کے لیے چیلنج لانگ ٹرم حکمتِ عملی کے مقابلے میں شارٹ ٹرم اقدامات ہیں، کیونکہ عوام کو فوری طور پر یہ باور کروانا ہے کہ ہم معاشی محاذ پر عوامی مفاد میں سرگرم ہیں۔ لیکن مسئلہ سرگرم ہونے کا نہیں بلکہ عوام کو واقعی نظر آئے کہ انہیں ریلیف مل رہا ہے۔ خاص طور پر جب تک شہری حلقوں میں حکومتی کامیابی کا تاثر قائم نہیں ہوگا، حکومتی مشکلات میں کمی نہیں ہوگی۔ کیونکہ حکومت کو ڈیڑھ برس بعد عام انتخابات میں جانا ہے تو اس کے لیے عوامی مفاد میں بڑی سطح پر ہنگامی آپریشن اور عملی اقدامات درکار ہیں۔ جب ملک کی صورت ِحال غیر معمولی ہو تو پھر اقدامات بھی غیر معمولی ہی درکار ہوتے ہیں۔ معاشی معاملات یا معاشی مینجمنٹ سے جڑے کڑوے فیصلے کرکے ہی وہ سیاسی محاذپر سرگرم ہوسکتے ہیں۔ یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ وزیراعظم کو لگتا ہے کہ ان کے مخالفین کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی جماعت اور حامی بھی موجودہ صورت حال سے مایوس نظر آتے ہیں۔ اسی بنیاد پر وزیراعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کچھ بڑے شہروں میں بڑے عوامی جلسے کرکے نہ صرف لوگوں کی بڑی تعداد کو متوجہ کریں گے بلکہ انہیں اعتماد میں بھی لیں گے۔ وہ اس تاثر کی نفی کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی حکومت یا قیادت سے مایوس ہوگئے ہیں، اور ان کے بقول وہ اس اقدام سے حزبِ اختلاف کو بھی دبائو میں لاسکتے ہیں۔ وزیراعظم دفاعی کے مقابلے میں جارحانہ حکمت عملی اپنانا چاہتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ حزبِ اختلاف ان کو دبائو میں لانے کا جو کھیل کھیلنا چاہتی ہے اس کا جواب دفاعی حکمت عملی یا کمزوری کے بجائے بھرپور انداز میں سیاسی محاذ پر مقابلہ کرنا ہے۔ لیکن یہ مقابلہ بھی اسی صورت میں کارگر ہوسکتا ہے جب وہ معاشی میدان میں کچھ ایسے فیصلے کریں جو واقعی عام آدمی کی زندگی میں بہتری کے کچھ امکانات پیدا کرسکیں۔ اس لیے ان کو کچھ کڑوے فیصلے کرکے طاقت ور طبقات کے مقابلے میں عام آدمی کو قابلِ قبول ریلیف دینا ہوگا۔