تحریک انصاف کی حکومت کے تین سال گزر چکے ہیں اور چوتھے پارلیمانی سال کی نصف مدت مکمل ہونے کے قریب ہے۔ کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ سرکاری اداروں میں بدعنوانی ختم کرنے، ملکی معیشت مستحکم کرنے، بیرونِ ملک پاکستانی پاسپورٹ کی عزت بڑھانے اور ملک میں عوام کی فلاح کے منصوبوں کے لیے حکومت کا ہر دعوی نقش بر آب ثابت ہوا ہے۔ اس کا سب سے بڑا دعویٰ یہ تھا کہ ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی اور پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کی جائے گی۔ یہ تمام دعوے راکھ ہوچکے ہیں۔ ملک میں سیاسی حالات سازگار رہے تو اگلے سال سے ملک میں انتخابی ماحول کا رنگ زور پکڑ جائے گا، اور ملک پر قرضوں کا بوجھ اور مہنگائی مسلط کرنے والی حکومت خالی ہاتھ انتخابی میدان میں اترنے پر مجبور ہوگی۔ مستقبل میں ’نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی‘ کا کیس ایک بڑا اسکینڈل بن کر کٹہرے میں کھڑا نظر آرہا ہے۔ اس منصوبے پر کام کرنے والے اعلیٰ منصب دار بھی حقائق پر بات نہیں کررہے۔ ملک بھر میں کام کرنے والی نجی ہائوسنگ اسکیموں کے تحت تعمیر ہونے والے گھروں کو اپنے کھاتے میں شمار کرنے کی کوشش بھی کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اس منصوبے سے متعلق اصل سوال یہ ہے کہ اس اتھارٹی نے کس منصوبے کو مکمل کیا؟ اس کا بجٹ کتنا ہے اور اب تک کتنا سرمایہ خود اس اتھارٹی پر خرچ ہوچکا ہے؟ یہ اتھارٹی ابھی تک اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں کام کرنے والے ترقیاتی اداروں کے ساتھ بھی ہم آہنگی پیدا نہیں کرسکی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ ایک ہی منصوبے پر دو الگ الگ ادارے دعوے دار بنے ہوئے ہیں۔ کابینہ نے حال ہی میں فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ سی ڈی اے اور فیڈرل ہائوسنگ اتھارٹی اسلام آباد میں رہائشی سیکٹرز کی تعمیر کے لیے سیکشن فور نافذ کرکے اراضی نہیں خرید سکیں گی۔ اس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ اب نجی ہائوسنگ سوسائٹیز کا مافیا کسی ڈر اور خوف کے بغیر راج کرے گا۔گھروں کی تعمیر کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے اب تک 80 ارب روپے سے زائد قرضے لیے گئے ہیں جبکہ اس شعبے کی کارکردگی کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ملک میں بلڈرز کا ایک مخصوص گروپ بلکہ چند افراد مافیا بن کر کمائی کررہے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
ہائوسنگ کا شعبہ ایک جانب رکھ دیں، اس حکومت کے دوران آٹا، چینی، پیٹرول مافیا ابھی تک تو بے لگام ہی رہے ہیں۔ مہنگائی میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی شہر میں پرائس کنٹرول کمیٹی کام نہیں کررہی ہے، بلکہ جس منصوبے کا کریڈٹ حکومت لینے کی کوشش میں ہے اُس میں بھی صرف تعمیراتی شعبے کا ہی جائزہ لیا جائے تو سیمنٹ سمیت دیگر اشیاء کی قیمتوں میں 50 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے، سیمنٹ کی قیمت 480 روپے سے بڑھ کر 710 روپے ہوگئی ہے۔
تحریک انصاف کا دوسرا بڑا دعویٰ یہ تھا کہ سرکاری اداروں میں بدعنوانی ختم کرے گی، اس ضمن میں دیگ کا ایک ہی دانہ کافی ہے۔ وزیراعظم کے کورونا پیکیج پر اربوں روپے کے اخراجات سے متعلق اپوزیشن جماعتوں نے نہیں بلکہ خود آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ہی سوال اٹھایا تھا، اور پارلیمنٹ کی مجلس قائمہ میں بھی اس کی گونج سنائی دی تھی۔ یہ تو خود حکومتی اداروںکی اپنی گواہی ہے کہ اخراجات میں چالیس ارب روپے کی بدعنوانی پائی گئی ہے، تاہم اس رپورٹ پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی گئی، مگر آئی ایم ایف نے حالیہ مذاکرات میں یہ سوال اٹھایا اور کہا کہ قرض پیکیج چاہیے تو یہ رپورٹ جاری کی جائے۔ یہ شرط پوری کرنے کے لیے حکومت نے رپورٹ جاری کی۔ ایسی ہی صورتِ حال بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے متعلق بھی ہے کہ کورونا پیکیج کے تحت 133 ارب روپے دیے گئے، جس میں 25 ارب روپے کی بدعنوانی ہوئی۔ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کو 10 ارب روپے اس پروگرام کے تحت دیئے گئے جس میں 5 ارب 20 کروڑ کی بدعنوانی پائی گئی،نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو 22 ارب 22 کروڑ روپے اس پروگرام کے تحت دیئے گئے جس میں 4 ارب 80 کروڑ کی بدعنوانی کی نشاندہی کی گئی، دہاڑی دار لوگوں کی مدد کے لیے 200 ارب روپے اس پیکیج میں رکھے گئے۔ اب پارلیمنٹ حکومت سے معلوم کرے کہ کتنی رقم خرچ ہوئی؟ اور کیا یہ درست ہے کہ اس مد میں صرف 16 ارب روپے تقسیم کیے گئے، اور غریب ترین خاندانوں کے لیے مختص رقم 150 ارب روپے تھی جبکہ خرچ کی گئی رقم 145 ارب روپے تھی۔ پارلیمنٹ یہ بھی معلوم کرنے کا حق رکھتی ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے لیے سو ارب روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اسے صرف دس ارب روپے دیئے گئے۔ کورونا کی وجہ سے معاشی مدد کی صورت میں مخصوص صارفین کے لیے بجلی اور گیس کے بلوں میں رعایت دینے کے لیے سو ارب روپے رکھے گئے لیکن اس مد میں بھی صرف پندرہ ارب روپے خرچ کیے گئے۔ اب پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ذمے ہے کہ وہ معلوم کرے کہ چین نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو 4 ملین ڈالر کورونا کے مریضوں کے لیے مختص ڈھائی سو بستروں پر مشتمل انفیکشن سینٹر بنانے کے لیے دیے، یہ پیسہ کہاں گیا؟ 7 ارب روپے اُن افراد کو بھی دیے گئے جوضرورت مند نہیں تھے۔ ہوسکتا ہے جب پارلیمنٹ یہ بات اٹھائی جائے تو نیب بھی انگڑائی لے، اس کا متحرک ہونا لازمی ہے، کیونکہ کورونا امدادی پیکیج کے استعمال میں 40 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے، مگر خوفناک امر یہ ہے کہ آڈیٹر جنرل کو 354.3بلین روپے کے اخراجات کی جانچ پڑتال کے لیے متعلقہ ریکارڈ نہیں مل رہا۔ وزیراعظم نے1.24 ٹریلین روپے کے کورونا پیکیج کی منظوری دی ہوئی تھی۔ یہ رپورٹ کبھی افشا نہ کی جاتی اگر آئی ایم ایف مطالبہ نہ کرتا۔ وزارتِ خزانہ کی جانب سے اس رپورٹ کا اجراء آئی ایم ایف کی اُن پانچ پیشگی شرائط میں سے ایک ہے جو جنوری تک ایک بلین ڈالر قرض کی قسط حاصل کرنے کے لیے پاکستان پر لاگو کی گئیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والا حالیہ معاہدہ غلامی کی بدترین شکل ہے۔ اس معاہدے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ایسی خودمختاری مل گئی کہ وہ پارلیمنٹ کو جواب دہ نہیں رہا، اس کے بجائے آئی ایم ایف کو جواب دہ ہوگا، اُسی کی ہدایت پر مانیٹری پالیسی بنائی جائے گی اور شرح سود طے ہوگی۔ آئی ایم ایف معاہدے میں یہ بات شامل ہے کہ ہر ماہ 4روپے پیٹرولیم لیوی بڑھائی جائے گی، سبسڈی ختم کی جائے گی اور بجلی کی قیمت مزید بڑھے گی۔ یوں پورا ٹیکس اور معاشی نظام آئی ایم ایف کے تابع ہوجائے گا اور پارلیمنٹ ربڑ اسٹمپ بن کر رہ جائے گی۔ جب ٹیکس ہی آئی ایم ایف لگائے گا، اسٹیٹ بینک پارلیمنٹ کو جواب دہ نہیں ہوگا تو قومی وقار کہاں رہ جائے گا؟ یہ سب کچھ ایک ارب ڈالر کے لیے کیا جارہا ہے۔
ابھی چند ہفتے قبل جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے سینیٹ میں سوال اٹھایاکہ پاکستان کے ستمبر 2021ء تک غیر ملکی و اندرون ملک قرضوں کے کُل حجم کی الگ الگ تفصیلات کیا ہیں؟ جواب میں وزارتِ خزانہ نے تفصیلات مہیا کیں کہ جون 2018ء تک پاکستان کے اندرونی و بیرونی مجموعی قرضے 25ہزار ارب روپے تھے جو اگست 2021ء میں 41ہزار ارب روپے ہوچکے ہیں،حکومت قرضوں پر سود کی مد میں 7 ہزار 460 ارب روپے ادا کر چکی ہے، 3سال کے دوران سود کی مد میں 50 فیصد ادائیگی کی گئی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے صرف3 سال کے عرصے میں قرضوں کی مد میں مجموعی طور پر 16 ہزار ارب روپے کا بوجھ لاد دیا ہے۔
مہنگائی میں اضافے کی تیسری بڑی وجہ توانائی کی قیمت میں اضافہ ہے جس سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے ڈالر،سونا اور پیٹرول کا کاروبار کرنے والوں کی موج لگی ہوئی ہے، اسی طرح ہائوسنگ کے کاروبار والوں کی آمدن بڑھ گئی ہے۔ مہنگائی سے سب سے زیادہ سفید پوش اورمحدود آمدن والے تنخواہ دار افراد متاثر ہوئے ہیں۔ مشیر خزانہ نے اگرچہ یقین دہانی کرائی کہ مالیاتی ادارے سے ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں نہ کوئی نیا ٹیکس لگایا جائے گا نہ پہلے سے عائد محصولات کی شرح بڑھائی جائے گی، صرف بعض اشیاء پر دی گئی ٹیکس کی چھوٹ ختم کی جائے گی۔ یہ عمل مالیاتی بل کے بغیر نہیں ہوسکتا، لہٰذا حکومت اسے نام دے نہ دے لیکن یہ منی بجٹ ہی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اب صرف ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے، اسی لیے احساس پروگرام کے ذریعے دی جانے والی امداد کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جارہا ہے۔ حکومت اب ایک ایسا فیصلہ کرنے جارہی ہے جس سے 7 ارب روپے کے ٹیکسوں کی چھوٹ ختم ہوسکتی ہے، مگرکاروباری حلقے قیمتوں میں اضافہ کرکے یہ رقم صارف سے وصول کرلیں گے۔اور ٹارگٹڈ سبسڈی کا تجربہ اگر کامیاب ہوا بھی تو متاثرین کی نہایت محدود تعداد ہی اس سے مستفید ہو سکے گی۔
روپے کی قدر میں ہولناک رفتار سے ہوتی ہوئی کمی بھی مشیر خزانہ کے مطابق کوئی فکرمندی کی بات نہیں، حکومت سمجھتی ہے کہ یہ صورتِ حال سٹہ بازوں کی کارروائی کا نتیجہ ہے ورنہ ڈالر کی اصل قیمت آٹھ نو روپے تک کم ہے اور روپے کی قدر بہتر کرنے کے حکومتی اقدامات کے بعد سٹے باز جلد ہی مار کھائیں گے۔
حکومت معیشت کی بہتری کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس دعوے کی بنیاد یہ ہے کہ سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن میں نئی کمپنیوں کا اندراج ہورہا ہے۔ حکومت کا دعویٰ تسلیم کرلیتے ہیں، مگر نئی کمپنیوں کے لیے بجلی اور گیس کی ارزاں اور خاطر خواہ فراہمی ممکن ہوسکے گی؟ حکومت جس طرح کاروباری حلقوں سے مراعات واپس لے رہی ہے اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہوئے تھے اور 6ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ کے لیے جو معاملات طے پائے تھے اس کی انتہائی سخت شرائط کے بعد منی بجٹ کی تلوار لٹک رہی ہے جسے آئندہ چند روز میں نیام سے نکال لیا جائے گا۔ کابینہ کے بعد اسے پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے گا۔ آئی ایم ایف ٹیکس کی شرح میں اضافے پر زور دے رہا ہے، اسی وجہ سے کاروباری طبقے سے متعدد سہولتیں واپس لی جارہی ہیں تاکہ آئی ایم ایف کی شرط پوری کی جاسکے۔ منی بجٹ آنے کی صورت میں سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم ہوجائے گی اور17فیصد نافذ کردیا جائے گا، جس کے بعد سونا، درآمدی موبائل فون اور کمپیوٹر مہنگے ہوجائیں گے۔ اگرچہ خوراک، ادویہ، زندہ جانوروں، تعلیم اور صحت سے متعلق اشیا، زرعی سامان، ٹریکٹر، کھاد اور کیڑے مار ادویہ کے لیے سیلز ٹیکس کی چھوٹ جاری رہے گی، مگر اس کے باوجود ان کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ لیوی وصولی کا ہدف 600ارب روپے سے کم کرکے 365ارب روپے مقرر کیا جائے گا اور ماہانہ چار روپے پیٹرولیم لیوی نافذ کی جائے گی۔ متوقع منی بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5829 ارب روپے سے بڑھا کر 6100ارب روپے کیا جاسکتاہے اورترقیاتی پروگرام میں 200ارب روپے کی کمی لائی جائے گی، جس کے بعد مہنگائی کا ایک نیا ریلا آئے گا۔
یہ تو آئی ایم ایف معاہدے کے اثرات ہیں، جو معاہدہ سعودی عرب کے ساتھ ہوا ہے اس کی بھی بہت کڑی شرائط ہیں کہ قرض واپسی کے لیے پاکستان کو صرف72 گھنٹوں کا نوٹس دیا جائے گا۔ اس معاہدے پر سعودی عرب کی جانب سے احمد بن عقیل الخطیب اور سلطان بن عبد الرحمن المرشد نے 4.2 بلین ڈالر کے دو اقتصادی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ پہلا معاہدہ یہ ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے مرکزی بینک کو تین ارب ڈالر بطور ڈپازٹ دے گا۔ اس معاہدے پر پاکستان کے مرکزی بینک کے گورنررضا باقر اور فنڈ کے سی ای او نے دستخط کیے۔دوسرا معاہدہ 1.2 بلین ڈالر کا ہوا جوکہ پیٹرولیم مصنوعات کی تجارت سے متعلق ہے۔ اس معاہدے پر وزیر برائے اقتصادی امور عمر ایوب خان نے سعودی عرب کے سفیرنواف بن سعید المالکی کی موجودگی میں دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان نے G-20 کے قرضوں کی مؤخر ادائیگی کا بندوبست کیا ہے۔