چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے ایک ’’جذباتی مقرر‘‘ کی حیثیت سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ اداروں پر دبائو والی بات درست نہیں، ہم پر کبھی کوئی دبائو نہیں آیا، کبھی کوئی فیصلہ دبائو میں نہیں کیا۔ عدالتیں آزاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی نے آج تک میرے کام میں مداخلت نہیں کی۔ کبھی کسی سے ڈکٹیشن نہیں لی۔ انہوں نے علی احمد کرد سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ غلط فہمیاں پیدا نہ کریں، لوگوں کا اداروں پر سے بھروسا ختم نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کبھی ہم پر دبائو ڈالا گیا تو ہم کام چھوڑ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو میرا کردار ہے وہی میرے ججوں کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ عدالتیں اداروں کے دبائو میں کام کررہی ہیں۔
چیف جسٹس کا یہ خطاب زوردار ہے، مگر اس میں معنویت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ کوئی ایک چیف جسٹس یا اس کا عہد کا نہیں، مسئلہ عدالتوں کی تاریخ کا ہے، اور اعلیٰ عدالتوں کی تاریخ ساکھ کے بحران کا شکار ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے جنرل ایوب خان کی آمریت کے آگے سر جھکایا ہے اور اسے سندِ جواز عطا کی ہے۔ سپریم کورٹ نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کو تسلیم کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے جنرل پرویزمشرف کے آگے سرِتسلیم خم کیا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو ملک پر تین فوجی آمر مسلط ہی نہیں ہوسکتے تھے۔ بلاشبہ سپریم کورٹ کے بعض ججوں نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا۔ قوم ایسے ججوں کی جرأت اور قربانی کو سلام کرتی ہے، مگر ایسے جج استثنائی مثالوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ججوں کی اکثریت نے کبھی فوجی آمروں کی مزاحمت نہیں کی۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ سپریم کورٹ نے بعض فیصلے دبائو پر کیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل یونہی نہیںکہا جاتا۔ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عدالتی فیصلہ نہیں تھا، یہ ایک ’’سیاسی فیصلہ‘‘ تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ مُردے دو تھے اور قبر ایک۔ یا تو جنرل ضیاء الحق قبر میں جاتے یا ذوالفقار علی بھٹو۔ جنرل ضیاء الحق نے خود کو قبر سے بچا لیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو قبر میں لٹا دیا۔ مگر اس کام میں اعلیٰ عدلیہ نے اُن کی مدد کی۔ عدلیہ مدد نہ کرتی تو بھٹو کو مارنا ممکن نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نے پاکستان کی سیاست میں جو زہر گھولا تھا وہ آج بھی ہمارے اجتماعی وجود کو متاثر کررہا ہے۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کی حکومتیں ایک طرح کے الزامات کے تحت برطرف کی گئیں، مگر بے نظیر بھٹو کی حکومت کو سپریم کورٹ نے بحال نہ کیا البتہ میاں نوازشریف کی حکومت کو بحال کردیا گیا۔ میاں نوازشریف کی حکومت کو بحال کرنے والے جسٹس نسیم حسن شاہ نوازشریف کے مقدمے کے دوران ججوں سے فرمایا کرتے تھے کہ ہم ایسا فیصلہ کریں گے کہ قوم خوش ہوجائے گی۔ عدالتیں قوم کو خوش یا ناراض کرنے کے لیے فیصلے نہیں کرتیں۔ وہ میرٹ پر فیصلے کرتی ہیں، اور میاں نوازشریف کی بحالی بہرحال میرٹ پر نہیں ہوئی تھی۔ ہوئی ہوتی تو یہ میرٹ بے نظیر بھٹو کی حکومت کی بحالی کے لیے بھی بروئے کار آتا۔ بے نظیر بھٹو میاں نوازشریف کی حکومت کی بحالی کو ’’چمک‘‘ کا نتیجہ قرار دیا کرتی تھیں۔ معلوم نہیں اس بات میں کتنی سچائی تھی، مگر ایک بات عیاں تھی کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے پنجاب کے رہنما کو بحال کردیا اور سندھ کی رہنما کو بحال نہیں کیا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ کا مقدمہ بھی سپریم کورٹ میں چلا۔ انہیں توہینِ عدالت کے ضمن میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے انہیں توہین کا مرتکب بھی قرار دیا لیکن سزا سنانے سے انکار کردیا۔ سپریم کورٹ کے معزز بینچ نے کہا کہ جنرل مرزا اسلم بیگ کی سزا یہی ہے کہ انہیں عدالت میں طلب کیا گیا۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ فیصلہ بھی ’’سیاسی‘‘ تھا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ نے توہینِ عدالت کی تھی تو انہیں سزا بھی ضرور ہونی چاہیے تھی۔ کوئی عام آدمی ہوتا تو عدالت اُسے ضرور سزا دیتی۔ مگر جنرل مرزا اسلم بیگ آرمی چیف رہے تھے، وہ فوج کے ادارے کا ’’امیج‘‘ تھے اور انہیں سزا دینا آسان نہ تھا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ملک کی ایک ماتحت عدالت نے جنرل پرویزمشرف کو سزا سنائی مگر ملک کی اعلیٰ عدالت نے انہیں الزام سے بری کردیا، اس لیے کہ اس سزا پر فوجی اسٹیبلشمنٹ نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اگر عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اعلیٰ عدالتیں دبائو میں فیصلہ کرتی ہیں تو وہ کیا غلط سمجھتا ہے؟
یہ تو اعلیٰ عدالتوں کا معاملہ ہے۔ ماتحت عدالتوں کا حال اور بھی ابتر ہے۔ ماتحت عدالتوں میں انصاف بکتا ہے۔ ان کے حوالے سے یہ فقرہ مشہور ہے کہ ماتحت عدالت میں مقدمہ ہو تو وکیل کرنے سے بہتر ہے کہ جج کرلیا جائے۔ انصاف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف کی نفی کرنے کے مترادف ہے، اور ہماری ماتحت عدالتوں میں دس دس بیس بیس سال مقدمے چلتے رہتے ہیں اور انصاف نہیں ہوتا۔ بسا اوقات مقدمہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوجاتا ہے۔ انصاف کے بارے میں ایک اور بنیادی بات یہ ہے کہ انصاف کو مہنگا نہیں ہونا چاہیے تاکہ وہ ہر شخص کی دسترس میں ہو۔ مگر پاکستان میں انصاف لاکھوں کا کھیل ہے۔ جس کے پاس خرچ کرنے کے لیے لاکھوں ہوتے ہیں وہی انصاف کے لیے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدلیہ ایک ادارے کی حیثیت سے ساکھ کے بحران کا شکار ہے، اور یہ معاشرے کا اتنا بڑا نقصان ہے جس کا اندازہ بھی دشوار ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ معاشرے کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں مگر عدل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ مگر ہمارا معاشرہ عدل کے بغیر زندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے معاشرے کو معاشرہ کہنا دشوار ہوتا جارہا ہے، اس لیے کہ معاشرے میں عدل کا قحط پڑ گیا ہے اور ظلم کی فراوانی ہوگئی ہے۔ اس کا ذمے دار پورا معاشرہ ہے، مگر سب سے زیادہ ذمے دار حکمران طبقہ اور عدالتوں کے جج ہیں۔
بدقسمتی سے فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی ساکھ کے بدترین بحران کا شکار ہے۔ جرنیلوں کا پاکستان کی تخلیق میں کوئی کردار نہیں تھا۔ انہوں نے تحریکِ پاکستان میں بھی کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ انہیں پاکستان جہیز میں بھی نہیں ملا تھا۔ مگر بدقسمتی سے جرنیل ملک کے مالک بن کر بیٹھ گئے ہیں۔ دنیا کے اکثر ملکوں میں فوج سیاست سے بالاتر ادارہ ہوتی ہے اور اس کا کام صرف ملک کا دفاع کرنا ہوتا ہے، مگر ہمارے جرنیلوں نے فوج کو ملک کی سب سے بڑی، سب سے مؤثر اور سب سے منظم سیاسی جماعت بناکر کھڑا کردیا ہے۔ ہماری قومی زندگی کے 35 سال مارشل لا کھا گئے۔ مگر جب ملک میں مارشل لا نہیں ہوتا تب بھی حکومت جرنیلوں ہی کی ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ مارشل لا میں وہ سب کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں جبکہ سول ادوار میں وہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر کھیل کھیلتے ہیں۔ اس طرح ملک میں مارشل لا کی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایک کھلا مارشل لا، دوسرا پوشیدہ مارشل لا۔ ایک مارشل لا عریاں ہوتا ہے اور دوسرا پردہ دار… لیکن نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے، اور وہ ہے جرنیلوں کی بالادستی۔ بدقسمتی سے جرنیلوں کی بالادستی سے ملک کا بھلا نہیں ہوسکا، بلکہ اس بالادستی کی وجہ سے ملک آدھا رہ گیا اور بچے کھچے پاکستان کا حال ابتر ہے۔ ملک کی جمہوریت ’’جعلی‘‘ جمہوریت ہے، اس لیے کہ کسی سول حکومت کو خارجہ اور داخلہ پالیسی وضع کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ ملک کے انتخابات میں بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو فوجی اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے۔ جرنیلوں نے سیاست دان تیار کرنے کی نرسری بنائی ہوئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی اسی نرسری سے آئے تھے، میاں نوازشریف بھی اسی نرسری کا حاصل ہیں، اور عمران خان بھی اسی نرسری کی خاک سے اٹھے ہیں۔ پاکستان کی سیاست ’’سرمائے‘‘ اور ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کی سیاست ہے، اور اس کی وجہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ملک میں ایک آئین موجود ہے مگر جرنیل اسے اتنا ہی مؤثر ہونے دیتے ہیں جتنا وہ چاہتے ہیں۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اس بات پر مطمئن پایا جاتا ہے کہ قوم ان کی عزت کرتی ہے، مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ خوف کی عزت ہے، ورنہ اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ اتنی خراب ہے کہ کوئی باشعور شخص اس کے لیے کلمۂ خیر کہتا نظر نہیں آتا۔ بقول شاعر:
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
بدقسمتی سے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں بھی ساکھ کے بدترین بحران کا شکار ہیں۔ نواز لیگ خود کو سب سے بڑی جماعت کہتی ہے، مگروہ ایک شخصی اور خاندانی جماعت ہے۔ میاں نوازشریف ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں مگر وہ خود اپنی جماعت میں انتخابات کروا کر ووٹ کو عزت دینے کے لیے تیار نہیں۔ میاں نوازشریف کا دعویٰ ہے کہ وہ اب ’’نظریاتی‘‘ ہوگئے ہیں، مگر وہ صرف ’’نظر آتی شخصیت‘‘ ہیں۔ میاں نوازشریف اور ان کی جماعت کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ان کا کوئی بھی نظریہ نہیں۔ وہ نہ اسلام پرست ہیں، نہ وہ کھل کر یہ کہتے ہیں کہ ہم سیکولر ہوگئے ہیں۔ میاں نوازشریف ملک و قوم کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ان کی جماعت میں کوئی شعبۂ خدمت ِخلق ہی نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی قومی خدمت اقتدار کی مرہونِ منت ہے۔ وہ اگر اقتدار میں ہوں تو قوم کی خدمت ہوتی ہے، ورنہ نہیں۔ بدقسمتی سے میاں نوازشریف ملک گیر رہنما بھی نہیں ہیں۔ میاں صاحب کا پاکستان صرف پنجاب ہے اور وہ اس پاکستان سے آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ انہوں نے کبھی دیہی سندھ، کراچی، کے پی کے یا بلوچستان میں نواز لیگ کو مضبوط اور مقبول بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
پیپلزپارٹی کا المیہ یہ ہے کہ وہ بھی پچاس سال سے زیادہ کی تاریخ رکھتی ہے مگر آج بھی بھٹو خاندان کی جاگیر ہے۔ پیپلزپارٹی میں کبھی داخلی انتخابات نہیں ہوئے۔ ایک وقت تھا کہ پیپلزپارٹی ایک وفاقی جماعت تھی، مگر اب محض سندھیوں کی جماعت بن کر رہ گئی ہے، اور پیپلزپارٹی کی قیادت اپنے اس ’’مقام‘‘ پر پوری طرح مطمئن اور قانع ہے۔ پیپلزپارٹی بھی قوم کی خدمت کی دعویدار ہے، مگر پیپلزپارٹی کا بھی کوئی شعبۂ خدمتِ خلق نہیں۔ ملک میں زلزلہ آئے یا سندھ سیلاب کی نذر ہوجائے، پیپلزپارٹی ایک جماعت کی حیثیت سے قوم کی کوئی خدمت نہیں کرتی۔
تحریکِ انصاف انقلاب کی علَم بردار بن کر اٹھی، مگر اس میں بھی جمہوریت موجود نہیں۔ تحریک انصاف میں ایک بار انتخابات ہوئے تھے، عمران خان نے جسٹس (ر) وجیہ الدین کو اِن انتخابات کی نگرانی کا کام سونپا تھا۔ جسٹس (ر) وجیہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی ہے چنانچہ پارٹی میں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ مگر عمران خان نے جسٹس (ر) وجیہ کی بات ماننے کے بجائے انہیں ہی عہدے سے ہٹادیا۔ تحریک انصاف ’’تبدیلی‘‘ کا دعویٰ لے کر میدان میں اتری تھی مگر وہ ہر اعتبار سے Status Quo کی علامت بن گئی ہے، چنانچہ تبدیلی کا نعرہ ایک مذاق بن گیا ہے۔
صحافت کو ملک کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، مگر پاکستان میں ذرائع ابلاغ ملک کی چوتھی کمزوری بن گئے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ ان کا کوئی نظریہ ہی نہیں۔ وہ ملک کے نظریے سے وفاداری نبھانے پر آمادہ نہیں۔ صحافت پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے مگر ہماری صحافت صرف سیاست تک محدود ہوگئی ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کی 70 فیصد ’’خبریں‘‘ سیاسی ہوتی ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کو علم و ادب سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انہیں فکر و فلسفہ سے کچھ نہیں لینا۔ انہیں عمرانیات اور نفسیات سے کوئی مطلب نہیں۔ صرف ہمارے ذرائع ابلاغ کی خبروں پر ہی سیاست نہیں چھائی ہوئی، بلکہ ہمارے کالم نویسوں کو بھی سیاست کے سوا کسی موضوع پر کلام کرتے ہوئے نہیں دیکھا جاتا۔ ہمارے ٹاک شوز سیاست کا طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے ٹاک شوز میں کوئی گہری بات سننے کو نہیں ملتی۔ ٹاک شوز سیاسی مرغوں کو آپس میں لڑانے کے سوا شاذ ہی کچھ کرتے ہیں۔ یہ صورتِ حال قوم کو ’’سیاست زدہ‘‘ کررہی ہے۔ بلاشبہ سیاست پر گفتگو ضروری ہے۔ ہماری سیاست بیمار ہے، اور بیمار صحت مندوں سے زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں، مگر قوم کو ایسی غذا کی بھی سخت ضرورت ہے جس سے اس کی روحانی، اخلاقی، تہذیبی شخصیت نشوونما پائے۔ قائداعظم نے کہا تھا: قوم اور سیاست کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری صحافت قوم کو مسلسل زوال کے گڑھے میں دھکیل رہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مالکان ذرائع ابلاغ سے مال بنانے کے سوا کچھ نہیں کررہے۔