انسان اور اس کی آرزو

ہماری زندگی کی اکثر وابستگیاں آرزو کے دم سے ہیں۔ محبت آرزوئے قربِ محبوب کا نام ہے۔ نفرت آرزوئے فنائے عدو ہے۔ حصولِ زر آرزوئے آسائش ہے۔ اسی طرح عبادت آرزوئے تقربِ حق ہے۔ غرضیکہ ہر عمل کے ساتھ آرزو کا وابستہ ہونا لازمی ہے۔ بے آرزو عمل مجبوری ہے، لاچاری ہے، بلکہ بیماری ہے۔
آرزو مرجائے تو اس کی لاش سے نئی آرزو پیدا ہوتی ہے۔ یہ ققنس ہے جو جلتا ہے اور اپنی راکھ سے نئے ققنس کو جنم دیتا ہے۔ آرزو تلاش پیدا کرتی ہے اور تلاش سفر پیدا کرتی ہے۔ سفر انسان کے لیے نئے نئے مسائل پیدا کرتا ہے اور ان مسائل کے حل کے لیے نئی تلاش شروع ہوجاتی ہے، اور اس طرح چلتے چلتے راستہ بدل جاتا ہے اور انسان حیران و پریشان سوچتا ہے کہ اس نے جو چاہا تھا، وہ یوں تو نہ تھا۔ وہ غور کرتا ہے کہ اس نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر کا سفر ایک نیا خواب بن کر سامنے آتا ہے، جو اپنے لیے کسی نئی تعبیر کا انتظار کرے گا۔ نیا خواب، پرانے خواب سے مختلف ہوتا ہے اور نئی تعبیر اتنی ہی دور ہوتی ہے، جتنی پہلے خواب کی۔ آرزوئوں کے سلسلے در سلسلے اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان سے نکلنا یا ان کو سمجھنا دشوار ہے۔
ہماری اکثر آرزوئیں ضرورت کی آرزوئیں ہیں… مثلاً خوراک، مکان، لباس۔ ہر آدمی خوراک کا محتاج ہے۔ خوراک صرف روٹی کا نام نہیں، جس سے ہم پیٹ بھرتے ہیں۔ خوراک نگاہ کے لیے نظارے کی تمنا بھی ہے۔ آنکھ کی خوراک حسین منظر ہے۔ ذہن کی خوراک حُسنِ خیال ہے۔ دل کی خوراک پرتو جمال ہے۔ روح کی خوراک ذوقِ خود آگہی کے ساتھ ساتھ لطافتِ احساس حقیقت ہے۔ ہر اشتہا خوراک کی تلاش پر مجبور کرتی ہے۔ ہم جس کیفیت میں ہوتے ہیں، ویسی ہی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انسان سرگرداں ہوتا ہے۔ یہ آرزو ہماری سرشت میں ہے، فطرت میں ہے۔ جس بہشت میں ضرورت شجرِ ممنوعہ ہو، اُس بہشت سے انسان جلد ہی نکل جانا پسند کرتا ہے۔ انسان بہشت چھوڑ دیتا ہے، لیکن آرزو نہیں چھوڑتا۔ آرزوئوں پر پہرہ، جبر، قدغن ممکن ہی نہیں۔ کوئی کسی کی خوراک کی ضرورت پوری کیے بغیر اُس سے خوراک کی آرزو چھین نہیں سکتا۔ خوراک کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انسان کو بڑی بڑی صفات عطا کی گئیں۔ انسان صبح گھر سے نکلتا ہے، پرندوں کی طرح اپنے آشیانے سے باہر تلاشِ خوراک کے لیے طرح طرح کی حرکات کرتا ہے اور پھر شام کو گھر لوٹتا ہے حسرت لے کر یا سرشاری و سرخوشی لے کر… اور اس طرح زندگی ایک دائرے میں مقید ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس ضرورت کی خواہش کی تکمیل کو انسان کامیابی کہتا ہے۔ پھر ایک دن اسے ایک نئی صورتِ حال سے تعارف ہوتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ ضرورت ہی اس کی واحد ضرورت نہیں، اسے کچھ اور بھی چاہیے۔ اس طرح پرانا انسان نئی حرکت میں نظر آتا ہے۔
مکان میں رہنے کی آرزو، اپنے ذاتی مکان کے حصول کی آرزو انسان کو بے چین کردیتی ہے۔ وہ مکان بناتا ہے، کیسے کیسے جتن کرتا ہے، کہاں کہاں سے کیا کیا کچھ اکٹھا کرتا ہے۔ انسان سکون کی خاطر بے سکون ہوتا ہے، آرام کی تمنا میں بے آرام ہوتا ہے، اور کبھی کبھی قیام گاہ کی خاطر سفر اختیار کرتا ہے۔ وطن میں خوبصورت آستانہ بنانے کے لیے بے وطن ہونا بھی گوارا کرلیتا ہے۔ یہ آرزو بڑے رنگ دکھاتی ہے۔ عمر پردیس میں گزر جاتی ہے اور امید یہ کہ دیس میں رہائش باعزت ہو۔ پردیسی دور سے گزرنے والے طیاروں کو سلام کہتا ہے کہ وطن کی ہوائوں کو سلام۔
آرزو انسان کو کیسے کیسے دن دکھاتی ہے، اس کا جاننا مشکل نہیں۔ ایک بہتر مستقبل کی آرزو حال کو بدحال کردیتی ہے اور پھر مستقبل اسی حال کا حصہ بن کے رہ جاتا ہے۔
انسان سماج میں عزت چاہتا ہے، وقار چاہتا ہے، سرفرازی چاہتا ہے، اسی لیے تو محنت کرتا ہے۔ اس کا مرتبہ اس کو عزت نہ دلائے، تو یہ محنت بھی رائیگاں ہوجاتی ہے۔ وہ لوگوں کو اپنے ماتحت کام کرتا دیکھ کر اپنے آپ کو اپنے قد سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے۔ لیکن یہی لوگ جو اس کے ماتحت ہیں اس کی عزت اور شہرت کو گھن کی طرح کھا جاتے ہیں۔ اس کے پاس سماجی مقام ہوتا ہے، لیکن عزت نہیں۔ شاید عزت سماج پر رعب کا نام نہیں، سماج کی خدمت کا نام ہے، اور خدمت کے لیے اور طرح کی آرزو چاہیے۔ سیاست کے میدان میں ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ حکمرانی کی خواہش اور تخت و تاج کی آرزو کیا انجام لاتی ہے۔ یہ آرزو کہاں کہاں سے گزرتی ہے۔ عزت کی آرزو کوئے ملامت سے بھی گزرتی ہے۔ لوگوں کو مرعوب کرنے اور متاثر کرنے کی آرزو انسان کو ہلاک کردیتی ہے اور وہ نہ لوگوں کو مرعوب کرسکتا ہے نہ متاثر۔ یہ لوگ بس عجیب لوگ ہیں۔ جہاں یہ بے فیض فوقیت دیکھتے ہیں، بس وہیں سیخ پا ہوتے ہیں۔ ان پر احسان انہیں جتا کر کیا جائے تو بھی یہ ناپسند کرتے ہیں۔ لوگوں کو ممنون کرنا ان پر ظلم کرنا ہے۔
لوگ تو اس مالک کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتے جو انہیں مفت بینائیاں عطا کرتا ہے اور ان کے دیکھنے کے لیے نظارے پیدا کرتا ہے، جو آسمانوں سے مینہ برساتا ہے اور اس سے خوراک مہیا کرتا ہے۔ لوگ حصولِ نعمت کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور دینے والے سے تعلق اتنا ہی ہے کہ وہ دیتا چلا جائے اور لوگ لیتے چلے جائیں۔ وصولی کی رسید اور شکریے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال عطا کرنے والے کی آرزو عطا کرنا اور حاصل کرنے والے کی آرزو حاصل کرنا، اس میں رعب کس بات کا؟ یہی تو انسان اور خدا میں فرق ہے۔ وہ دیتا ہی چلا جاتا ہے۔ غافلوں کو، کافروں کو، منکروں کو بلکہ ہر ایک کو، بد و نیک کو۔ اس کی رحمت آسمان کی طرح سب پر چھائی ہوئی ہے، لیکن انسان کسی کو راستہ بتائے تو ساتھ ہی اپنا تعارفی کارڈ اس کو دیتا ہے کہ مجھے اس پتے پر خط لکھنا۔ خدا خدا ہے اور انسان انسان۔
(”دل دریا سمندر“….واصف علی واصفؔ)

مجلس اقبال
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے

اس شعر میں علامہ افراد کی طرح امتوں کو بھی اپنی خودی یعنی حقیقت پہچان کر آزادی و حریت کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ غلامی میں ڈوبی قوم کا آزادی حاصل کرنے کا پہلا مرحلہ اپنے مقامِ بلند کو پہچان کر اس کے شایانِ شان طرزِعمل اپنانے سے وابستہ ہے۔ قرآن نے امت ِ مسلمہ کا مقام ’’بہترین امت‘‘ اور ’’انسانیت کے لیے رہنما امت‘‘ جیسے الفاظ میں بیان کیا ہے۔