کہنے والے کہا کیے کہ لکھنے والو پڑھا کرو۔ پَر لکھنے والے لکھا کیے اور لکھتے لکھتے ہنسا کیے کہ ’’پڑھنے کی ایسی تیسی‘‘۔ پس، اگلے وقتوں کے اے لوگو! آگاہ رہو، یہ وقت برقی ذرائع ابلاغ کا ہے۔ ہر شے کا ابلاغ بڑی برق رفتاری سے ہورہا ہے۔ علم کا بھی اور لاعلمی کا بھی۔ ’تیار مال‘ میسر ہو تو پڑھنے میں کون سر کھپائے؟ وہاں سے نقل کرو، یہاں چسپاں کردو۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔ تحقیق ہوگئی۔ سند مل گئی۔ محقق کہلانے لگے اور لوگ ’ڈاک صاب، ڈاک صاب‘ کہہ کر بُلانے لگے۔
اب سے گیارہ دن قبل سعودی عرب سے سید شہاب الدین نے پاکستان کے ایک وقیع اُردو اخبار کے ایک اداریے کا تراشہ بھیجا۔ تراشے کے ساتھ اپنا دل بھی تراش کر بھیج دیا۔ فرمایا: ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ یہ آج کے اخبار کا اداریہ ہے۔ اس میں ایک شعر علامہ اقبالؔ سے منسوب کیا گیا ہے، جب کہ یہ شعر اقبالؔ کا نہیں، مولانا ظفرؔ علی خان کا ہے۔ شعر کے دوسرے مصرعے میں غلطی بھی ہے۔ مصرعے کی غلطی برداشت بھی کرلی جائے تو شعر کے شاعر کا نام غلط لکھنا کیسے برداشت کیا جائے؟ سماجی ذرائع ابلاغ پر تو اقبالؔ کے نام سے نہ جانے کیا کیا الا بلا پیش کیا جارہا ہے، مگر ایک مؤقر قومی روزنامے سے اس جہل کا صدور ناقابلِ معافی ہے‘‘۔
ہوگا ناقابلِ معافی، مگر اداریہ نگار نے غالباً بڑی فراخ دلی سے اپنے آپ کو معاف کردیا ہوگا۔ شعر تو بہت مشہور ہے:
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اکثر لکھاری صاحبان اس شعر کو لاوارث جان کر کبھی مولانا حالیؔ سے منسوب کردیتے ہیں، کبھی علامہ اقبالؔ سے۔ حالاں کہ یہ شعر مولانا ظفرؔ علی خان کے شعری مجموعے ’’بہارستان‘‘ میں شامل ہے، اور یہ مجموعہ 1937ء میں شائع ہوا تھا، جب اقبال ؔابھی بقیدِ حیات تھے۔
شعر کا مرکزی خیال قرآنِ مجید سے ماخوذ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑے بڑے علما فضلا اس آیت کو مثبت تبدیلی کی شرط کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس آیت کا حوالہ دے کرکہتے ہیں کہ اگر کوئی قوم اپنی خراب حالی کو خود نہ بدلنا چاہے تو اللہ بھی اس قوم کی بُری حالت کو نہیں بدلتا۔ قرآن میں اس کا سیاق و سباق مختلف ہے۔ وہاں قومی خوش حالی کے بدحالی میں تبدیل ہوجانے کا یہ سبب بتایا گیا ہے۔
مثلاً: پچھلی آیات میں فرعونیوں کو عذاب دینے کا ذکرکرنے کے بعد، سورۃ الانفال کی آیت 53 میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہوا: ’’ایسا اس وجہ سے ہوا کہ اللہ کسی قوم کو جو نعمت دیتا ہے اُسے اُس وقت تک نہیں بدلتا (یعنی اُس قوم سے نہیں چھینتا) جب تک وہ قوم خود اپنی حالت نہ بدل ڈالے‘‘۔ اسی طرح سورۃ الرعد کی آیت نمبر 11 میں ارشاد ہوا: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی روش نہ بدل دے۔ پھر اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی۔ نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگارہو سکتا ہے‘‘۔
خیر، یہ تو سیاق و سباق کی ’غلطی ہائے مضامین‘ کا ذکر تھا۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ برے حالات میں مثبت تبدیلی بھی اُس وقت تک رُونما نہیں ہوتی جب تک کوئی قوم خود اپنے اندر مثبت تبدیلی نہ لے آئے۔ سورۃ الاعراف کی آیت 96 میں ارشاد ہوا: ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین دونوں طرف سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘۔گویا رزق کی فراوانی ہوجاتی اور بدحالی کی جگہ خوش حالی آجاتی۔ مگر اپنے رویوں اور رَوِش میں تبدیلی لانا آسان کام نہیں۔ لوگ تو کسی لفظ کے اُس غلط تلفظ کو بھی تبدیل نہیں کرپاتے جو بچپن سے ان کی زبان پر چڑھ گیا ہے۔ اے صاحبو! خود کو بدلنا بہت مشکل کام ہے۔ یہ کام بڑے بڑوں سے نہیں ہوپاتا۔ اقبالؔ کُڑھا کرتے تھے:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
یہ شعرتو ’ضربِ کلیم‘ میں ہے۔مگر اسی خیال کو اقبالؔ نے ’بال جبریل‘ میں بھی ان الفاظ میں پیش کیا ہے:
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند
یہ ’پاژند‘ کا قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ زرتشت کی کتاب ’’اوستا‘‘ کی ’’ژند‘‘ زبان جب ناقابلِ فہم اور متروک ہوگئی، بلکہ بقولِ البیرونی اس کے پڑھنے سے طبیعت گھبرانے لگی، تو اس کے مفسرین نے ’’پاژند‘‘ نامی زبان میں ایک نئی کتاب تصنیف کرلی۔ خود بدلنے کے بجائے کتاب ہی بدل ڈالی۔ یہی کام قرآن سے قبل نازل ہونے والی آسمانی کتابوں کے ساتھ بھی ہوا۔
اب ذرا کچھ اپنی ’غلطی ہائے مضامین‘ کا ذکر بھی ہوجائے۔ روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی کی اتوار 21نومبر 2021ء کی اشاعت میں ہمارے ملک کے نام ور فقیہ محترم مفتی منیب الرحمٰن حفظہ اللہ کا مضمون بعنوان ’’زبان و بیان‘‘ (حصہ اول) شائع ہوا ہے، جس میں آپ نے 18جون 2021ء کو شائع شدہ کالم ’’مجھ کو فن شعر میں پوری طرح ادرک نہیں‘‘ کی ایک غلطی پر گرفت فرمائی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’جنابِ احمد حاطب صدیقی صاحبِ علم ہیں، اُن کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں عربی پر بھی عبور حاصل ہے، تاہم ’’اَدْرِکْنِیْ‘‘ کا جو مطلب انہوں نے لکھا ہے، درست نہیں ہے۔ بابِ تفاعل سے ’’تَدَارُک‘‘ کے معنی ہیں: ’’لاحق ہونا، ایک کو دوسرے کے پیچھے کرنا، آخر کا اوّل سے ملنا‘‘۔ قرآنِ کریم میں بابِ افعال سے ’’اِدراک‘‘ بھی ان معنوں میں آیا ہے: ’’لَا الشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَہَا اَن تُدْرِکَ الْقَمَر‘‘، ترجمہ: ’’سورج کی مجال نہیں کہ وہ چاند کو جا پکڑ ے، (یٰس: 40)‘‘۔’’تَدَارُکُ الْخَطائِ بِالصَّوَاب‘‘ کے معنی ہیں: ’’غلطی کی اصلاح کرنا‘‘، ’’تَدَارُکُ مَافَات‘‘ کے معنی ہیں: ’’کسی گزشتہ غلطی کی تلافی کرنا‘‘، اس کو ’’تلافیِ مافات‘‘ بھی کہتے ہیں، عربی میں ’’مَافَاتَ‘‘ کے معنی ہیں: ’’جوچیز ہاتھ سے نکل جائے‘‘، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’لِکَیْْلَا تَاْسَوْا عَلَی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمْ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُور‘‘، ترجمہ: ’’یہ اس لیے کہ تم اس چیز کا غم نہ کھائو جو ہاتھ سے جاتی رہی اور نہ اس چیز پر اترائو جو (اللہ) تمہیں عطا فرمادے، اور اللہ کسی اِترانے والے متکبر کو پسند نہیں فرماتا (الحدید: 23)‘‘۔ عربی میں ’’اَدْرِکْنِیْ‘‘ استغاثہ یعنی مدد طلب کرنے کے لیے آتا ہے، لغت میں ہے: ’’میری مدد کو آئو، میری مدد کرو، مجھے سنبھالو‘‘۔ بارگاہِ رسالت مآبؐ میں استغاثہ کے مشہور کلمات ہیں: ’’قَلَّتْ حِیْلَتِیْ اَنْتَ وَسِیْلَتِیْ اَدْرِکْنِیْ یَارَسُوْلَ اللّٰہ‘‘، ترجمہ: ’’میری تدبیر ناکام ہوگئی ہے، آپ ہی میرا وسیلہ ہیں، یارسول اللہ! میری دستگیری فرمائیے‘‘۔ یہاں اعتقادی مسائل زیر بحث نہیں ہیں، ہم اپنی تاویل اور بعض شرائط کے ساتھ اس کے جواز کے قائل ہیں، جب کہ بعض حضرات اس کو جائز نہیں سمجھتے۔ ایک امام بارگاہ پر لکھا ہوا تھا: ’’یَا صَاحِبَ الزَّمَانِ اَدْرِکْنیْ‘‘، ترجمہ: ’’اے امامِ حاضر! میری مدد فرمایئے‘‘۔
ابتدائی سطروں میں محترم مفتی صاحب نے اس مبتدی طالب علم کے متعلق جو رائے قائم فرمائی ہے اس میں صرف محبت اور مبالغہ ہے۔ کالم نگار ماہر لسانیات ہے نہ اسے عربی پر عبور ہے۔یہ عاجز تو اُردو یا عربی قواعد کی کوئی کتاب بھی پوری طرح عبور نہیں کرپایا۔ مفتی صاحب کی طرف سے تدارک مافات پران کا دِلی شکریہ۔ تاہم ایک استفتا ( خدا نخواستہ بحث اور کٹھ حجتی کی غرض سے نہیں) صرف اپنی لاعلمی دُور کرنے کی غرض سے پیشِ خدمت ہے کہ سورۃ الفاتحہ سے لے کر پورے قرآن میں جا بجا اور احادیثِ نبویؐ میں بکثرت ’’صرف اللہ سے مدد مانگنے‘‘ کاحکم ہے۔تو کیا ’’نصِ صریح‘‘ کے باوجود’’ تاویل اور شرائط‘‘ کے ساتھ حکم عدولی کی گنجائش نکل سکتی ہے؟