مجلہ
:
ماہنامہ قومی زبان کراچی
ستمبر 2021ء
(گوشۂ خاص اکبر الٰہ آبادی)
مدیر
:
ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی
صفحات
:
104 قیمت فی پرچہ: 150 روپے
(رجسٹری سے) سالانہ:2000 روپے
(عام ڈاک سے) :1600 روپے
ناشر
:
انجمن ترقی اردو پاکستان۔شعبہ تحقیق و تالیف و تصنیف۔اردو باغ ایس ٹی۔10، بلاک 1، گلستانِ جوہر ،کراچی
رابطہ
:
021-34161143
شعبہ فروخت
:
0332-2790843
ای میل
:
atup.khi@gmail.com
ویب سائٹ
:
www.atup.org.pk
زیر نظر مجلہ انجمن ترقی اردو پاکستان سے شائع ہونے والا قدیمی مجلہ ہے جس کو بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے 1948ء میں جاری کیا، اور وہ ابھی تک پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ یہ ستمبر 2021ء کا شمارہ نمبر9 اور جلد نمبر93 ہے۔ اس میں ایک گوشۂ اکبرالٰہ آبادی بھی ہے۔ اداریے میں ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی تحریر فرماتی ہیں:
’’سالِ رواں 2021ء، طنز و ظرافت کے امام، سید اکبر حسین رضوی اکبر الٰہ آبادی کے صدسالہ یومِ وفات کے طور پر منایا جارہا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی 9 ستمبر 1921ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنی طرز کے منفرد شاعر تھے جنہوں نے اردو شاعری میں طنز و مزاح کا ایک الگ انداز متعارف کروایا، جس کی بدولت اکبرؔ اردو کے سب سے معروف مزاح گو شاعر کہلائے۔
اکبرالٰہ آبادی مشرقیت کے علَم بردار اور مغربی تہذیب کے مسلم معاشرے پر اثر و نفوذ کے شدید مخالف تھے۔ انہوں نے ایک صدی قبل ہی مشرق و مغرب کے تہذیبی تصادم کی بات جان لی تھی، اور ان کی شاعری کا مقصد بھی اپنی قوم کی اصلاح کرنا اور اپنی تہذیبی و ثقافتی اقدار کو بچانا تھا۔ وہ بلاشبہ اپنی اقدار کے امین تھے، ان کی بصیرت افروز اور دوررس نگاہ یہ بات بھانپ چکی تھی کہ مغرب کی اندھادھند تقلید میں ہم اپنا جداگانہ مشرقی تشخص کھودیں گے۔ اسی اندیشے کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں جابجا کیا۔ ان کی شاعری اپنی دینی اقدار، معاشرتی روایات، زبان و ادب بچانے لیے تھی۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے تہذیبی معاشرے سے محبت کا درس دیا، کہ یہی زمانے میں پنپنے کے اصول ہیں کہ اپنی معاشرت اور اس سے متعلق ہر چیز سے محبت روا رکھی جائے۔ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنی روایات کو زندہ رکھتی ہیں۔ اکبرؔ نے طنز و مزاح کے پیرائے میں وہ سب کچھ کہہ دیا جو ایک حساس دل اور ملّت سے محبت کرنے والا شخص کہہ سکتا ہے۔ اکبرؔ کی ایک صدی قبل کی شاعری آج بھی اپنی روایات و اقدار کو بچانے کے لیے ضروری ہے تاکہ ملّی یک جہتی کو فروغ ملے اور معاشرے کی درست سمت میں صورت گری ہوسکے‘‘۔
درج ذیل مقالات شاملِ اشاعت ہیں:
’’طنز و ظرافت کا بادشاہ:اکبر الٰہ آبادی‘‘ پروفیسر رئیس احمد صمدانی، ’’اکبر الٰہ آبادی کا قومی اور سیاسی شعور‘‘ نسیم انجم، ’’اکبرؔ کی مکتوب نگاری‘‘ محمد راشد شیخ، ’’اکبر اور مشرقی ومغربی تہذیب کی کش مکش‘‘ اشفاق احمد
………
’’اردو ہماری قومی شناخت ہے‘‘ جمیل یوسف، ’’پروفیسر جنید اکرم… حیات و خدمات کا مختصر جائزہ‘‘ ڈاکٹر علی محمد خاں، ’’تمھیں سو گئے داستاں کہتے کہتے‘‘ پروفیسر اسلم جمشید پوری، ’’اردوے خستہ کے بغیر‘‘ ڈاکٹر شمس بدایونی، ’’عشرت رومانی… ایک جاذب شخصیت‘‘ نجیب عمر، ’’اردو کے بلند پایہ طنز و مزاح نگار… مجتبیٰ حسین‘‘ ڈاکٹر احمد علی جوہر، ’’وحشت ہے بہت میرؔ کو (پروفیسر شمیم حنفی کی یاد میں)‘‘ ڈاکٹر عمیر منظر، ’’غلام عباس بحیثیت افسانہ نگار‘‘ محمد تنظیم عالم بن عبدالقدوس، ’’جونتھن فکر کا ساختیاتی تصور‘‘ کرن اسلم، ’’امرائوجان ادا کی ثقافتی دنیا‘‘ سیدہ ہما شیرازی
………
یہ اکتوبر کا شمارہ نمبر10ہے، جلد 93۔ اس میں ایک گوشۂ سرسید احمدخان بھی ہے۔ اداریے میں ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی تحریر فرماتی ہیں:
’’کسی بھی ملک کی ترقی میں زبان اور اس کے اظہار کے معاملات اہم ہوتے ہیں۔ سماجی تبدیلیاں لسانی تبدیلیوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ زبانوں کی ترویج و اشاعت میں داخلی و خارجی دونوں عوامل کارفرما ہوتے ہیں جن میں ثقافت، سیاست، صنعت و حرفت اور مذہب وغیرہ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ نئی ایجادات ہوتی ہیں، لوگ نقل مکانی کرتے ہیں جس کی وجہ سے نئے الفاظ لغت میں اپنی جگہ بنالیتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے، اسی سے زبانوں کو وسعت ملتی ہے اور وہ زندہ رہتی ہیں۔ اردو بھی ایک زندہ زبان ہے جو اپنا ایک تاریخی و ثقافتی پس منظر رکھتی ہے۔ اردو نے پاک و ہند کے ہر خطے اور ہر زمانے کی ابلاغی ضروریات کو پورا کیا ہے۔ اردو زبان میں قوتِ نمو عصر سے ایسی جڑی ہے کہ غیر زبانوں کے الفاظ اس زبان سے جڑ کر اسی کے ہوجاتے ہیں۔ اردو میں بھی توسیع کا عمل جاری ہے۔ اس کا رسم الخط اور صوتیات، قواعد کے مروجہ اصولوں کے مطابق ہیں اور اُن تمام صفات سے متصف ہیں جو دوسری زبانوں کو اپنے اندر سمولینے کے لیے معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اپنی ہمہ گیری کی وجہ سے اردو غیر الفاظ کو خوش دلی سے اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ نئی اصطلاحات و الفاظ اپنالینا اس کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کبھی کبھی تلفظ، املا اور ادائیگی کا مسئلہ زیر بحث آجاتا ہے جو کہ ماہر لسانیات کے لیے توجہ طلب ہوتا ہے، اس لیے اس کام کو بہت احتیاط اور ماہرین کی مشاورت کے بعد انجام دیا جاتا ہے، کیوں کہ وسعت اور تنوع کے ساتھ اپنی زبان کی انفرادیت کو قائم رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس کام میں اردو کے فروغ سے متعلق ادارے جیسے انجمنِ ترقی اردو پاکستان، ادارۂ فروغِ قومی زبان، مجلسِ ترقی ادب، اکادمی ادبیات پاکستان اور اردو سائنس بورڈ وغیرہ اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ کتابوں کی اشاعت اور اردو زبان کی ترقی و ترویج میں ان تمام اداروں کی خدمات لائق ِتحسین ہیں‘‘۔
اس شمارے میں شامل مقالات اور مضامین:
’’سرسید اور تعلیمِ نسواں‘‘ ڈاکٹر محمد فرقان سنبھلی، ’’سرسید احمد خاں کے فکری و تہذیبی سفرپر ایک طائرانہ نظر‘‘ حافظ صفوان محمد چوہان، ’’مضامینِ سرسید کے لسانی زاویے‘‘ محمد عثمان بٹ، ’’سائنسی طرزِ فکر کا تعلیمی نباض… سرسید‘‘ ڈاکٹر رمیشا قمر، ’’سرسید… ایک عہد ساز شخصیت‘‘ شہناز اختر، ’’سرسید کا گزرا ہوا زمانہ‘‘ سید انعام حسین عابدی
………
’’محمد شان الحق حقی دہلوی کی تبصرہ نگاری‘‘ ڈاکٹر عرفان شاہ، ’’ابراہیم جلیس بحیثیت فکاہیہ کالم نگار‘‘ ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی، ’’سید شہید کے تین نواسے‘‘ ڈاکٹر یونس حسنی، ’’تصانیفِ شبلی کے فارسی تراجم‘‘ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی، ’’ترقی پسند تحریک… چند حقائق‘‘ ڈاکٹر مسرت بانو، ’’منشی پریم چند کے چار افسانے: چند معروضات‘‘ ظفر الاسلام، ’’جدیدیت بطور تخلیقی رجحان اردو نظم کے تناظر میں‘‘ نعمان نذیر
اس شمارے میں ’’سید احمد شہید کے تین نواسے‘‘، ’’تصانیفِ شبلی کے فارسی تراجم‘‘، ’’ترقی پسند تحریک… چند حقائق‘‘ اہم مقالات ہیں۔
اردو سے محبت کرنے والوں کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کے مجلات کو بھی اپنے گھروں میں جگہ دیں اور ان کا مطالعہ کریں، اور اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہیں۔
مجلّہ سفید کاغذ پر خوب صورت طبع ہوتا ہے۔