نیو اورینٹل ازم یعنی نیا استشراق اپنے پیش رو سے زیادہ ہمہ جہت اور خطرناک ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ اسلاموفوبیا ہے۔ نیواورینٹل ازم میں مشرق اجنبی، جذباتی اور غیر عقلی نہیں رہا بلکہ مغرب کے لیے بہت بڑا خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کلاسیکل اورینٹل ازم اور نیواورینٹل ازم میں مشترک بات مشرق کا سطحی فہم ہے۔ نئے استشراق کے نمائندے تھنک ٹینک، سیاست دان، صحافی، فلم ساز، رپورٹر، مسیحی مبلغ اور پروفیسر حضرات ہیں، اور ان کا پیدا کردہ علم بے سروپا نہیں بلکہ ماہرین، زر اور میڈیا کی مدد سے اداروں کے ذریعے پیدا کیا جانے والا منظم علم ہے۔ مشرق کی تصاویر میں اسلام اور مسلمان دکھائے جاتے ہیں۔ اس گروہ کا اثر رائے عامہ سے لے کر خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات تک ہوتا ہے۔ نئے استشراقی تناظر میں مشرقی مسلمان صرف پرانی روایات، جامد تاریخ اور غیرعقل پرستانہ رویوں ہی میں قید نہیں بلکہ یہ خطرناک ہیں۔ مغربی اقدار، تہذیب اور اس کے مادی وجود کے لیے خطرہ ہیں۔
انیسویں صدی کے برعکس اب مشرقی لوگ بطور مہاجر، پناہ گزین، طالب علم، سیاح اور سرمایہ کار مغرب میں قیام پذیر ہوچکے ہیں۔ یہ لوگ مغربی اقوام کے سماجی اور ثقافتی تانے بانے کا حصہ بن چکے ہیں۔ تاہم مقامی لوگ انہیں غیر اور اجنبی تصور کرتے ہیں جو ان کی خوشیاں غارت کرنے چلے آئے ہیں۔ بلند شرح افزائش رکھنے والے مسلمان حملہ آور تصور کیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جزائر مالٹا کے حکام، میڈیا اور دانش ور بھی مسلمانوں کی آمد سے پریشان ہیں۔ لہٰذا اب مشرقی لوگوں کا علم کتابوں سے نہیں بلکہ ان کے ساتھ رہنے سے حاصل کیا جارہا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کی روایت پسندی، مذہبیت اور غیرجدیدی رجحان پر لکھنے کے لیے مشرق وسطیٰ جانے کی ضرورت نہیں، بس گرد و نواح میں جھانک لینا کافی خیال کیا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں بسنے والے مسلمان بہت حد تک مغربی لوگوں جیسے ہی بن چکے ہیں۔ یورپ و امریکہ میں نارمل زندگی گزارنے والوں پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اس کے برعکس تھوڑے سے انتہاپسندوں اور پُرامن لیکن روایت سے بندھے لوگوں (اسکارف والی خواتین، داڑھیوں والے مرد یا کوئی نماز پڑھتا مسلمان) کو فوکس کیا جاتا ہے کیونکہ اس سے یورپی ثقافت میں خلل واقع ہوتا ہے۔ مغرب میں جانے والوں کی پہلی نسل یورپی زبانیں بولنے کی کوشش کرتی ہے، جاب کرتی ہے اور نارمل لائف گزارنے کے لیے وہ اپنے کلچر (خوراک، فیشن، رسومات اور نجی مذہبی مجالس) پر بھی عمل پیرا رہتی ہے۔ بقا، ترقی اور غیرملکی ثقافت میں نامساعد حالات سے مجبور ہوکر یہ لوگ اپنے نجی دائروں، مذہبی گروہوں، زبانوں اور سہارے کے لیے قابلِ اعتماد افراد سے جڑے رہتے ہیں، اور عام طور پر انہیں مساجد میں اکٹھے ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس طرح انہیں دیارِ غیر میں اپنوں کے درمیان ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ نیومستشرقین اسی نسل کو اپنے تعصبات کی سان پر چڑھاتے ہوئے اسے پوری دنیا کے مسلمانوں پر منطبق کردیتے ہیں۔ چنانچہ القاعدہ اور داعش کو اسلام کی نمائندہ جماعتیں کہا جاتا ہے، یا گلیوں میں چلتی باپردہ خواتین کو یورپ کے ثقافتی دشمن کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔
نیواورینٹل ازم اصل میں کلاسیکل اورینٹل ازم کا تسلسل ہے جو ’’غیر‘‘ کی نئی تشریح کرتا ہے۔ اس طرزِفکر کا آغاز شمالی امریکہ اور مغربی یورپ سے ہوا، تاہم یہ انہی خطوں تک محدود نہیں، اور نہ ہی اس میں کام کرنے والے محض مغربی لوگ ہیں۔ اس میں مشرقِ وسطیٰ کے لکھاری، اسکالرز اور ماہرین فعال کردار ادا کررہے ہیں۔ نیواورینٹل ازم عوامی اظہار کا ایک نیا طریقہ ہے جو جدید ابلاغی ٹیکنالوجی کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ اور مسلمانوں کے متعلق معلومات پھیلا رہا ہے۔ اس میں کلاسیکل اورینٹل ازم سے مختلف باتیں بھی ہیں لیکن کلاسیکل تصورات اور خیالات کا تسلسل بھی پایا جاتا ہے، یعنی یہ کلاسیکل اورینٹل ازم کے تصورات کو نئے رنگ میں پیش کرتا ہے۔ مثلاً کلاسیکل اورینٹل ازم کی طرح یہ بھی مغرب کی مورل اور کلچرل برتری کے مفروضے پر قائم ہے۔ یوں یہ کلاسیکل اورینٹل ازم کا تتمہ اور ضمیمہ ہے۔
نیواورینٹل ازم کا آغاز نائن الیون کے بعد سے ہوا، اور اس کا اکیڈمک مرکز امریکہ ہے۔ کلاسیکل اورینٹل ازم میں زیادہ تر یورپی ماہرین، لکھاری اور فن کار تھے، لیکن نیواورینٹل ازم میں مشرقِ وسطیٰ کے لوگ ہیں جو بزعم خود استناد کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں مغرب میں آ کر زباں ملی اور اظہارِ رائے کے مواقع ملے، وہ اپنی مقامی انفرادیت کے رنگ میں زیادہ معتبر اور معروضی مانے جاتے ہیں۔ کلاسیکل اورینٹل ازم بظاہر زبان و ادب اور کلچر پر زور دیتا تھا، جب کہ نیواورینٹل ازم مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں دل چسپی رکھتا ہے۔ نیو مستشرقین مثلاً ماجد نواز اور آذر نفیسی وغیرہ سیاسی تنظیموں اور اداروں سے وابستہ ہیں اور مسلمان ملکوں کی حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے حکومت و سیاست کی تبدیلی پر زور دیتے ہیں۔
نیومستشرقین کی خاصیت تاریخیت کی ماورائے تاریخ شکل ہے۔ یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی تاریخی تبدیلیوں پر توجہ دیتے ہیں، لیکن حالاتِ حاضرہ کے اہم واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے نیوسامراجی ہتھکنڈوں سے صاف انکار کرتے ہیں۔ کلاسیکل اورینٹل ازم ’’علم کی چاہت‘‘ کا دعویٰ کرتا تھا لیکن نیواورینٹل ازم کا انداز صحافتی ہے، کیونکہ یہ لوگ سچائی تک براہِ راست رسائی کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کے تجزیے ٹھوس ثبوتوں کے بغیر اور سطحی ہوتے ہیں ،اور یہ لوگ مسلم معاشروں اور ثقافتوں کے متعلق غلط انداز میں عمومیت کے دعوے کرتے ہیں۔ نیواورینٹل ازم حجاب کو ظلم کی علامت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ کلاسیکل اوینٹل ازم میں حجاب کو حرم سراؤں کے متبادل کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، شہوت و جنسیت سے معمور ایسی دیومالائی جگہ جہاں عام لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی، اس کے برعکس نیواورینٹل ازم حجاب کو مسلمان عورتوں کی پستی اور مظلومیت کی علامت بنا کر پیش کرتا ہے اور حجاب کو سول رائٹس اور شہری آزادیوں سے محرومی قرار دیتا ہے۔
حامد دباشی اپنے ایک مضمون ’’مقامی جاسوس اور امریکی سلطنت‘‘ میں کہتے ہیں کہ مقامی گھس پیٹھیے دانش وروں کا کام ہی یہ ہے کہ اپنے ملکی حالات کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ امریکی سلطنت کے مفادات بہترین طور پر پورے ہوں۔ یہ لوگ مقامی استبداد کے جائز ناقدین کے لبادے میں زیادہ گھناؤنے عالمی غلبے کی راہ ہموار کرتے ہیں، یوں مقامی دہشت میں اضافہ کرتے ہیں۔ نیومستشرقین عوامی ڈسکورس میں شامل ہونے کے لیے اپنی اتھارٹی، استناد اور مقامی علم کو بنیاد بناتے ہیں، تاہم اس سے ان کی نیت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی ایسا نہیں کہ یہ سب کے سب امریکی ایجنٹ ہوتے ہیں بلکہ ان میں سے بہت سے لوگ ذاتی طور پر ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں، یہ لوگ مسلم ملکوں سے نقل مکانی کر کے امریکہ میں مقیم تھے اور جب نائن الیون کے بعد مسلم معاشروں کے متعلق معلومات کا قحط سامنے آیا تو یہ لوگ نہایت اخلاص کے ساتھ اپنے ارادوں کی تکمیل کے لیے اس کمی کو پورا کرنے لگے اور مشرق کے مقامی ماہرین کے طور پر خود کو منوانے لگے۔
اس کی ایک مثال ایرانی خاتون رویا حکاکیان ہے جس نے ایرانی انقلاب کے دوران عورتوں کی مشکلات پر کتاب لکھی اور اسے اپنے کاروبار کا ذریعہ بنایا۔ وہ کہتی ہے کہ میں ایرانی معاشرے میں ہیومن رائٹس پر اتھارٹی ہوں۔ یہ میڈیا کے پروگراموں میں ظاہر ہوتی ہے، لیکچر دیتی ہے اور خود کو ایکسپرٹ ثابت کرنے کے لیے مختلف اداروں سے اپنی پروفیشنل وابستگی ظاہر کرتی ہے۔ اس کی ویب سائٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سامراجی مشینری کا پرزہ نہیں بلکہ پہلی نسل کے پُرجوش مہاجرین میں سے ہے جس کا مقصد اپنی ذات اور اپنے کام کو نمایاں کرنا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کے اِس کام سے امریکی سامراجی عزام کو جواز ملتا ہے۔
نیومستشرقین کو گھس پیٹھیے کہنا درست ہے یا نہیں؟ اس پر بحث ہوسکتی ہے، لیکن اصل چیز ان کی وہ حکمت عملی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے استناد اور اتھارٹی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مثلاً نفیسی کہتی ہے ’’اسلامی جمہوریہ ایران میں رہتے ہوئے ہم نے ظلم و بربریت کا المیہ اور حماقت اپنے اوپر سہی ہے۔ ہم بقا کے لیے اپنی ہی بدحالی کا مذاق اڑاتے تھے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ خود ہمارے اندر ہوس پرستی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے آرٹ اور لٹریچر کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ آرٹ اور لٹریچر ہماری عیاشی نہیں بلکہ ضرورت تھی۔ ہم جھوٹے وعدوں کی فریبی دنیا میں مکمل طور پر تنہا تھے، یہ ایسا معاشرہ تھا جس میں آپ اپنے نجات دہندہ اور قاتل میں فرق نہیں کرسکتے‘‘۔ نیواورینٹل اتھارٹی کی نوعیت تجربی قسم کی ہے، یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں رہے ہیں بلکہ بطور مشرقی باشندے ہم نے اس معاشرے کو جھیلا ہے۔ ہم اس کے لوگوں، ثقافت اور سیاسی حالات سے واقف ہیں کیونکہ ہم خود ان میں سے گزرے ہیں۔ یہ لوگ مشرقی ثقافتوں کا نمونہ دکھانے کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں۔ تجربی اتھارٹی کا دعویٰ مشرقِ وسطیٰ کے تمام لکھاریوں کی یادداشتوں میں غالب ہے۔ مثلاً حکاکیان دعویٰ کرتی ہے کہ میں اُن مغربی لوگوں کی طرح نہیں ہوں جنہوں نے ایران کے بارے میں بس پڑھا یا سنا ہے، ان لوگوں نے تو یہی سنا ہے کہ ایران عربوں کی طرح پس ماندہ ملک ہے، یہاں عورتیں برقعے اور مرد پگڑیاں پہنتے ہیں، صحراؤں میں رہتے ہیں اور یہاں ملاّؤں کی حکومت ہے۔ انہیں غلط بتایا جاتا ہے کہ شاہ ایران سی آئی اے کا ایجنٹ تھا، یا آیت اللہ خمینی اور اس کا عملہ صحیح تھا۔ حکاکیان نے انقلابِ ایران کے فوراً بعد اپنی جوانی میں ایران چھوڑ دیا تھا اور کبھی واپس ایران نہیں گئی، اس کے باوجود وہ اپنی یادداشتوں میں لکھتی ہے کہ ملک پر اسلامی بنیاد پرستوں کا قبضہ ہونے کے بعد عورتوں کی کیا حالت تھی، ان ملاّؤں نے عورتوں کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا تھا۔ اس نے اپنی جوان اور امیدافزا آنکھوں سے ایران کو دیکھا، ایک ایسی لڑکی جو خود کو منفرد اور اسپیشل سمجھتی تھی۔ حکاکیان کی طرح امریکہ میں رہنے والے دیگر لکھاریوں مثلاً غلارے آسائش، آزادے موآونی اور افشینہ لطیفی کا براہِ راست تجربہ رکھنے کا دعویٰ اصل میں یہ ہے کہ کسی خاص قوم کو سمجھنے کے لیے اسی قوم کا ہونا ضروری ہے۔
یہ بھگوڑے لکھاری اپنے اپنے مسلم معاشروں کا مستند علم فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اسلام کو بہت اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں۔ تاہم ان کے دعوے درست نہیں، کیونکہ ان میں ٹھوس ادراک کی شدید کمی ہے، اور جو کچھ یہ دعوے کرتے ہیں ان میں مبالغہ آرائی کا عنصر زیادہ ہے۔ نیومستشرقین غیرمعذرت خواہانہ طور پر اپنے اپنے خطوں کی سیاست میں ملوث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اپنے ذاتی مشاہدات کو سیاسی حالات سے جوڑتے ہیں۔ کلاسیکل مستشرقین معروضیت اور علمی غیرجانب داری دکھانے کے لیے حالاتِ حاضرہ سے عدم دل چسپی ظاہر کرتے تھے، لیکن نیومستشرقین اپنے ڈسکورس کو سیاسی شمولیت کا نام دیتے ہیں جس کا مقصد اپنے خطے کو استبدادی حکومتوں سے آزاد کرانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم ملکوں میں وہ بنیادی آزادیاں میسر نہیں جیسا کہ مغرب میں ہیں، فیمینسٹوں کا دعویٰ ہے کہ نجی اصل میں سیاسی ہے۔ یہ لوگ اپنے مقامی ادب یا روزمرہ معمولات پر بات کرتے ہوئے اس میں سیاسی تبصرہ ضرور شامل کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے حالات اور مغربی لکھاریوں کے پیش کردہ حالات میں مماثلت ڈھونڈنے کے عادی ہیں۔ ان لوگوں کی سیاسی تنقید کے متناقض اور جھوٹے ہونے کی ایک دلیل یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ امریکہ میں مشرقِ وسطیٰ سے آنے والے لکھاریوں مثلاً خالد حسینی، یمینہ خدرا اور سائرہ شاہ وغیرہ کی کتابیں مشرقِ وسطیٰ میں شائع نہیں ہوئیں اور نہ ان کا مقامی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ ان کی تصانیف صرف امریکہ اور مغربی یورپ میں شائع ہوتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہیومن رائٹس یا جمہوریت کا مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ ان کا تعلق امریکہ کے سامراجی مفادات اور مداخلتوں سے ہے۔ ان کی تحریریں اصل میں ’’بربریت کا نیا بیانیہ‘‘ ہیں، یعنی یہ مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی تشدد کی وضاحت کرتی ہیں لیکن اس بیان میں سیاسی اور اقتصادی مفادات اور تناظرات نظرانداز کرتی ہیں اور یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ تشدد اصل میں مقامی ثقافتوں کی خصلتوں کا نتیجہ ہے۔
نیومستشرقین کی سیاسی تنقید امریکی حکومت کو اخلاقی جواز فراہم کرتی ہے کہ امریکہ اپنے سامراجی عزائم پورے کرنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں مداخلت کرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں
کہ ان لوگوں کو امریکہ کی طرف سے مامور کیا جاتا ہے کہ مسلم نظریات پر تنقید کریں۔ اصل بات یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی عوام اسلام اور مشرقِ وسطیٰ کے متعلق مستند اور ماہرانہ معلومات چاہتے تھے، اور سرمایہ دار پبلشرز نے مارکیٹ میں اس چیز کو منافع بخش پایا تو نیومستشرقین کے ڈسکورس کے لیے فضا سازگار ہوگئی۔ اس ڈسکورس نے مسلم معاشروں اور عوام کے متعلق عوامی اجماع قائم کیا جو امریکی حکومت کے سامراجی عزائم پورے کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔ برنارڈ لیوس اور آذر نفیسی میں یہی گہرا رشتہ ہے۔ ان میں سے بعض تو سامراجی اداروں کے باقاعدہ تنخواہ دار ہیں لیکن زیادہ تر سیلف میڈ ہیں جنہیں پبلشنگ مارکیٹ میں شہرت اور دولت کمانے کا موقع مل گیا۔