افریقا! جسے کوئی اپناتا نہیں

افریقا وہ برِاعظم ہے جسے دنیا نے کم و بیش ہر دور میں نظرانداز کیا ہے، زیادتیوں کا نشانہ بنایا ہے۔ پوری دنیا کے انسانوں پر ایک بہت بڑا قرض یہ ہے کہ افریقا کو اُس کا جائز مقام دیا جائے، اُس سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا آئے، عالمی سیاست و معیشت میں اُس کا جائز مقام محض تسلیم نہ کیا جائے بلکہ اس خطے کے لوگوں کو اُن کے متعلقہ حقوق دیئے بھی جائیں۔
دنیا بھر کے پڑھے لکھے لوگ اور مختلف شعبوں کے سرکردہ ماہرین بھی افریقا پر اب تک خاطر خواہ توجہ دینے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس خطے کے ممالک میں آبادی کا غیر معمولی تنوع جنم لے رہا ہے۔ کم و بیش چالیس سال قبل افریقا کی آبادی 80 کروڑ ہوا کرتی تھی، اب ایک ارب بیس کروڑ کی حد کو چُھو رہی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ آبادی میں اضافے کی یہی رفتار برقرار رہی تو رواں صدی کے وسط تک افریقا کی آبادی دو ارب کی حد کو چُھو رہی ہوگی۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار اور پیش گوئی کے مطابق رواں صدی کے خاتمے تک افریقا کی آبادی ساڑھے چار ارب کی حد کو بھی چُھو سکتی ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ براعظم چین اور بھارت کی مجموعی آبادی سے زیادہ آبادی کا حامل ہوچکا ہو۔
کسی بھی دوسرے براعظم یا خطے میں آبادی کے حوالے سے اِس نوعیت کی حیرت انگیز تبدیلیاں رونما نہیں ہورہیں۔ اب ایک لمحے کو ٹھیر کر سوچیے کہ ماہرین کے اندازوں کے مطابق 2030ء تک دنیا بھر کے کام کرنے کی عمر والے لوگوں کا 60 فیصد افریقا میں ہوگا۔ یہ حقیقت اُن سب کے لیے قابلِ توجہ ہونی چاہیے جو افریقا کو کسی قابل گرداننے کے لیے تیار نہیں۔ افریقا افرادی قوت فراہم کرنے والا ایک بڑا خطہ بننے والا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ، عالمی بینک اور دیگر عالمی اداروں کے لیے بھی افریقا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا جارہا ہے۔ کل تک اِس خطے کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا تھا، مگر اب ایسا نہیں ہے۔
اس وقت بہت سے متمول ممالک میں سیاست بنیادی طور پر اس حقیقت کے گرد گھومتی ہے کہ تارکینِ وطن کی آمد کو زیادہ سے زیادہ روکا جائے اور افرادی قوت سے متعلق مسائل خود حل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ یورپ کی مجموعی کیفیت الگ تھلگ رہنے کی ہے۔ وہ تارکینِ وطن کی آمد روکنے کے حوالے سے غیر معمولی حد تک فعال ہے۔ یہ حقیقت بھی کسی طور جھٹلائی جاسکتی ہے نہ اِس سے صرفِ نظر ہی ممکن ہے کہ یورپ سمیت دنیا بھر کے متمول ممالک میں ڈھلتی عمر والے افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پیدائش کی شرح بھی گر رہی ہے، اور چند کیسز میں تو آبادی گھٹتی ہوئی پائی گئی ہے۔ دوسری طرف افریقا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وہاں کام کرنے کی عمر کو پہنچنے والے افراد کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ افریقا سے جُڑے ہوئے متمول ممالک کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج ہے، بالخصوص یورپ کے لیے۔
بہت جلد کام کا مستقبل افریقا کے مستقبل سے وابستہ ہوجائے گا، کیونکہ افرادی قوت کا نمایاں حصہ وہاں سے آئے گا۔ معاشی طلب، موسمی تبدیلیاں، مناقشے، خانہ جنگیاں، عالمی سطح پر صحتِ عامہ کی کیفیت اور دوسرے بہت سے معاملات افریقا کے مستقبل سے جڑے ہوئے ہوں گے۔
اب یہ چیلنج درپیش ہے کہ افریقی ممالک کو کسی نہ کسی طور عالمی معیشت میں عمدگی سے کھپایا جائے تاکہ اس براعظم کے اداروں میں استحکام پیدا ہو، بالخصوص تعلیمی اداروں میں۔ اشیاء سازی اور اعلیٰ درجے کی خدمات میں بھی افریقی ممالک کا حصہ بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کا متبادل یہ ہے کہ متمول ممالک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور افریقا کی طرف سے آنے والے تارکین وطن کے ریلوں کا انتظار کریں۔ اس وقت بہتر امکانات کے لیے یورپ اور دیگر ترقی یافتہ خطوں اور ممالک کی طرف نقل مکانی کرنے والے افریقیوں کی تعداد زیادہ نہیں، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
اس وقت یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ افریقا میں عالمی معیشت کا خاصا فعال حصہ بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ مغربی دنیا نے ترقی کے حوالے سے جو بیانیہ دیا ہے اُس کی روشنی میں تو یہ بہت عجیب ہی لگتا ہے، مگر اِس کی بہتر تفہیم کے لیے وسطی افریقا کے کیس پر غور کیا جانا چاہیے کہ کس طور اُس نے ہماری جدید دنیا کی تشکیل و تطہیر میں اہم کردار ادا کیا۔ افریقا کئی صدیوں تک عالمی سیاست و معیشت میں خاصا فعال کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اُن صدیوں کو بھی اب صدیاں بیت چکی ہیں۔ افریقا کی اِس تاریخ ہی نے مجھے “Born in Blackness: Africa, Africans, and the Making of the Modern World, 1471 to the Second World War,”لکھنے کی تحریک دی۔ یہ کہانی چودھویں صدی عیسوی میں شروع ہوتی ہے جب مالی کے انتہائی مالدار حکمراں مانسا موسیٰ کو افسانوی شہرت حاصل ہوئی اور اُس کے قصوں کے ساتھ ساتھ مالی کے نقشے بھی یورپ میں گردش کرنے لگے۔ وہ مغربی افریقا کے وسط میں انتہائی غیر معمولی حیثیت کے ساتھ اقتدار کی ڈور تھامے ہوئے تھا۔ مالی کے نقشوں کی گردش ان اطلاعات کے بعد شروع ہوئی کہ مانسا موسیٰ نے ایک انتہائی شاندار قافلے کے ساتھ ساڑھے تین ہزار میل سے زیادہ کی مسافت طے کرتے ہوئے مکہ اور مدینہ میں حاضری دی تھی۔ یہ 1324 عیسوی کی بات ہے۔ اس قافلے میں کم و بیش ساٹھ ہزار افراد شامل تھے۔ راہ میں تقسیم کرنے کے لیے یہ لوگ اٹھارہ ٹن سونا لے کر روانہ ہوئے تھے۔
مانسا موسیٰ کی فقید المثال فیاضی نے ایک عشرے سے بھی زائد مدت تک یورپ اور لیونٹ کے خطے میں سونے کے نرخوں پر شدید دباؤ برقرار رکھا۔ ایک مصنف نے اِسے صدی کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیا۔ اس واقعے نے یورپ کے لوگوں میں افریقی سونے کے حوالے سے تجسّس پیدا کیا اور یوں پرتگالیوں نے افریقی سونے کی تلاش کا سفر شروع کیا۔ بہت کوشش کے بعد گھانا میں سونے کا بہت بڑا ذخیرہ دریافت ہوا۔ پرتگالیوں نے وہاں ایک مضبوط تجارتی مرکز تعمیر کیا۔ بعد میں دوسرے مہم جُو بھی بہت کچھ کرنے کے عزم کے ساتھ گھر سے نکلے اور اُنہیں بھی خاصی کامیابی ملی۔ ان میں الفونسو ڈی البوکرک اور بارٹولومیو ڈائس کے علاوہ کرسٹوفر کولمبس بھی شامل تھا جس نے کم و بیش دو عشروں کے بعد ہسپانیہ کی طرف سے امریکہ کا سفر کیا۔
پرتگالیوں کو اچانک بہت بڑے پیمانے پر سونا حاصل ہوا تو ان کا چھوٹا سا ملک ہسپانیہ کی طرف سے کی جانے والی لشکر کشی کا سامنا کرنے کے قابل ہوسکا، اور دنیا بھر میں سونے کی تلاش کے لیے کوششیں جاری رکھنے کے قابل ہوسکا۔ اس دوران یورپ میں دوسرے معاملات میں بھی پیش رفت ہوئی جو پورے خطے کی تقدیر بدلنے کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ افریقا میں اچھی خاصی خوش حالی تھی۔ وہ بہت سی اشیاء چاہتے تھے جو پرتگال بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ سونے کی مدد سے پرتگالی افریقیوں کو مطلوب اشیاء خرید کر وہاں پہنچاتے تھے۔ یوں اُن کی تجارت کا دائرہ وسعت اختیار کرتا گیا اور پرتگالیوں کو یورپ بھر میں تجارتی نظام پھیلانے میں بھی مدد ملی۔ یورپ تب ترقی کے لیے ترس رہا تھا۔ خوش حالی بھی اس سے بہت دور تھی۔ ایسے میں پرتگالیوں نے کم و بیش پورے یورپ کو وہ سب کچھ دیا جس کی اسے سخت ضرورت تھی۔
یورپ نے ابتدا میں افریقیوں سے تجارتی روابط استوار کیے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات افریقیوں کو غلام بناکر لانے تک جاپہنچے۔ یہ بدقسمتی کی بات تھی کیونکہ اس کے نتیجے میں یورپ اور افریقا کے درمیان پایا جانے والا معاشی تعلق تبدیل ہوا، اور وہ بھرپور ترقی ممکن نہ بنائی جاسکی جو بنائی جاسکتی تھی۔ ایک کلیدی لمحہ تب آیا جب پرتگالیوں نے خطِ استوا کے خطے میں واقع غیر آباد جزیرے Sao Tome کو آباد کیا۔ انہوں نے افریقا سے لائے ہوئے غلاموں کی مدد سے وہاں گنے کی کاشت شروع کی۔ یہ سولہویں صدی عیسوی کی بات ہے۔ تب صاف ستھری، اعلیٰ درجے کی چینی یورپ میں ایک کمیاب شے تھی۔ یوں پرتگالیوں نے یورپ کے باشندوں کو تجارتی بنیاد پر شکر اور دوسری بہت سی اشیاء تیار کرنے کی راہ پر گامزن کرکے جدید یورپ کی بنیاد ڈالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے نتیجے میں وہاں ترقی اور خوش حالی کی راہ ہموار ہوئی، یعنی یورپ نے تاریکیوں کو شکست دے کر اجالوں کو مقدر کیا۔ اس ماڈل کو ’’چیٹل سلیوری‘‘ کا نام دیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی غلامی کا وہ دور بھی شروع ہوا جس میں کسی ایک قوم یا نسل کے چند افراد بہت بڑی افرادی قوت پر حکومت کرتے تھے۔ اس ماڈل میں ترقی کا مدار خریدے ہوئے غلاموں کی محنت پر تھا۔ تاریخ میں اس نوعیت کے ماڈل کی مثالیں کم ہی تھیں۔ ایسے معاشرے کم ہی رہے ہیں جن میں پوری پوری نسلوں کو غلام بناکر مادّّی ترقی و خوش حالی کی راہیں ہموار کی گئیں اور اُن محنت کرنے والوں کو برائے نام بھی معاوضہ نہیں دیا گیا۔ بعض مورخین نے ایسے معاشروں کی تعداد پانچ بتائی ہے جو سب کے سب یورپی تھے، یعنی قدیم یونان اور روم، برازیل کا نو آبادیاتی دور اور جزائر غرب الہند کا خطہ اور نوآبادیاتی اور اُس کے بعد کے دور کا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا جنوبی علاقہ۔ غلاموں کے ذریعے ترقی و خوش حالی یقینی بنانے کا یہ ماڈل نوآبادیاتی ساؤ ٹوم سے بہت جلد نام نہاد ’’نئی دنیا‘‘ کو منتقل ہوا جہاں افریقی نسل کے غلاموں پر مبنی افرادی قوت آبادی کے تین چوتھائی سے زائد پر مشتمل ہوتی تھی۔ سفید فام لوگوں نے سیاہ فام لوگوں پر اندھا راج کیا اور غیر معمولی مادّی ترقی کی راہ ہموار کی۔ سیاہ فام آبادی ایسی غلامی کی زد میں رہتی تھی جس میں مرتے دم تک کام کرنا پڑتا تھا۔
مغربی معاشروں نے اپنی بھرپور مادّی ترقی اور خوش حالی کو غلامی کی دین قرار دینے یا غلاموں کی محنت کو سب سے بڑا عامل تسلیم کرنے میں ہمیشہ ہچکچاہٹ کا اظہار کیا ہے، اور کبھی کبھی تو معاملہ بہت ہی حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے۔ ہر یورپی معاشرے نے اپنی بھرپور ترقی اور خوش حالی کو اپنی محنتِ شاقہ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ غلامی کا ذکر حاشیوں میں بھی نہیں کیا جاتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جو کچھ تاریخ کے نام پر فاتحین لکھتے ہیں وہی تاریخ بنتا ہے اور اُسی کو مستند تسلیم کرنے کی روایت رہی ہے۔ سیاہ فام افریقی غلاموں کی محنتِ شاقہ کو مغربی معاشروں نے یا تو بالکل ہی قابلِ ذکر نہیں سمجھا، یا پھر انتہائی سرسری انداز سے اِس کا ذکر کیا ہے۔
خیر، غلامی کے زمانے میں افریقا اور اُس کے باشندوں نے پوری دنیا کی ترقی و خوش حالی یقینی بنانے میں جو کردار ادا کیا وہ کسی بھی طور ایسا نہیں کہ نظرانداز کیا جائے یا بھلا دیا جائے۔ چند مورخین نے اندازہ لگایا ہے کہ سیاہ فام غلاموں نے شدید جبر کے تحت کم و بیش ڈھائی ارب گھنٹے محنت کی۔ یہ محنت نئی دنیا کے کھیتوں میں کی گئی۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دولت یورپی باشندوں کے اُس سونے اور چاندی سے زیادہ تھی جو وہ شمالی اور جنوبی امریکہ سے لائے تھے۔ شمالی امریکہ میں برطانیہ کے نوآبادیاتی علاقے نسبتاً غریب تھے اور انہیں اپنی گزر بسر کے لیے کیریبین خطے کے غلام جزائر سے تجارت کرنا پڑتی تھی۔ اٹھارہویں صدی میں موجودہ ہیٹی کے خطے میں موجود نوآبادیاتی علاقے میں غلاموں سے حاصل ہونے والی دولت فرانس کی ایک تہائی بیرونی تجارت کے مساوی تھی اور یہی فرانس کی بے مثالی ترقی کا سب سے اہم عامل تھا۔
یورپی نسلوں سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد اس تاریخ سے بہت حد تک ناواقف ہیں۔ جو افریقیوں کی تاریخ ہے وہ بہت حد تک اِن سفید فام باشندوں کی بھی تاریخ ہے۔
ایک زمانے تک سیاہ فام باشندوں کو غلام بناکر اُن سے شدید غیر انسانی رویوں کے ساتھ کرائی گئی محنت کو غلط تسلیم کرنے کی روایت ہی پیدا نہیں ہوئی۔ اب اس تلخ حقیقت کو تسلیم کیا جارہا ہے۔ ہمارے عہد کے ایک معروف انگریز دانشور Malachy Postlethwayt نے لکھا ہے کہ انگلینڈ کی بھرپور ترقی و خوش حالی میں نمایاں ترین کردار سیاہ فام غلاموں کی محنت نے ادا کیا۔ مغرب کے بہت سے باشندوں کے ذہنوں میں اب بھی تذبذب اور خلفشار پایا جاتا ہے۔ بعض سفید فام مغربی باشندوں کا یہ اعتراض ہے کہ اگر یورپی باشندوں نے افریقیوں کو خرید کر غلام بنایا تھا تو انہیں اُن کے اپنے لوگوں نے بیچا کیوں تھا؟ میں نے اس نکتے پر غور کیا۔ ایسا ہی تھا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپ والوں نے تو اپنے باشندوں کو کبھی غلام کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے فروخت نہیں کیا۔ ایسا نہیں ہے، سفید فام یورپی باشندوں کو بھی غلام کی حیثیت سے فروخت کیا گیا، اور یہ سلسلہ صدیوں چلا۔ کبھی آپ نے لفظ Slavic پر غور کیا ہے؟ میں اس سلسلے میں تجویز پیش کروں گا کہ معروف برطانوی مورخ پیٹر فرینکوپان کی کتاب ’’دی سلک روڈز: اے نیو ہسٹری آف دی ورلڈ‘‘ پڑھیں۔ یورپ میں کئی صدیوں تک کئی معاشرے سفید فام غلاموں کی خرید و فروخت میں مصروف و ملوث رہے۔
کچھ لوگ اس نکتے پر بھی معترض ہیں کہ سیاہ فام غلاموں کے سفید فام تاجروں کے بارے میں تو بہت کچھ لکھا جاتا ہے مگر غلاموں کی تجارت کرنے والے سیاہ فام تاجروں کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی جاتی۔ اور پھر یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ اب یہ گڑا مُردہ کیوں اکھاڑا جارہا ہے۔ کیا کتابیں بیچنے کے لیے؟ یا نسلوں کے درمیان اختلاف و انتشار پھیلانے کے لیے؟ میں نے اپنی کتاب میں یہ بتانے کی بھی کوشش کی ہے کہ افریقا میں رہنے والے افریقیوں کی کوئی واحد نسلی شناخت نہیں تھی۔ جس دنیا میں سبھی سیاہ فام ہوں وہاں سیاہ فام ہونا کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں۔
مزید برآں، جو افریقی باشندے غلاموں کی خرید و فروخت میں ملوث تھے انہیں کچھ بھی اندازہ نہ تھا کہ نئی دنیا میں کیا ہورہا ہے، اور دیگر معاشروں کی طرح افریقی معاشرے بھی اندرونی سطح پر غلاموں کی خرید و فروخت کو ایک عمومی چلن کے طور پر اپنائے ہوئے تھے، اس لیے انہیں کچھ اندازہ نہ تھا کہ یورپ میں چیتل سلیوری نام کا بھی کوئی چلن ہے۔ بیشتر افریقی معاشروں میں غلاموں کو رفتہ رفتہ مالک کے خاندان کا حصہ بنالیا جاتا تھا اور پھر وہ بھول بھال جاتے تھے کہ وہ کبھی غلام تھے۔ وہ اپنے آباء تک کو بھول جاتے تھے۔ یہ بھی کوئی حیرت انگیز بات نہ تھی کہ غلاموں کی اولاد میں سے کوئی قبیلہ و برادری کا سربراہ اور بعض حالات میں ملک کا بادشاہ بھی بن جاتا تھا
یورپی نسل کے لوگ اس تاریخ سے بہت حد تک ناواقف ہیں۔ بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ 1820ء تک بحرِ اوقیانوس میں جتنے باشندے رضا کارانہ طور پر سفر کرتے تھے اُن سے چار گنا زیادہ سیاہ فام غلام امریکہ لائے جاتے تھے۔ عورتوں میں یہ نسبت زیادہ وسیع تھی۔ تاریخ کے ریکارڈ کی بنیاد پر ہمیں سفید فام نسلوں کی تعلیم، تفریحِ طبع، شجاعت، اعلیٰ ظرفی اور دوسرے بہت سے اوصاف کے بارے میں بہت کچھ بتایا جاتا تھا۔ کسی اور نسل کا ذکر تک نہیں ملتا۔
فاکس نیوز کے ٹکر کارلسن نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ شمالی و جنوبی امریکہ کو سفید فام باشندوں نے تعمیر کیا تھا۔ آج ساری دنیا کو یہی بتایا جاتا ہے کہ مغرب دراصل مغربی یورپ اور شمالی امریکہ میں یورپی باشندوں کے آبادی کیے ہوئے علاقوں پر مبنی ہے۔ یاد رکھنا ہے کہ افریقیوں کو کسی بھی حال میں بھلایا نہیں جاسکتا، جن کی محنت نے امریکی نوآبادیوں کو یورپی باشندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ منفعت بخش بنایا اُن کا کوئی ذکر ہی نہیں کررہا۔ انہوں نے نئی دنیا کی دولت کا سب سے بڑا حصہ پیدا کیا۔ ان کی محنت نے یورپی باشندوں کو جسمانی مشقت سے نجات دلائی اور وہ بھرپور تعلیم و تربیت کے ذریعے فطری علوم و فنون کے شعبوں میں کچھ کرنے کے قابل ہوسکے۔ اس کے نتیجے میں یورپی ثقافت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ یہ افریقیوں کی قربانیاں ہی تھیں جنہوں نے مغرب کو فقیدالمثال ترقی سے ہم کنار ہونے کا موقع فراہم کیا۔
افریقی غلاموں نے گنے اور کپاس کی غیر معمولی پیداوار یقینی بناکر صنعتی دور شروع کرنے میں مدد دی۔ پھر یہی محنت بڑے پیمانے کی بینکاری، مالیاتی خدمات اور انشورنس کے اداروں کے قیام کی بنیاد ثابت ہوئی۔ یوں کاروباری نظم و نسق کا وہ دور شروع ہوا جس نے پوری دنیا میں کاروباری اور مالیاتی نظام کو بدل کر رکھ دیا۔ سیاہ فام غلاموں کی پیدا کردہ شکر، کافی، تمباکو اور کپاس نے یورپ کا رہن سہن تبدیل کردیا۔ سترہویں صدی کے دوران یورپ میں کافی ہاؤس عام ہوئے۔ کافی ہاؤس یا کافی شاپس میں لوگوں کے مل بیٹھنے کی گنجائش پیدا ہوئی، اور یوں تبادلۂ خیالات کے ذریعے جمہوریت کی بنیاد پڑی۔ اخبارات کی اشاعت بھی اصلاً کافی شاپس میں مل بیٹھنے والوں کے لیے تھی، اور اخبارات کی اشاعت کا دائرہ وسیع کرنے میں اُنہی لوگوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اِس دوران ہیٹی کے لوگوں نے فرانس سے آزادی کی خاطر جنگ لڑی اور انسان کی پیدائشی آبادی کے تصور کو پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اُن کی اولاد یہ جنگ امریکی سرزمین تک لائی۔ امریکی انقلاب میں انہوں نے آزادی کی جنگ لڑی اور خانہ جنگی جیتنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
جدت اور جدیدت کی ہماری تاریخ میں افریقا اور افریقی ہمیشہ جزوِ لاینفک کے طور پر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ فاتحین ہمیشہ صرف اپنے گُن گاتے ہیں اور دوسروں کے کسی بھی مثبت کردار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہم دنیا کی نظر میں فاتح رہے ہیں اس لیے صرف اپنی بات کرتے ہیں اور افریقیوں کی قربانیوں کو یکسر نظرانداز کردیتے ہیں۔ افریقا جس طور دنیا کے ماضی کے لیے اہم تھا بالکل اُسی طور اِس کے مستقبل کے لیے بھی بہت اہم ہوگا۔ ہم جب تک حقیقت سے رُو گردانی کرتے رہیں گے اور افریقا کے معاملے میں بے حِسی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے تب تک غلطیوں کا اعادہ ہوتا رہے گا اور خرابیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
(ہاورڈ ڈبلیو فرینچ کریئر فارن کارسپونڈنٹ اور عالمی امور کے مصنف ہیں۔ ان کی پانچ کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔)