جماعت اسلامی میں شامل ہونے والے سولنگی برادری کے سردار زبیر خادم حسین سولنگی سے گفتگو
سولنگی برادری کے نوجوان سالار،آل پاکستان سولنگی ویلفیئر ایسوسی ایشن کے سربراہ، 26 سالہ سردار زبیر خادم حسین سولنگی کی رواں برس راجونی اتحاد کے پُروقار اجتماع میں دستار بندی کی گئی۔ ان کے والد سردار خادم حسین سولنگی کا رواں برس انتقال ہوگیا تھا، وہ سرداروں کے سردار یعنی چیف سردار تھے، لیکن مختصر علالت کے بعد دارِ فانی سے کوچ کرگئے تو قبیلے کی سرداری کی ذمے داری زبیر سولنگی کے کاندھوں پر آپڑی۔ 5 اپریل 2021ء کو انہیں حیدرآباد میں قومی شاہراہ سے متصل ایک وسیع پنڈال میں منعقدہ تقریبِ دستار بندی میں نہ صرف قبیلے کی سرداری دی گئی بلکہ مختلف قبائل کا بھی چیف سردار مقرر کردیا گیا۔ ا ن کی دستاربندی کی اس تقریب میں مختلف سیاسی ودینی جماعتوں سے وابستہ شخصیات، قبائلی عمائدین اور ممتاز معزز شخصیات نے شرکت کی۔ دستار بندی کی اس رسم کو ادا کرنے میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سراج الحق کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
سردار زبیر خادم سولنگی کی جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد ہم نے ان کے خیالات جاننے کے لیے ان سے ملاقات کا وقت لیا۔ امیر ضلع جماعت اسلامی حیدرآباد جناب عقیل احمد خان نے ان سے بات کی تو میں نائب امیر ضلع عبدالقیوم شیخ صاحب کے ہمراہ موٹر سائیکل پر اسریٰ یونیورسٹی کے قریب ایک نئی بستی میں قائم ان کی سادہ سی رہائش گاہ پہنچا، جہاں ان کا چھوٹا سا بیٹا جماعت اسلامی کا پرچم اٹھائے گلی میں گھوم رہا تھا اور اللہ اکبر کے نعرے لگا رہا تھا۔ اس ننھے مجاہد سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔
سنتِ نبویؐ سے مزین چہرے پہ عینک سجائے سردار زبیر خادم حسین سولنگی کا جنم 15دسمبر 1995ء کو سکھر میں ہوا۔ وہ والد کے اکلوتے صاحب زادے ہیں۔ انہوں نے جامعہ سندھ سے ماسٹر کیا ہے۔ سردار زبیرسولنگی روایتی وڈیرے یا سردار نہیں ہیں، وہ دوستوں کے دوست، سادگی پسند، مثبت و تعمیری سوچ کے حامل اور دردِ دل رکھنے والے سماجی رہنما ہیں جو غریبوں کی مدد کے لیے متحرک رہتے ہیں۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے محترم سراج الحق صاحب کو دستار بندی کی تقریب میں کیوں مدعو کیا؟
زبیر خادم حسین سولنگی: میں نے اپنے دوستوں سے ان کی بہت تعریف سنی تھی، اور میں سیاسی شخصیات کا مشاہدہ بھی کرتا رہتا ہوں۔ انھی دوستوں کے مشورے سے میں نے محترم سراج الحق کو دستار بندی کی رسم میں مدعو کیا۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ وہ اپنی تمام تر اہم مصروفیات چھوڑ کر تشریف لے آئے، اور وہ بھی مجھے پگ پہنانے والوں میں شامل ہوگئے۔ بعد ازاں ان کے ساتھ ایک مختصر سفر بھی ہوا۔ مجھے ان کی گفتگو میں اخلاص، امت ِ مسلمہ سے والہانہ عقیدت اور پاکستان بھر کے مظلوم عوام سے محبت نظر آئی۔ وہ سندھ کے حالات سے بھی بہت بے چین دکھائی دیئے۔ ان کی خواہش ہے کہ سندھ کے بااثر لوگ آگے آئیں اور قوم کی بلاامتیاز خدمت کرتے ہوئے اسے ظلم کے نظام سے باہر نکالیں، تو میں نے خود کو پیش کرنے کا فیصلہ کیا اورگزشتہ دنوں 7نومبر کو ہم نے شمولیتی جلسہ منعقد کیا جس میں میری دعوت پر سندھ کے مختلف اضلاع سے سولنگی برادری کے سیکڑوں افراد شریک ہوئے۔ محترم سراج الحق اور جماعت اسلامی کے دیگر رہنماؤں اسد اللہ بھٹو ایڈووکیٹ، محمد حسین محنتی و دیگر کا جام شورو ٹول پلازہ پر شاندار استقبال کیا گیا اور انہیں جلوس کی صورت میں جلسہ گاہ تک لائے، جہاں میں نے باضابطہ جماعت اسلامی میں شامل ہونے اور حق کی جدوجہد میں اپنے ہر ممکن تعاون کا اعلان کیا۔
فرائیڈے اسپیشل: جماعت اسلامی میں شمولیت پر کسی قبیلے کی جانب سے اعتراض یا کوئی مخالفت تو نہیں ہوئی ؟
زبیر خادم حسین سولنگی: ہاں ایسا ہوا ہے، لیکن اس میںکوئی شدت نہیں ہے۔ تاہم ہر قبیلہ اپنے سیاسی فیصلے خود کرتا ہے۔ ہمارا اتحاد قوم و خاندان کے امور سے زیادہ ہے۔ خود سولنگی قبیلہ کبھی باضابطہ طور پر کسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوا ہے، لیکن ہم حالات دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمیں آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنا ہے یا کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرنا ہے۔ ہم نے زیادہ تر مسلم لیگ فنکشنل کی حمایت کی ہے، اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا، لیکن اس نے ہمیں ہی نہیں سندھ کے تمام مظلوم اور مسائل سے دوچار عوام کو بہت مایوس کیا ہے، وہ ایک خاندانی جماعت بن گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) بھی ایک فیملی لمیٹڈ پارٹی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں کرپشن میں ڈوب گئی ہیں۔ لیکن اب بھی دوستوں کا خیال تھا کہ ہم کسی بڑی جماعت جیسا کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی وغیرہ میں شامل ہوں، تاکہ اقتدار کے قریب تر ہوجائیں، لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ ہم امانت و دیانت اور خدمت کی طرف جائیں گے۔ جائزہ لیا تو جماعت اسلامی اس معیار پر پوری اترتی ہے۔ وہ فرقے و مسلکی جھگڑوں، لسانی و علاقائی تفریق اور کرپشن سے پاک ایک سادگی پسند جماعت ہے۔ ایک ہی دسترخوان پر سب چھوٹے بڑے مل بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، یہاں امیر و غریب کا کوئی تصور نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کو جماعت اسلامی سے متعلق کیسے معلوم ہوا؟ کیا آپ نے کوئی کتابیں پڑھیں یا کسی کی دعوت پر شامل ہوئے ہیں؟
زبیر خادم حسین سولنگی: میں نے ابھی کوئی کتاب تو نہیں پڑھی ہے، قرآن وسنت سے ہمارا ایک رسمی سا تعلق پہلے سے قائم ہے، لیکن والدِ محترم سے سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں سے متعلق گفتگو ہوتی رہتی تھی، میں خود اس حوالے سے مشاہدہ کرتا رہتا تھا۔ جماعت اسلامی کے لوگوں کے اخلاق و کردار، بلاامتیاز عوامی خدمات اور صلاحیتوں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ جس لٹریچر نے ایسی افراد سازی کی ہے وہ یقیناً انقلابی ہوگا۔ اب میں اِن شاء اللہ تفہیم القرآن، دینیات، خطبات وغیرہ سب پڑھوں گا اور جماعت میں آگے بڑھوں گا۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے دیانت اور کردار کی بہت بات کی ہے، اس حوالے سے کسی سے واسطہ پڑا ہے؟
زبیر خادم حسین سولنگی: جی، بہت سے کارکنوں کو دیکھا ہے، جبکہ محترم سراج الحق صاحب سے تو دوستی ہوگئی ہے۔ وہ دو مرتبہ کے پی کے میں سینئر صوبائی وزیر خزانہ رہے ہیں، ان کی صلاحیتوں اور دیانت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، اور ان کے ساتھیوں کا کردار بھی سب کے سامنے ہے۔ میں نے کراچی کے سابق میئر عبدالستار افغانی کو دیکھا تو نہیں لیکن اُن سے متعلق بھی بہت کچھ سنا ہے۔ وہ دومرتبہ منتخب ہونے والے ایک کامیاب میئر کراچی تھے۔ نعمت اللہ خان صاحب کراچی کے ناظم منتخب ہوئے تو پورے ملک میں ان کے کام کی تعریف ہوتی تھی۔ آج کراچی جو کچھ نظر آرہا ہے اس میں ان کا بنیادی کردار ہے۔ تھرپارکر میں موجود ہماری قوم کے لوگ بتاتے ہیں کہ وہاں نعمت اللہ خان نے کنویں کھدوائے، ہینڈ پمپ لگوائے، اور جہاں الخدمت کے اسکول اور اسپتال چل رہے ہیں ان سے مسلم و غیر مسلم سبھی مستفید ہورہے ہیں۔ الخدمت نے سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی بہت کام کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان دیانت دار اور باصلاحیت لوگوں کو اقتدار ملے تو یہ ملک کو بھی ترقی کے راستے پر ڈال دیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سندھ میں کسی تبدیلی کے امکانات ہیں؟
زبیر خادم حسین سولنگی: جی ہاں، یہ ناممکن نہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سندھ کے عوام کے پاس کوئی مؤثر چوائس نہیں ہے۔ جماعت اسلامی میں یہ صلاحیت ہے۔ اگر جدوجہد اور کوشش کی جائے تو ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ میں ابھی جماعت اسلامی میں شامل ہوا ہوں اور سندھ بھر سے مجھے پیغام مل رہے ہیں۔ اِن شاء اللہ مزید اہم لوگ بھی جلد جماعت اسلامی میں شامل ہوں گے۔ لوگ کرپشن، منافقت اور لوٹ مار کی سیاست سے تنگ آگئے ہیں۔ ہمیں پہلے بلدیاتی انتخابات کی طرف دیکھنا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ بلدیاتی نظام میں بہت تبدیلیوں کی بھی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت ایک ناکام حکومت ہے، بلدیات بھی اس کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس نے خود کام کیا نہ کسی کو کرنے دیا ہے۔ ناظمین کا نظام بہت اچھا تھا، ضلعی حکومتیں کام کررہی تھیں، ہر یونین کونسل نے کچھ نہ کچھ نتیجہ دیا ہے، لیکن سندھ میں موجودہ حکومت نے بلدیات کو بھی تباہ کردیا ہے۔ سندھ میں کوئی ماڈل یونین کمیٹی، شہر اور دیہات نہیں ہے۔ لاڑکانہ تک کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ ہمیں سلگتے ہوئے مسائل پر آگے بڑھ کر بات کرنی چاہیے۔ سندھ میں کتے کے کاٹے کی ویکسین نہیں ملتی، اسپتال و تعلیمی اداروں کے مسائل ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وزیر تعلیم کہہ رہے ہیں کہ سندھ میں 5ہزار اسکول بند کریں گے۔ پہلے یہ بتایا جائے کہ ان اسکولوں کے نام پر فرنیچر و دیگر اخراجات کہاں گئے؟ صحت تباہ، تعلیم تباہ اور بلدیات تباہ… یہ حکومت تو تباہی کا نام ہے۔ اس کی زرعی پالیسی ناکام ہے۔ اگر ٹیل تک پانی نہیں پہنچ رہا ہے تو تین تین مرتبہ اقتدار میں رہنے والوں کو اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا تھا۔ سندھ میں منشیات کے پھیلاؤ،تھانہ کلچر اور انصاف میں تاخیر سے عوام بے حد پریشان ہیں۔ غیر معمولی مہنگائی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار اضافہ، بجلی وگیس کی لوڈشیڈنگ اور اس طرح کے دیگر مسائل نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ وفاقی وصوبائی حکومتیں عوام کو کچھ دینا تو دور کی بات، وہ منہ کا نوالہ بھی چھین رہی ہیں۔ تبدیلی کے نام پر قوم کو دھوکا ملا ہے۔