(قبائل اور برادری کے مابین مصالحتی فیصلے) خونِ ناحق کو رائیگاں کر ڈالتے ہیں

کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر بروز ہفتہ 20 نومبر 2021ء کو کالم نگار منیر میمن نے اپنے کالم میں سندھ کو درپیش ایک اہم اور سنگین مسئلے کے بارے میں جو خامہ فرسائی کی ہے، اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
……٭٭٭……
’’سپریم کورٹ آف پاکستان میں دو روز قبل حیدرآباد کے اُس غریب محنت کش کے قتل کیس میں نامزد چار ملزمان کی ضمانت کی درخواست کی سماعت ہوئی جسے شادی ہال میں رات گئے دیر سے پلیٹیں نہ دھونے کی معمولی بات پر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ یہ شادی کی تقریب بااثر افراد کی تھی۔ غریب محنت کش کا جرم محض اتنا تھا کہ اس نے کہا تھا ’’رات کے بارہ بج چکے ہیں اور اب شادی ہال اور اس کی ڈیوٹی کا وقت ختم ہوچکا ہے، اس لیے میں اب اپنے گھر جارہا ہوں، مزید برتن صاف نہیں کرسکتا‘‘۔ اس انکار نے گویا بااثر افراد کو برہم کرڈالا اور سیکڑوں افراد کے ہجوم کے سامنے اسے بڑی بے رحمی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی۔ ملک کی اعلیٰ عدالت نے ان چاروں ملزمان کی ضمانت کی درخواست خارج کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہاکہ ’’کیا بااثر افراد کو لوگوں کے قتل کی اجازت ملی ہوئی ہے؟ کہ وہ جسے چاہتے ہیں قتل کر ڈالتے ہیں‘‘۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ’’یہاں پر تو ویڈیو بنانے پر بھی لوگوں کو قتل کردیا جاتا ہے‘‘۔ بہرحال یہ تو حیدرآباد کا صرف ایک واقع تھا جو امسال ماہ جون میں پیش آیا تھا، لیکن ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں ایسے سیکڑوں کیس آچکے ہیں جن میں نامزد ملزمان بااثر ہونے کی وجہ سے تھوڑے سے وقت کے اندر روایتی طریقے استعمال کرتے ہوئے خود کو بری کرانے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ ہمارا انصاف کا نظام زیادہ مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے مظلوم در در کے دھکے کھاکر آخرکار تھک جاتے ہیں، انصاف انہیں پھر بھی نہیں ملتا۔
سماج کو اندر ہی اندر سے دیمک کی طرح کھاکر کھوکھلا کردینے والا یہ بدبودار جاگیردارانہ اور سرداری نظام اس قدر مضبوط ہوچکا ہے کہ اگر اس کے سامنے کوئی ہمت اور جرأت کرکے بند باندھنے کی کوشش بھی کرے تو اسے اس کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اس جاگیردارانہ نظام کے خلاف بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور بہت سارے احتجاج بھی ہوچکے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس نظام کو تاحال کسی قسم کا کوئی ضرر نہیں پہنچ سکا ہے۔ ہمارے ہاں کا ریاستی نظام بھی اس قدر خارج المیعاد ہوچکا ہے کہ بااثر حلقے ریاستی عمل داری کو کوئی اہمیت دینے کے لیے ہی تیار نہیں ہوتے۔ اس لیے یہ ’’راجونی نظام‘‘ (یعنی قبائل اور برادریوں کے مابین کرائے جانے والے مصالحتی فیصلے، مترجم) کسی بھی واقعے کے بعد تیزی سے اس طرح حرکت میں آجاتا ہے، گویا یہ اس ریاست کا ہی نظام ہو۔ غریب اور مظلوم افراد دور دور تک انصاف نظر نہ آنے کی بنا پر بالآخر اس نام نہاد ’’راجونی نظام‘‘ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کسی مظلوم کی قبر کی مٹی ابھی خشک بھی نہیں ہوپاتی کہ اس کے خون کا جرگہ کردیا جاتا ہے۔ جب ناظم جوکھیو کے قتل کا واقعہ پیش آیا تو سارا سندھ ان بھوتاروں اور سرداروں کے خلاف ایک مضبوط اور طاقتور آواز بن کر سامنے آیا، اور تب لحظہ بھر کے لیے یہ گمان ہونے لگا کہ گویا بھوتاری نظام کے خلاف ایک نوع کا ریفرنڈم آگیا ہے، جس کے توسط سے بھوتاروں اور سرداروں کو یہ کہا گیا ہے کہ بس بہت ہوچکا، اب آپ کا مزید ظلم برداشت نہیں ہوگا۔ یہ سندھ کے اس اجتماعی شعور اور مزاحمت ہی کا نتیجہ تھاکہ مذکورہ واقعے میں ملوث اس بااثر ایم پی اے اور سردار کو آخرکار خود کو قانون کے سامنے پیش کرنا پڑا۔ مظلوم بیوہ کو انصاف دلانے کے لیے معاشرے کے باشعور افراد اور قانون دان سامنے آئے۔ سیاسی سماجی جماعتیں، قوم پرست، صحافی، وکیل، عام شہری… مطلب یہ کہ سندھ کا ہر شہری شہید کے گھر پہنچا۔ اس لمحے شہید کی بیوہ کو قدرے اطمینان ہوا کہ سب اس کے ساتھ ہیں اور اب اس کے بہادر شوہر کا خونِ ناحق رائیگاں نہیں ہوسکے گا۔ کیس چلنا شروع ہوا۔ گواہان کے بیانات سامنے آتے گئے اور مزید ملزمان بھی کیس میں شامل ہوتے گئے۔ کیس کے ثبوت بھی آہستہ آہستہ سامنے آتے گئے۔ تمام تر معاملہ بھی کھل کر سامنے آگیا۔ ناظم جوکھیو کی بیوہ نے بغرضِ تعزیت اور دل جوئی اپنے ہاں آنے والے ہر فرد کے سامنے اپنا یہ عزم دہرایا کہ ’’خواہ کچھ بھی ہوجائے، میں قاتلوں کوسزا دلانے کے لیے تادم آخر جنگ کروں گی‘‘۔ اگرچہ شہید کی بیوہ شیریں جوکھیو کو بارہا ڈرایا دھمکایا بھی گیا، لیکن اُس کا عزم اس کے باوجود اور زیادہ مضبوط ہوا ہے۔ اس کے بہ قول ’’میں اپنے شوہر کی قبر پر یہ عہد کرکے آئی ہوں کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے میں پیچھے ہٹنے والی نہیں ہوں‘‘۔ قاتلوں سے مقابلہ کرنے والی سندھ کی اس بہادر بیٹی کے ہر وقت بہنے والے آنسو اور عزم بتاتا ہے کہ وہ ان بھوتاروں اور سرداروں کے خلاف جنگ میں چین سے بیٹھنے والی نہیں ہے۔ اگرچہ ناظم کا بھائی اور کیس کا مدعی ایک ملزم جام کریم کو بے گناہ قرار دے چکا ہے، لیکن ناظم کی ماں اور بیوہ نے ان بھوتاروں کے ساتھ مصالحت کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ناظم کے بھائی نے عدالت میں 164 کا جو بیان دیا ہے، اس میں اُس نے سارا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جس طرح سے ایف آئی آر میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ اُس نے کہا ہے کہ اس کے بھائی کو عرب شکاریوں کی ویڈیو ریکارڈ کرنے پر کس طرح سے سرداروں نے بے دردی کے ساتھ قتل کردیا ہے، لیکن آخر میں اس نے ایک سردار کو کلین چٹ بھی دی ہے۔ اس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس کے بھائی ناظم نے موبائل فون پر ویڈیو ریکارڈ کی تو بااثر افراد نے بھائی کو پکڑ کر طمانچہ رسید کیا جس کی وجہ سے موبائل فون دھکم پیل میں نیچے گر گیا۔ ناظم نے انہیں منع کیا کہ یہاں پر شکار نہیں ہوتا لیکن وہ پھر بھی باز نہیں آئے، پھر وہ افراد وہاں سے چلے گئے۔ ناظم نے اس واقعے کے بعد پولیس ایمرجنسی نمبر پر بھی کال کی۔ ناظم کے بھائی کے مطابق 2 نومبر کو اسی دن رات کو 8 بجے کے لگ بھگ ایک ملزم جمال نے فون کرکے کہاکہ ’’یہ ویڈیو ختم کردو‘‘۔ بعد میں نیاز نے سردار گہرام عرف جام اویس بجار سے فون پر بات کروائی۔ مدعی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جام اویس نے برا بھلا کہتے ہوئے کہا کہ بھائی ناظم کو پیش کرو۔ جام ہائوس گئے تو جام کریم کے اشارے پر وہاں موجود گارڈز نے ناظم پر تشدد کرنا شروع کردیا۔ ناظم سے کہا گیاکہ وہ عرب شکاریوں سے معافی مانگے، لیکن ناظم نے انکار کردیا۔ ناظم کا فون عبدالکریم کے پاس تھا، اس نے پرندوں کا شکارکرنے والے عرب شکاریوں کی ویڈیو ڈیلیٹ کردی۔ رات تقریباً 3 بجے جام عبدالکریم نے بھائی کا موبائل فون واپس دیا اور کہاکہ اب تم چلے جائو لیکن ناظم یہیں پر رہے گا۔ اس دوران میں ناظم کو گارڈز کے کمرے میں بند کردیا گیا۔ ایک گارڈ نے کہاکہ وہ موبائل واپس دو، جام اویس کو دینا ہے۔ مجھے گاڑی میں نیاز گھر چھوڑ گیا۔ ناظم کے بھائی نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ صبح کو جام ہائوس پہنچنے پر اسے یہ بتایا گیا کہ اس کا بھائی ناظم مرچکا ہے۔ یہ سن کر ہم وہاں سے چلے آئے، واپس آکر میں نے سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ لکھی کہ میرے بھائی کو جام اویس بجار نے قتل کر ڈالا ہے۔
ناظم کے بھائی نے یہ بیان جمعرات کے روز عدالت کے سامنے دیا ہے۔ اس بیان میں اہم بات یہ ہے کہ مدعی نے ملزم عبدالکریم کو کلین چٹ دی ہے۔ واقعے کے تفصیلی ذکر کے بعد افضل جوکھیو نے بیان کے آخر میں کہا ہے کہ اُس وقت جام کریم نے مجھے حلفاً یہ کہا ہے کہ ناظم کے قتل سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ جام اویس اور دیگر ملوث ہیں۔ جام عبدالکریم کا نام اس کیس سے نکالا جائے۔ جام عبدالکریم اس کیس میں ملوث نہیں ہے۔ عدالت میں یہ بیان دینے کے بعد مدعیوں کے وکیل محمد خان شیخ نے بھی سماعت درمیان ہی میں چھوڑ دی اور وہاں سے چلے گئے۔
ناظم جوکھیو کے بھائی کے مذکورہ بیان کے بعد اب یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ دیگر خونوں (قتلوں) کی طرح یہ خون بھی کہیں رائیگاں نہ چلا جائے، بلکہ ناظم کی ماں نے جو بیان دیا ہے اُس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ خونی بھوتار شاید اتنی آسانی سے اپنی جان نہیں چھڑوا سکیں گے۔ ناظم کی ماں کا کہنا ہے کہ کیس میں مدعی بیٹے افضل کو دھمکیاں اور لالچ دے کر بیان سے منحرف کیا گیا ہے۔ لیکن میں یہ واضح کرتی ہوں کہ ایسے کسی بھی فیصلے کو تسلیم نہیں کروں گی۔ ہمیں پیسے نہیں بلکہ انصاف درکار ہے، نیز یہ کہ حصولِ انصاف کے لیے وہ خود عدالت جائیں گی اور ناظم جوکھیو کی اہلیہ شیریں جوکھیو یہ کیس حصولِ کامیابی تک لڑتی رہیں گی۔ بیٹے کے خون پر کوئی بھی سودے بازی کسی صورت میں ہرگز نہیں کی جائے گی، نہ ہی کسی سردار کے میڑھ منت (منت سماجت) کو قبول کریں گے۔
ناظم جوکھیو کا بھائی بھلے سے اپنے سابقہ بیان سے منحرف ہوجائے لیکن ناطم کی عمر رسیدہ والدہ اور بیوہ کے بیانات بھی اپنی جگہ پر بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ اعلیٰ عدالتیں اس معاملے کا ازخود نوٹس لیں اور مدعی سے یہ پوچھیں کہ اس نے ایسا بیان کس کے دبائو اور لالچ میں آکر دیا ہے۔ اگر اعلیٰ عدالتیں اس سارے قضیے کو کھولیں اور شفاف طریقے سے اس کی تحقیقات کروا سکیں تو اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ یہ بھوتار اور زیادہ سخت گرفت میں آجائیں، کیوں کہ اس قسم کے کیس پہلے بھی ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں آئے ہیں جہاں پر کئی مرتبہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کس طرح سے مدعیان پر دبائو ڈال کر اور انہیں ڈرا دھمکا کر کیس سے دست بردار کرادیا جاتا ہے۔ کراچی میں کچھ عرصہ پیشتر قتل ہونے والے شاہ زیب کے کیس کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس میں بااثر افراد کی جانب سے مدعی سے ’’راجونی‘‘ کی طرز پر مصالحت کرنے کے باوجود معاملہ تاحال عدالت میں ہے اور قاتلوں کی گلوخلاصی مکمل طور پر نہیں ہوسکی ہے۔‘‘