انتخابی اصلاحات کے قانون کی منظوری

کیا شفاف انتخابات ممکن ہوسکیں گے؟

بدقسمتی سے پاکستان میں تمام انتخابات مختلف الزامات کی بنیاد پر متنازع رہے ہیں۔ ایک مسئلہ تو یقینی طور پر انتخابی شفافیت کا ہوسکتا ہے، مگر دوسرا مسئلہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو قبول نہ کرنا اور انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی سیاسی روش کا بھی ہے۔ جو بھی جماعت انتخاب جیت کر اقتدار حاصل کرتی ہے اُس کے نزدیک انتخابات شفاف، اور جو جماعت شکست کھاتی ہے وہ منظم انتخابی دھاندلی کو بنیاد بناکر نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ اگرچہ مختلف ادوار میں انتخابی اصلاحات کرنے کی کوشش کی گئی مگر مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔

حالیہ قومی سیاست میں جو بنیادی نکتہ اہلِ دانش، سیاسی اور میڈیا کے محاذ پر زیادہ زیربحث ہے اس میں 2023ء کے انتخابات کی شفافیت کا بھی سوال ہے۔ کیونکہ 2014ء میں تمام سیاسی و پارلیمانی جماعتوں پر مشتمل جو 35رکنی کمیٹی قائم کی گئی اور اس کے نتیجے میں عملاً جو تجاویز سامنے آئیں، یا 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے سیاسی نعرے کی بنیاد پر بننے والے جوڈیشل کمیشن کی انتخابی بے ضابطگیوں پر 42 نکات پر مبنی تجاویز الیکشن کمیشن کے تناظر میں سامنے آئی تھیں وہ بھی 2018ء میں شفاف انتخابات کو ممکن نہیں بناسکیں۔ اسی بنیاد پر جو حالیہ انتخابی اصلاحات ایکٹ 2021 پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور ہوا ہے اُس میں دو اہم نکات شامل ہوئے ہیں۔ اوّل: الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال، اور دوئم: دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق۔ اس بل کی عملی منظوری پر حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان بداعتمادی کا ماحول دیکھنے کو ملا۔ بہتر ہوتا کہ یہ قانون سازی حکومت اور حزبِ اختلاف کے باہمی تعاون اور مشاورت سے ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا، جس کی وجہ سے یقینی طور پر آنے والے دنوں میں حکومت اور حزبِ اختلاف میں محاذ آرائی میں شدت دیکھنے کو ملے گی۔
مسئلہ محض حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا ہی نہیں، بلکہ الیکشن کمیشن اور حکومت بھی ان ترامیم بالخصوص الیکٹرانک ووٹنگ کے معاملے پر تقسیم نظر آتے ہیں۔ یہی رویہ میڈیا کے محاذ پر بھی دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں اس بل کی منظوری کی حمایت اورمخالفت میں شدت سے بیان بازی جاری ہے۔ الیکشن کمیشن کے بقول الیکٹرانک ووٹنگ پر عمل درآمد کے لیے 14مراحل طے کرنے ہوں گے، اور اس میں انٹرنیٹ کی سہولت سمیت مشینوں کی خریداری، عملے کی تربیت اور تجرباتی عمل نہ ہونے کی وجہ سے عمل درآمد کے نظام اور اس پر حتمی بات کرنا، یا اس کو یقینی بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے الیکٹرانک ووٹنگ اور دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حق کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ اس کے خلاف عدالتوں میں جانے کا بھی اعلان کردیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف نے تو اس نئے نظام کے تحت اگلے انتخابات کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا مسئلہ ہو یا دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق… اس پر بحث دوچار روز سے نہیں ہورہی تھی، بلکہ پچھلے ایک برس سے انتخابی اصلاحات کے تناظر میں یہ دونوں نکات قومی سیاست میں زیربحث تھے۔ لیکن بدقسمتی سے نئے انتخابات 2023ء کو کیسے شفاف بنایا جاسکے گا اورجو ترامیم حکومت پیش کرنا چاہتی تھی اس پر حزبِ اختلاف کی کسی جماعت یا خود الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی متبادل تجاویز سامنے نہیں آئیں اورنہ ہی اس پر کوئی مسودہ دیکھا جاسکا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں انتخابی اصلاحات جدیدیت کی بنیاد پر نہیں کرنیں اور روایتی انتخابی سیاست پر ہی زور دینا ہے تو پھر اس بات کی کیا ضمانت ہوسکتی ہے کہ ہم عملاً 2023ء کے انتخابات کی شفافیت کو یقینی بناسکیں گے؟ الیکشن کمیشن کے سامنے مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے تجویز کیا تھا کہ تجرباتی طور پر این اے 133لاہورکے ضمنی انتخاب اور پنجاب و خیبر پختون خوا میں ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں کچھ فیصد انتخاب اس نئی الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر کرکے تجربہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے اس تجویز کو یکسر مسترد کردیا۔
الیکشن کمیشن کے پاس کیا ایسی جادوئی چھڑی ہے کہ وہ 2023ء کے انتخابات کو شفاف بنالے گا؟ اسی طرح الیکشن کمیشن کا کام شفاف انتخابات کا انعقاد کرنا ہوتا ہے، جبکہ قانون سازی یا پالیسی سازی حکومت، حزب اختلاف اور پارلیمنٹ کے فورم سے ہی ہوسکتی ہے، اور اس قانون پر عمل درآمد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بالخصوص ڈسکہ انتخاب کی رپورٹ کے بعد تو یہ زیادہ ضروری ہوگیا تھا کہ ہم انتخابات کے انعقاد کے معاملات پر غیر معمولی اور Out of Box جاکر کچھ بڑے فیصلے کریں تاکہ 2023ء کے انتخابات کو ہر صورت شفاف بنایا جاسکے۔ بدقسمتی سے حکومت اور الیکشن کمیشن کا ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے بازی کا رجحان کسی بھی لحاظ سے ملکی مفاد میں نہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بغیر کسی تمہید کے اپنے طرزعمل پر الیکشن کمیشن سے معافی مانگی، اور امید ہے کہ وفاقی وزیر، اعظم سواتی بھی یہی طرزِعمل اختیار کریں گے۔ لیکن خود الیکشن کمیشن کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کیوں حکومت کے مقابلے میں کھڑا ہوکر خود کو فریق بنارہا ہے!
بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے پر تو تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہے، صرف طریقہ کار پر اختلاف ہے، تو اس سلسلے میں مزید بات چیت ہوسکتی ہے۔ اصل میں حزبِ اختلاف کو لگتا ہے کہ براہِ راست دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا بڑا سیاسی فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا، اور اسی بنیاد پر اس کی مخالفت بھی کی جارہی ہے۔ حکومت اور حزبِ
اختلاف میں بات چیت کا دروازہ بند نہیں ہونا چاہیے، اور بہت سے امور پر بات چیت کی مدد سے ان اصلاحات کے طریقہ کار کو سب کے لیے قابلِ قبول بنایا جاسکتا ہے۔ سب کو احساس ہے کہ یہاں انتخابات میں دھونس، دھاندلی، خوف، دبائو، پیسہ، زبردستی، شناختی کارڈ اکٹھے کرکے خود ووٹ ڈالنا، مُردو ں کے ووٹ، انتخابی فہرستوںمیں موجود غلطیاں، انتخابی عملے کے ساتھ سازباز کرکے نتائج کو تبدیل کرنا، غلط ووٹ ڈالنا سمیت پسِ پردہ قوتوں کی مداخلت جیسی بہت سی خرابیاں موجود ہیں۔ ان کی روشنی میں شفاف انتخابات ناممکن ہیں، اس لیے انتخابات میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔وہ لوگ جو روایتی سیاسی ہتھکنڈوں کی مدد سے انتخاب چراتے ہیں وہ پرانے طریقہ کار کو اپنے حق میں سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد پر مخالفت کی جارہی ہے۔ یاد رکھیں انتخابات الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کو کروانے ہیں، اس کا موجودہ حکومت سے تعلق نہیں۔ ویسے بھی دنیا انتخابی اصلاحات میں جدیدٹیکنالوجی کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہے اورہمیں آج نہیں تو کل یقینی طور پر الیکٹرانک ووٹنگ پر جانا ہوگا، کیونکہ یہ دور عالمی سطح پر ڈیجیٹلائزیشن کا ہے، اور اس سے انکار کرکے ہم اپنے نظام کو شفاف نہیں بناسکتے۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا2023ء کے انتخابات ان نئی اصلاحات کی بنیاد پر ممکن ہوسکیں گے؟ کیونکہ اس میں ابھی بہت کچھ سیاسی اور انتظامی و قانونی بنیادوں پر ہونا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب حکومت، حزب اختلاف اور الیکشن کمیشن میں نہ صرف اعتماد کا ماحول بحال ہو، بلکہ ان تمام اصلاحات کے حوالے سے جو بھی معاملات ہیں ان کو فوری اور بروقت مکمل کیا جائے، نہ کہ ہم محاذ آرائی کی سیاست میںالجھ جائیں۔ کیونکہ ڈر ہے کہ اگر پرانے طریقہ کار پر انتخابات پر ضد برقرار رہی تو پھر 2023ء کے انتخابی نتائج کو کوئی قبول نہیں کرے گا اور پاکستانی سیاست انتخابی دھاندلی کے عمل سے باہر نہیں نکل سکے گی۔ انتخابی دھاندلی کا کھیل تماشا اب ختم ہونا چاہیے، اور اس کا واحد طریقہ دنیا میں ہونے والی جدید اصلاحات کی مدد سے اپنے انتخابی نظام کو شفاف بنانا ہے۔