کراچی مسائل کی آماجگاہ ہے۔ یہاں آلودگی کا مسئلہ ہے، ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں کراچی چھٹے نمبر پر ہے۔ کراچی کا 95 فیصد پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں ہے۔ عوام کے لیے تفریحی پارک اور کھیل کے میدان موجود نہیں ہیں۔ یہاں ٹرانسپورٹ کے مسائل ہیں اور یہ عروس البلاد جدید اور ترقی یافتہ کہلانے کے بجائے چنگ چی کا شہر بن چکا ہے، انفرا اسٹرکچر تباہ ہےٍ سیوریج کا نظام ناکارہ ہےٍ اسی طرح یہاں صحت کے شعبے کے بڑے مسائل ہیں جن کی وجہ سے لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔
جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک اور گزشتہ ماہ ہونے والی ’’ری بلڈ کراچی کانفرنس‘‘ کے سلسلے میں شہریوں کو درپیش سنگین و گمبھیر مسائل کو اُجاگر کرنے، ان کے حل، اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو متوجہ کرنے کے لیے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کے سیشن مرحلہ وار پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی پس منظر میں ”صحت کی صورت حال، چیلنجز اور مسائل کا حل‘‘ کے زیر عنوان مقامی ہوٹل میں پینل ڈسکشن منعقد ہوا، جس سے معروف نیورولوجسٹ ڈاکٹر واسع شاکر، معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی، معروف گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر راحت قریشی، انڈس ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر سیموئیل اشرف، سابق وائس چانسلر جے ایس ایم یو پروفیسر ڈاکٹر طارق رفیع، الخدمت کی نائلہ طارق، چلڈرن ہسپتال کے ڈاکٹر ثاقب انصاری، معروف ماہرِ دماغ و اعصاب ڈاکٹر عبدالمالک، ڈاکٹر عبداللہ متقی، اویس ربانی، اشرف ملک، ڈاکٹر عذرا جمیل، اعجاز جدون، سینئر صحافی وقار بھٹی اور دیگر نے خطاب کیا۔ اس پروگرام میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ کراچی کے تین کروڑ سے زائد عوام کی صحت کے لیے حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں، سندھ حکومت سیاسی وابستگی کی بنیاد پر بھرتیوں میں مصروف ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر معاشرے میں اخلاقی قدریں پروان چڑھیں اور اللہ پر توکل ہو تو بہت ساری بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عوام کے ٹیکسوں سے ہی یہ وسائل فراہم کرتی ہے، مگر وہ اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتی، آج ہر شعبے میں مافیاز سرگرم ہیں، عوام کو صحت کے وسائل فراہم کرنے پر وفاقی حکومت تیار ہے نہ صوبائی حکومت۔ سندھ حکومت این جی اوز کے پیچھے چھپ رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ این جی اوز حکومت کا کام نہیں کرسکتیں۔ حکومت کرپشن کرتی ہے جبکہ این جی اوز اپنا کام کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو حقوق دلوانے کے لیے سیاسی مہم چلائی جائے، عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا جائے۔ ہر شعبے کی ری بلڈ کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ہر شعبے کے ماہرین موجود ہیں، سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں بھی ہمارے ماہرین نے اپنے فرائض بہ حسن و خوبی سر انجام دیئے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی نرسری لوکل باڈیز اور طلبہ یونین کے انتخابات ہیں، مگر حکومت جمہوریت کی نرسریوں پر پابندیاں عائد کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی قبضہ مافیا کے پیچھے نہیں چل سکتا، عوام باشعور ہیں، خوف زدہ سیاسی عناصر اسی خوف سے اداروں پر قبضہ کرتے ہیں۔ 51سال سے کراچی میں ایک جنرل ہسپتال عوام کو نہیں دیا گیا، 173ارب روپے کے بجٹ میں سندھ حکومت تعمیری کام کرنے کے بجائے بغیر میرٹ کے نوکریاں بانٹ رہی ہے، نااہل افراد کو کرپشن کے لیے تیار کیا جارہا ہے، شہر میں تعصب کی سیاست اور اس بنیاد پر بھرتیاں سراسر ظلم و زیادتی ہے، کراچی کے شہریوں کے ساتھ تعصب برتا جارہا ہے۔ تعلیم، صحت اور بلدیاتی اداروں میں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر بھرتیاں کی جارہی ہیں۔ اس تعصب کے خلاف مشترکہ آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہیلتھ کے حوالے سے چارٹر بنائیں گے اور اسے اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب گیس، پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہو تو عوام پر اس کے کیا ذہنی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں، حکمرانوں کو اس کا قطعاً کوئی اندازہ نہیں ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں جھوٹ کی بنیاد پر چل رہی ہیں، عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لیے بیدار ہونا ہوگا۔ جس دن عوام جماعت اسلامی کو مینڈیٹ دیں گے عوام کی تقدیر بدل جائے گی۔
ڈاکٹر راحت قریشی نے کہا کہ لوگوں کے پاس صحت کے حوالے سے آگاہی نہیں ہے، انہیں نہیں پتا کہ صحت کا کوئی مسئلہ ہو تو کہاں جانا ہے۔ ڈاکٹر حکیم جوکھیو نے کہا کہ ہمارا صحت کا سسٹم زبوں حالی کا شکار ہے، پبلک ہیلتھ کے حوالے سے اَن گنت مسائل ہیں۔ ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہا کہ صحت متاثر ہو تو اس کا اثر پورے جسم پر پڑتا ہے۔ کیلا، لوبیا اور دہی سے سیروٹونن بنتے ہیں جس سے ڈپریشن نہیں ہوتا۔ موڈ کا براہِ راست تعلق فوڈ سے ہے۔ ہمیں یہ پتا ہی نہیں کہ کراچی میں کتنے نفسیاتی مریض ہیں، ایک جامع سروے ہونا چاہیے، صحت کا تعلق ہمارے رویّے سے بھی ہے، جناح ہسپتال میں 690مریض آتے ہیں مگر اس تناسب سے ڈاکٹر موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرتی بیماریاں مسلسل بڑھ رہی ہیں، اگر ہم اپنا کام عبادت سمجھ کر کریں تو کئی معاشرتی مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔ ہمارا صحت کا شعبہ 9بجے سے5بجے تک آپریٹ ہورہا ہے، اس کے بعد ایمرجنسی ہوتی ہے تو عوام کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحت کے حوالے سے کئی مسائل نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں۔ صحت مند معاشرے کے لیے حکومت، سول سوسائٹی، این جی اوز اور صحافیوں کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ کراچی کو گزشتہ 30سال سے نظرانداز کیا جارہا ہے، ایسی صورت حال میں جماعت اسلامی کی ری بلڈ کراچی مہم قابلِ تعریف ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی10فیصد آبادی دماغی امراض کا شکار ہے، آبادی کے ایک فیصد افراد کو مرگی لاحق ہے، روزانہ 70سے 100 لوگ کراچی میں فالج کا شکار ہوجاتے ہیں، ریاست کا بنیادی کام صحت کی سہولیات فراہم کرنا ہے، کراچی میں 8 سرکاری ہسپتال ہیں مگر کہیں بھی اسٹیٹ آف دی آرٹ صورت حال نہیں ہے، نہ ہی ذہنی علاج ہورہا ہے۔ میرٹ کی بنیاد پر ملازمت نہ ملنا بھی نوجوانوں میں ذہنی امراض کو فروغ دے رہا ہے۔ عاصم بشیر نے کہا کہ صحت کے مسائل کا گہرا تعلق غذائوں سے ہے، بدقسمتی سے فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے خاصے مسائل ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں فوڈ کے حوالے سے سرٹیفکیٹ جاری کیے جاتے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں غذائوں کا معیار چیک نہیں کیا جارہا ہے، فوڈ کوالٹی اور مانیٹرنگ کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہورہا ہے۔ عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اچھی صحت کے لیے ذہنی اور نفسیاتی صحت بھی ناگزیر ہے۔
ڈاکٹر سیموئیل اشرف نے صحت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کا کینسر بھی اب عام ہوتا جارہا ہے۔ کینسر کا فوڈ کوالٹی سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ کینسر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا علاج مریض کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے، اس کے علاوہ ہمارے پاس ریڈیو تھراپی کی اتنی مشینیں نہیں ہیں جتنے مریض ہیں۔ ریاست نہ صحت کی پالیسی بناتی ہے، نہ وسائل فراہم کرتی ہے، اور نہ اس کے اندر عزم ہے کہ صحت کے مسائل حل ہوں۔ اچھی حکومت کے قیام سے ہی صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ ملک میں صحت کے حوالے سے این جی اوز کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ ایس آئی یو ٹی، انڈس، اور الخدمت کی سرگرمیاں قابلِ فخر ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام این جی اوز مل کر کام کریں۔ اچھے اور تربیت یافتہ ہیومن ریسورس کی ملک میں کمی ہے۔ محمد وقار بھٹی نے کہا کہ حکومت کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے بھی صحت کے شعبوں کو نظرانداز کیا ہے۔ شہر میں ہیلتھ کا انفرا اسٹرکچر تباہ حال ہے، صحت کے مسائل کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر نائلہ طارق نے کہا کہ ہمارے یہاں اسٹینڈرڈ کی کوئی پالیسی نہیں ہے، کہیں کووڈ کا ٹیسٹ ہزار روپے میں ہورہا ہے، کہیں کوئی دس ہزار میں کررہا ہے، ڈائیگنوسٹک کے شعبے میں کوالٹی کا فقدان ہے۔ اشرف ملک نے کہا کہ یہ بات تو طے ہے کہ صحت حکومت کی ذمہ داری ہے، پاکستان میں ہر سال پچاس ہزار سے ایک لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنی بیماریوں کا علاج اپنی جیب سے کراتے ہیں، صحت کی مد میں حکومت خرچ کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ صوبے کی صورت حال وفاق سے بھی بدتر ہے۔ صحت کے نظام کی بہتری کے لیے پرائمری ہیلتھ کیئر سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عذرا جمیل نے کہا کہ ملک میں اتائیت بھی فروغ پارہی ہے، صحت کے شعبے کی بہتری کے لیے مڈوائف سسٹم کو مضبوط بنانا ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹر طارق رفیع نے کہا کہ بنیادی چیلنج یہ ہے کہ ہمارے پاس عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے وسائل نہیں۔ علاج کا آغاز ہی پریوینشن سے ہوتا ہے، جو کہ نہیں ہورہی ہے، جس کی وجہ سے مرض اور مریضوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اگر ہم پریوینشن پر توجہ دیں گے تو آدھی بیماری ایسے ہی ختم ہوجائے گی۔ ہمارے پاس اس وقت جو وسائل ہیں وہ انڈر پریشر ہیں۔ کراچی میں 4 ہزار ڈاکٹر بنتے ہیں، 50 فیصد بچیاں عملی زندگی میں پریکٹس نہیں کرتیں۔ صحت کے پالیسی ساز وہ ہیں جن کو معلوم ہی نہیں کہ صحت کے مسائل کیا ہیں؟ صحت کے مسائل کے حل کے لیے حکومت کے پاس سیاسی آمادگی نہیں ہے۔ ڈاکٹر ثاقب انصاری نے کہا کہ ہم گزشتہ 20سال سے تھیلے سیمیا پریوینشن پر کام کررہے ہیں، ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تھیلے سیمیا کے مریض بچوں میں اضافہ ہورہا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں ہر سال 5سے 6ہزار بچے تھیلے سیمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہورہے ہیں، شادی سے قبل تھیلے سیمیا کا ٹیسٹ کراکے ہی اس مرض کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر منہاج قدوائی نے کہا کہ 2011ء میں صحت کا شعبہ صوبوں کے حوالے کردیا گیا مگر ہیلتھ ورک کو اس حوالے سے ٹرینڈ نہیں کیا گیا۔ کراچی کے ہیلتھ اور ایجوکیشن کے مسائل کے حل کے لیے کور کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کے تحت ”صحت کی صورت حال، چیلنجز اور مسائل کا حل“ پینل ڈسکشن کسی سیاسی جماعت کی طرف سے کراچی میں صحت کی صورت حال پر منفرد پروگرام تھا۔ حکومت کو چاہیے کہ ماہرین کی رائے اور مشوروں کی روشنی میں کراچی میں صحت و علاج معالجے کی صورت ِحال کو بہتر کرے۔