سیاسی طبل جنگ؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نافذالعمل دستور کا مطالعہ کیا جائے تو ریاست کے بنیادی پتھر پر یہ الفاظ کندہ ملتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اُس کی مقررکردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے۔ اب یہ الفاظ ذہن میں رکھ کر پاکستان کی سیاسی تاریخ اور مختلف ادوار میں آئین میں کی جانے والی ترامیم اور قانون سازی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک و قوم کے مفاد کے نام پر جمہور کو ٹکٹکی سے باندھ کر قانون سازی کی جاتی رہی ہے۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد 1973ء میں دستور بنایا گیا تو اسے نافذ کرتے ہی انسانی حقوق کی شقیں معطل کردی گئیں۔ دستور میں لکھا ہے کہ آئین شکنی غداری کے مترادف ہے، مگر جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف کی آئین شکنی کو منتخب پارلیمنٹ نے ہی آئین کی8 ویں اور 17ویں ترمیم کے ذریعے آئینی تحفظ دیا۔ جہاں پارلیمنٹ نے آئین شکنی کو دستوری تحفظ دینے کے لیے آٹھویں اور سترہویں ترامیم دو تہائی اکثریت سے منظور کی ہوں وہاں حال ہی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بیک وقت33 قانون منظور کرنا کوئی مشکل بات ہے؟ جن نمائندوں نے یہ دونوں ترامیم منظور کیں ان کا عوامی حتساب ہوا اور نہ آج کسی کا احتساب ہونے کی توقع ہے۔ ایسے ماحول میں ایک صفحے پر ہونے یا نہ ہونے کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک ایسے درخت کا نام ہے جس پر ہر سیاسی جماعت اپنا گھونسلہ بنانے کی تڑپ رکھتی ہے۔ یہ درخت کہیں نہیں جاتا، گھونسلہ بنانے والے پرندے تبدیل ہوتے رہتے ہیں، یوں ایک گروہ ایک صفحے پر ہونے کی برکات سمیٹتا ہے اور دوسرے کی رال ٹپکتی رہتی ہے۔74 سال سے یہی میوزیکل چیئر کا کھیل جاری ہے، دعووں کے برعکس کوئی بھی حکومت الیکشن کمیشن کو مضبوط اور بااختیار بنانے کی عملی کوشش کرتی ہوئی نظر نہیں آئی، بلکہ الیکشن کمیشن کے متعدد اختیارات حالیہ قانون سازی کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آئین ہی کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ کوشش غیر آئینی قرار دی جاسکتی ہے۔ آئینی لحاظ سے نئے عام انتخابات میں ابھی ڈیڑھ سال باقی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی صف بندی کررہی ہیں، جب کہ تحریک انصاف اپنی کارکردگی کے بوجھ تلے دبی جارہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں غیر متوقع اضافے نے معاشی سرگرمیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اس کے باوجود ایک دن میں ریکارڈ قانون سازی کے ذریعے اقتدار کی پختگی کا تاثر دیا گیا، لیکن عامر لیاقت حسین کے ایک جملے نے کہ ’’ہم آئے نہیں لائے گئے ہیں‘‘ساری حقیقت کھول دی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ ویسا نہیں جیسا حکومت کہہ رہی ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے تین روز بعد عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جوکہا گیا، یہ سب آزادیِ اظہارِ رائے تھا یا تبدیلی سرکار کے خلاف طبلِ جنگ… سب کچھ جلد واضح ہوجائے گا۔ حکومت خوش اور مطمئن ہے کہ وہ مشترکہ اجلاس سے قانون سازی کے لیے اہم بل پاس کراچکی ہے، لیکن اسے حساب دینا ہوگا کہ ای وی ایم مشین سمیت تین سالوں میں کی جانے والی قانون سازی میں این جی اوز کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کے بعد اب کلبھوشن کیس سے متعلق قانون سازی سے ملک کے عام آدمی اور عالمی قوتوں میں سے کس کو فائدہ ہوگا؟ حکومت کا خیال ہے کہ حالیہ قانون سازی سے وہ ٹیکسٹائل کوٹے کے لیے یورپی یونین کی پابندیوں کو نرم اور ختم کرانے میں کامیاب رہے گی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کو عدالتی کارروائی میں کونسلنگ کی سہولت کی قانونی ضرورت کی فراہمی سے متعلق جو قانون سازی مطلوب ہے، اس میں اپوزیشن حکومت کا ہاتھ بٹائے۔ اس پس منظر کو سامنے رکھ کر سیاسی صورتِ حال کا تجزیہ کیا جائے تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کے لیے ایک دن میں 33بلوں کی منظوری ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو کچھ ہوا، وہ ایک نئے سیاسی منظرنامے کی طرف نشاندہی کررہا ہے۔ تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں نے اپوزیشن کو بلڈوز کرتے ہوئے جو33 مسودہ ہائے قانون (بل) منظور کیے ہیںجن میں الیکشن ایکٹ 2017ء میں دو ترامیم کا متنازع بل بھی شامل ہے، جو انتخابات میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے استعمال اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی رائے ہے کہ اگلے عام انتخابات اگر ای وی ایم کے ذریعے ہوئے تو یہ پاکستانی تاریخ کے انتہائی متنازع انتخابات ہوں گے۔ حکومت نے ای وی ایم پر نہ صرف اپوزیشن کے اعتراضات کو مسترد کردیا ہے بلکہ الیکشن کمیشن کے تحفظات کو بھی اہمیت نہیں دی۔ حکومت کی دلیل صرف یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہونا چاہیے۔ مگر الیکشن کمیشن، تکنیکی ماہرین اور اپوزیشن کے تحفظات دور کیے بغیر قانون منظور کیا گیا ہے۔ اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کے ای وی ایم پر اعتراضات بے وزن نہیں کہ جنہیں نظرانداز کیا جا سکے، اور آئندہ عام انتخابات میں اگر یہی ای وی ایم استعمال کی گئی تو اپوزیشن کی موجودہ جماعتوں سمیت کوئی بھی انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کا حق تسلیم کیا گیا مگر یہ بات طے ہونا باقی ہے کہ ووٹ کیسے ڈالا جائے گا۔ طریقِ کار طے نہ ہوا تو ان کے 40 لاکھ ووٹوں کا غلط استعمال کرکے پاکستان کے عوام کے حقیقی مینڈیٹ کو بدلنے کی کوشش کی جاسکتی ہے جس کے بہت خوفناک اثرات مرتب ہوں گے۔ اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ تحریک انصاف کی گرتی ہوئی مقبولیت میں اسے سہارا دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ مستقبل میں اسے ایک نیا سیاسی پلیٹ فارم مہیا کرکے اپوزیشن کا ووٹ بینک اس کی جھولی میں ڈالا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ سیاسی صف بندی پاکستان کو ماضی کی تصادم والی سیاست کی طرف دوبارہ دھکیل دے گی۔ اپوزیشن کی موجودہ سیاسی جماعتیں اس صورت حال کو اس طرح قبول نہیں کریں گی، جس طرح انہوں نے 2018ء کے انتخابات کو قبول کیا۔ تین سال پہلے اوورسیز پاکستانیوں اور متوسط طبقے کے روبرو عمران خان ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کیے گئے تھے کہ جن کے اقتدار میں آتے ہی پاکستان کی تقدیر بدل جانی تھی اور ہر طرف خوشحالی اور ترقی کا دور دورہ ہونا تھا۔ عمران خان کی امیج بلڈنگ کے لیے ایک سوچی سمجھی میڈیا مہم چلائی گئی۔ ان کے بائیس سالہ سیاسی سفر کو جدوجہد بناکر پیش کیا گیا۔ آج تین سال بعد یہ ناکام تجربہ سب کے سامنے ہے۔ حالات تشویش ناک ہی نہیں بلکہ خوف ناک بنے ہوئے ہیں۔ حکومت کے سب سے بڑے اتحادی پرویزالٰہی بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ سے عمران خان سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ کسی مسئلے پر ہمارے ساتھ مشورہ نہیں کرتے۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو اب یہ بات سب کو مان لینی چاہیے کہ وہ مکمل طور پر ایک غیر سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ ایک خودپسند شخص ہیں جسے اس کے کیرئیر کی کامیابیوں نے مزید خودپسند بنادیا ہے۔ ورنہ جس طرح اسٹیبلشمنٹ نے ان کی مدد کی، وہ پچھلے حکمرانوں کے خلاف بیان بازی میں وقت ضائع کرنے کے بجائے گڈ گورننس پر زور دیتے تو آج صورتِ حال مختلف ہوتی۔ انہیں حکومت چلانے کا ہنر آتا ہے اور نہ امورِ مملکت کے اسرار و رموز سے واقف ہیں۔ تین سالوں میں پارلیمنٹ میں قانون سازی کے بجائے آرڈیننس جاری کیے گئے، جہاں این جی اوز اور عالمی ایجنڈے کا معاملہ ہوا وہاں ایف اے ٹی ایف کے لیے قانون سازی کی گئی۔ اب بھی گزشتہ ہفتے قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا، اس میں 33 قانونی مسودوں کی منظوری دی گئی، اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال اور سمندر پار مقیم پاکستانیوں کو آئی ووٹنگ کا حق دینے کے متنازع قوانین بھی منظور کرلیے گئے۔ ا س سے این جی اوز اور بیرونِ ملک مقیم خوشحال طبقہ ہی مطمئن ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کے لیے ارکان کی عددی قوت پوری ہونے کے باوجود اپوزیشن کو بلڈوز کیا گیا، اور ایسا ماحول فراہم کیا گیا کہ اپوزیشن واک آئوٹ کرجائے تاکہ اطمینان کے ساتھ سارا کام ہوسکے۔
اجلاس کے آغاز پر مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے الیکشن (دوسری ترمیم) بل 2021ء کی تحریک پیش کی، تو ایوان میں رائے شماری کرائی گئی جس میں اپوزیشن کو 203 اور حکومت کو221 ووٹ ملے۔ ابتدائی مرحلے میں ہی رائے شماری سے ایوان کی صورتِ حال واضح ہوگئی تھی، مگر حکومت نے ماحول ہی ایسا بنایا کہ اپوزیشن واک آئوٹ پر مجبور ہوئی۔ اب اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ قانون سازی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جائے گا اور عوامی دبائو بھی بڑھایا جائے گا۔ مستقبل میں مزید ویڈیو لیکس ہوسکتی ہیں، بڑے شہروں میں جلسے، لانگ مارچ، پہیہ جام، شٹرڈائون بھی کیے جاسکتے ہیں، اپوزیشن کی آئندہ سیاست پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر بھی ہوگی۔
مشترکہ اجلاس میں حکومت نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے فیصلے کی روشنی میں ایک قانون منظور کیا ہے جس میں بھارتی جاسوس کلبھوش یادیو کو سزا پر اپیل کا حق دیا گیا ہے۔ اجلاس میں مردم شماری سے متعلق قانون سازی بھی کی گئی جس کے تحت حکومت آئندہ برس ملک بھر میں نئی مردم شماری کرائے گی۔ تاہم حکومت نے الیکشن سے متعلق ایک قانون کو مؤخر کردیا جو دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیتا ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کئی اعتبار سے غیر معمولی رہا۔ مشترکہ اجلاس کی ایک ہی نشست میں 33 مسودہ ہائے قانون کی منظوری جس طرح ہوئی اسے حکومت کے ہی ایک رکن نے یوں بیان کردیا کہ ہم آئے نہیں لائے گئے ہیں۔ یہ گواہی تحریک انصاف کے چہرے پر ایک دھبہ ہے۔ جمہوری پارلیمانی نظام حکومت میں عددی اکثریت کو یقیناً اہمیت حاصل ہے، لیکن اس اکثریت کو پارلیمنٹ میں لشکر کی طرح استعمال کرنا اور اپوزیشن کو روندتے ہوئے قانون سازی کرنا غیر جمہوری رویہ ہے۔ جس طرح قانون سازی کی گئی وہ ہرگز قابلِ فخر نہیں۔ اگر پارلیمنٹ کو بھی اکھاڑا بناکر عددی اکثریت ہی کے زور پر قانون سازی ہوتی رہی تو ملک کا جمہوری پارلیمانی نظام بھی مذاق بنارہے گا۔ حکومت کے اس طرزعمل نے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کو بھی غیرمؤثر کردیا ہے۔ اگر یہ بل کمیٹیوں میں آتے تو کھلی بحث اور مشاورت سے انہیں بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ اپوزیشن کو بلڈوز کرکے قانون سازی سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت پارلیمانی اقدار پر یقین نہیں رکھتی۔ ای وی ایم کی منظوری کے بعد اب حقِ رائے دہی یا حقِ خود اختیاری کے رعایا کے ہاتھوں آزادانہ استعمال کے بجائے مصنوعی ذہانت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ووٹ کی قسمت طے ہوگی۔ ووٹر کی نشاندہی انگوٹھے کے نشان سے نادرا کرے گا۔بعض حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ای وی ایم کے سافٹ ویئر کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں؟، اہم سوال یہ ہے کہ آٹھ نو لاکھ مشینیں کیسے اور کہاں سے آئیں گی؟ کیسے سنبھالی اور استعمال کی جائیں گی؟ اور وائی فائی کا انتظام بلا تعطل ملک کے طول و عرض میں کیسے برقرار رکھا جائے گا؟ یہ سارا امتحان الیکشن کمیشن کا ہوگا۔ اگلے انتخابات کو جدید ٹیکنالوجی سے محفوظ کرلینے کے بعد اب سال ڈیڑھ سال بعد مردم شماری ہوگی، جس کی بنیاد پر نادرا انتخابی فہرستیں مرتب کرنے میں آزاد ہوگا۔ لہٰذا مثبت نتائج کو بھی یقینی بنا لیا گیا ہے۔ رہی سہی کسر اوورسیز پاکستانیوں کے 90 لاکھ آئی ووٹوں سے پوری کرلی گئی ہے جس میں دہری شہریت والے بھی شامل ہیں، اور وہ 45 لاکھ بھی ہیں جو خلیجی ممالک میں اقامہ ہولڈر ہیں۔ حکومت نے یہ سب کچھ جمہور کے لیے کیا ہے، اور جمہور کا حال یہ ہے کہ انہیں علم ہی نہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کیا ہے؟