غربت، بھوک، افلاس، مہنگائی، بے روزگاری اور بے کاری وغیرہ کے خاتمے میں ناکامی کے بعد حکومت نے اب ’’غریب مکائو مہم‘‘ پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ نہ غریب ہوگا نہ کوئی مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا روئے گا۔ اپنی اس نئی پالیسی کو جلد از جلد نتیجہ خیز بنانے کے لیے حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کی نئی قسط کے حصول کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت یہ عالمی ساہوکار پاکستان کو ایک ارب 5 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کا قرض دے گا، جب کہ پاکستان کی حکومت اس کے جواب میں اپنے غریب عوام کے خون کا آخری قطرہ نچوڑ کرآئی ایم ایف کے حضور پیش کردینے کی پابند ہوگی۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ و محصولات شوکت ترین نے بڑے فخر سے اعلان کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا گیا ہے، ہم نے اُس کی شرائط تسلیم کرلی ہیں، تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے معاہدے کی حتمی منظوری ابھی باقی ہے جو فنڈ کا ایگزیکٹو بورڈ 12 جنوری کو اپنے اجلاس میں دے گا۔ معاہدے میں جو کڑی شرائط عائد کی گئی ہیں ان کے مطابق حکومت پہلے سے بے پناہ مہنگے پیٹرول پر ہر ماہ صرف لیوی کی مد میں چار روپے مزید اضافہ کرے گی اور یہ اضافہ بتدریج تیس روپے فی لیٹر تک پہنچایا جائے گا۔ بجلی کی قیمتیں جو پہلے ہی آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور صرف اکتوبر میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر حکومت نے پہلے ہی نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو ایک آدھ نہیں، پونے پانچ روپے فی یونٹ اضافے کی درخواست دے رکھی ہے جس کی مد میں بجلی صارفین کو 61 ارب روپے کا بوجھ برداشت کرنا ہوگا، تاہم بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اس پر بھی مطمئن نہیں، اور اُس کی قرض کے لیے پانچ پیشگی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ بجلی کی قیمت میں مسلسل مزید اضافہ کیا جاتا رہے۔ ایک شرط یہ بھی منظور کی گئی ہے کہ شہریوں کے استعمال کی تمام اشیاء پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس حکومت وصول کرے گی۔ عوام کو مختلف مدات میں 350 ارب روپے کا جو ٹیکس استثنیٰ حاصل ہے وہ ختم کردیا جائے گا۔ وفاقی ترقیاتی پروگرام کی رقم میں دو سو ارب روپے کی کمی، جب کہ مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لیے گرانٹس میں بھی پچاس ارب روپے کی کٹوتی کی جائے گی۔ اس طرح گویا پارلیمنٹ سے منظور شدہ بجٹ میں آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ شرائط کے تحت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خودمختاری کا بل بھی حکومت پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی پابند ہوگی۔ کورونا وائرس پر ہونے والے اخراجات اور ویکسین کی خریداری کی تفصیلات اور آڈٹ رپورٹ بھی آئی ایم ایف کے حضور پیش کرنا ہوگی۔ آخر میں اہم بات یہ کہ حکومت ان تمام شرائط پر 12 جنوری 2022ء سے قبل عمل درآمد کرکے اپنی سنجیدگی کا ثبوت پیش کرنے کی پابند ہوگی، پارلیمنٹ سے قانون سازی کا عمل بھی اس سے قبل مکمل کروانا ہوگا تب ہی آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ معاہدے کی منظوری دے گا، ورنہ ساہوکار ہمیں یہ سودی قرضہ دینے سے انکار بھی کرسکتا ہے۔
قرض کی رقم اور آئی ایم ایف کی شرائط کو دیکھا جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ہم سود کے شیطانی چکر کی ایک ایسی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں جس سے نکلنا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے، مگر ہمارے حکمران ہیں کہ اس قرض کے حصول کو بھی اپنا کارنامہ بناکر پیش کرتے نہیں شرماتے۔ مرزا غالب نے مدتوں قبل ہمارے حکمرانوں کی اس کیفیت کی تصویرکشی ان الفاظ میں کردی تھی ؎
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
معاہدے کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات جو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے، وہ یہ ہے کہ اس کی شرائط کا تمام تر بوجھ عام آدمی کو برداشت کرنا پڑے گا، اس میں کہیں یہ ذکر تک نہیں کہ وزیروں، مشیروں، ارکانِ مجلس شوریٰ، ججوں، جرنیلوں یا بیورو کریسی کی مراعات میں بھی کسی قسم کی کٹوتی کی جانی چاہیے۔ ان بالائی طبقات کے پیٹرول، بجلی، ٹیلی فون وغیرہ کے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کیے جاتے ہیں، اس لیے وہ اس طرح کا سودا کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ یا پریشانی محسوس نہیں کرتے، حالانکہ معاہدے کی شرائط کا واضح مطلب قومی آزادی و خودمختاری کا سودا ہے۔ جب ہماری مجلسِ شوریٰ آئی ایم ایف کی ہدایات پر قانون سازی کرے گی، ہم اپنے اہم قومی مالیاتی اداروں کی رپورٹیں عالمی ساہوکاروں کے سامنے پیش کرنے کے پابند ہوں گے اور ہماری مجلسِ شوریٰ کے منظور شدہ بجٹ میں بیرونی اداروں کے احکام پر تبدیلیاں کی جائیں گی تو پھر کیسی آزادی اور کیسی خودمختاری؟ اس صورتِ حال پر تو بس یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ ؎
ناحق ہم مجبوروں پریہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کریں ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا
(حامد ریاض ڈوگر)