آدمی کی اصل۔۔۔۔۔اور انسانی ساخت میں تغیرات کے ادوار

اس باب میں، مَیں جن آیات کواقتباس کررہا ہوں، وہ بنیادی طور پر مادی پہلو بیان کرتی ہیں۔ ہم درحقیقت خالصتاً علم اشکال الاعضاء سے متعلق تبدیلیوں کا جائزہ لے رہے ہیں، جو ہم آہنگ اور متوازن طور پر منظم طرز میں وقوع پذیر ہوئیں۔ یہ منصوبہ بند کام تھا، ایک ایسا مظہر، جو یکے بعد دیگرے ادوار میں پیش آتا رہا۔ اس طرح خالق اپنے ارادے میں، جو ابد سے انسانی گروہوں کی تقدیر پرحاکم ہے، قوت اور شان و شوکت کے ساتھ آشکارہوتا رہا ہے۔ قرآن سب سے پہلے ’تخلیق‘ کی بات کرتا ہے، پھر دوسرے مرحلے کی جانب بڑھتا ہے، اس کی وضاحت کرتا ہے۔ بلاشبہ آدمی کی تخلیق اور منظم عضویاتی صورت گری زمانی تسلسل میں پیش رفت کرتی محسوس ہوتی ہے۔

’’ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو، اس پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔
پوچھا ’’تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے تجھ کو حکم دیا تھا؟‘‘بولا ’’میں اُس سے بہتر ہوں، تُو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُسے مٹی سے‘‘۔ (اعراف، 10۔11)
یہاں سے یہ ممکن محسوس ہورہا ہے کہ آدمی کی تخلیق کے تین متواتر واقعات کی ترتیب سمجھی جائے۔ ابتدائی دو ہمارے مطالعے کے لیے زیادہ اہم ہیں: خدا نے انسان خلق کیا اور پھر اُس کی صورت گری کی۔ ایک اور جگہ یہی بات اس طرح کہی گئی کہ انسان کی تخلیق ہم آہنگ توافق پر ہوئی۔
’’ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سُوکھے گارے سے بنایا۔ اور اس سے پہلے جنّوں کو ہم آگ کی لِپٹ سے پیدا کرچکے تھے۔ پھر یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ ’’میں سڑی ہوئی مٹی کے سُوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کررہا ہوں، جب میں اُسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اُس کے آگے سجدے میں گر جانا۔‘‘ (حجر، 28-29)
’’جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا ’’میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں، پھر جب میں اسے پوری طرح بنادوں اور اس میں اپنی رُوح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جاؤ۔‘‘ اس حکم کے مطابق فرشتے سب کے سب سجدے میں گر گئے، مگر ابلیس نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا۔ رب نے فرمایا’’اے ابلیس، تجھے کیا چیز اُس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے؟‘‘(ص، 72)
آدمی کی تخلیق میں متوازن صورت گری اور روحِ خداوندی کا اختصاص کئی دیگر آیات میں بھی سامنے آیا ہے۔ آدمی کی ساخت کی پیچیدگی میں زمینی اجزائے ترکیبی کی کارگزاری پنہاں ہے۔ آدمی کی تخلیق براہِ راست ارادۂ الٰہی پر ہوئی ہے۔ یہ ایک انتہائی اہم نکتہ ہے۔ سورہ تین کی آیات میں خدا فرماتا ہے:
’’قسم ہے انجیر اور زیتون کی، اور طورِ سینا اور اِس پُرامن شہر (مکہ)کی، ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، پھر اُسے اُلٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کردیا، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔‘‘(التین،3۔4)
عربی کے لفظ ’تقویم‘ کا معنی ’کسی شے کومنصوبے کے تحت منظم کرنا‘ ہے، یعنی ترقی کی وہ ترتیب جسے پیشگی مستحکم طور پر واضح کردیا گیا ہو۔ ارتقاکے ماہرین جب انسانی ساخت میں تبدیلیوں کی بات کرتے ہیں، بالکل اسی طرز پر اس کا اظہار کرتے ہیں: کہ اس موضوع پر سائنسی مطالعات یقینی منصوبہ بندی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
سورہ التین میں کہ جہاں سے مذکورہ آیات اقتباس کی گئی ہیں، آدمی کی تخلیق کا عام سیاق و سباق یہ حقیقت نمایاں کرتا ہے کہ انسان کی منظم ساخت گری میں ارادۂ الٰہی واضح محرک ہے، اور یہ کہ آدمی بدترین بڑھاپے میں انتہائی دگرگوں حالت تک پہنچتا ہے۔ یہاں آدمی کی جنینی نشوونما کا ذکر موجود نہیں، بلکہ تخلیق عمومی انداز میں بیان کی گئی ہے۔ ساخت گری کی اصطلاح میں سمجھا جائے تو انسانی انواع میں مجموعی طور پر منظم منصوبہ بندی کا حوالہ نظر آتا ہے۔
’’اُس نے طرح طرح سے تمہیں بنایا ہے۔ کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے اور اُن میں چاند کو نور اور سُورج کو چراغ بنایا؟ اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اُگایا، پھر وہ تمہیں اِسی زمین میں واپس لے جائے گا اور اس سے یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا۔‘‘(نوح، 14-15)
قرآن کی یہ آیت وہ واحد مقام ہے جہاں لفظ ’طور‘ جمع کے صیغہ ’’اطوار‘‘ میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ آیا آدمی کی اطوار یا طرح طرح سے تخلیق محض جنینی نشوونما کے مراحل کی جانب اشارہ کررہی ہے، یا بعد کے ادوار میں ساختی تبدیلیوں کی جانب اشارہ ہے، یا پھر دونوں ہی سلسلوں کی بات کی جارہی ہے؟ جواب تک رسائی کے لیے ہمیں اس موضوع پر قرآن کے بیان کا جائزہ لینا ہوگا۔ جب ہم مذکورہ آیات کا سیاق و سباق دیکھتے ہیں، یہ الوہی وحدانیت، اللہ کی قوت اور خلاّقیت کا تذکرہ کرتی ہیں۔
قرآن کا وہ باب کہ جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) لوگوں سے مخاطب ہیں، خدا کے رحم، فیاضی، اور نعمتوں کا بیان ہے۔ آدمی کی تخلیق، آسمانوں، سورج، چاند اور زمین کی پیدائش میں اُس کی قدرتِ کاملہ دکھائی دیتی ہے۔ تخلیق کے موضوع پر قرآن مٹی سے آدمی کی پیدائش کے روحانی پہلو بیان کرتا ہے۔ مذکورہ آیات میں کہیں بھی جنینی نشوونما کا تذکرہ موجود نہیں، کہ فقط جس پر قدیم مفسرین نے آدمی کے ’تخلیقی مراحل‘ کی اصطلاح کا انطباق کیا۔ اگرچہ لفظ ’مراحل‘ مذکورہ متن میںاستعمال نہیں ہوا، مگر بلاشبہ یہ دیگر سورتوں میں ’مراحل‘ کی تفصیل کا ایک حوالہ ہی ہے۔
’’کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا؟ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نُطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں، اور اِس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔‘‘(دہر، 1-3) (باقی صفحہ 41پر)
درحقیقت فرد کی نشوونما اور وہ انواع جن سے اُس کا تعلق ہے، ہم آہنگ ہونی چاہئیں، اور اس ہم آہنگی کا تعین اُس وقت کے فیصلہ کُن عوامل کرتے ہیں۔ یہ عوامل وہ جینز (توارث کی اکائی) ہوتے ہیں جو انسان کی پیدائشِ نو کے ابتدائی مرحلے میں والدین کی وراثت منظم طرز پر منتقل کرتے ہیں۔ خواہ ہم ان تخلیقی ’مراحل‘ کو فرد کی نشوونما سے منسلک کریں یا انواع سے وابستہ کریں، یہ تصورِ تخلیق جدید سائنسی ڈیٹا سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔
قرآن کی آیات خاصی وضاحت سے انسانی ساخت میں تبدیلیوں کا ذکر کرتی ہیں۔ ایک انسانی گروہ کی جگہ دوسرے انسانی گروہ کے اٹھائے جانے کا حوالہ ملتا ہے۔
’’ہم نے ہی اِن کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کیے ہیں، اور ہم جب چاہیں اِن کی شکلوں کو بدل کر رکھ دیں۔ یہ ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرلے۔‘‘(دہر)
’’تم نہ اُٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا، اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اُٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘(توبہ، 39)
’’کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کا اپنے اپنے زمانے میں دَور دَورہ رہا ہے؟ اُن کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ہے، ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں، (مگر جب انھوں نے کفرانِ نعمت کیا تو) آخرکار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کردیاُ اور ان کی جگہ دوسرے دَور کی قوموں کو اُٹھایا۔‘‘(انعام)
مفسرین نے مذکورہ آیات میں نافرمان قوموں پر عذاب کو بطور سزائے ربانی بیان کیا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک نمایاں پہلو ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ انسانی گروہوں میں تبدیلیوں اور تغیرات کی جانب بھی اشارہ ہے۔ ممکن ہے کہ وہ عضویاتی ساخت میں بھی ردو بدل سے گزرے ہوں، اور یہ تغیرات یا ترامیم خدا کے منصوبے کی منظم پیش رفت ہو۔
(جاری ہے)