ناظم جوکھیو کا قتل اور بدمعاش جاگیرداری نظام

معروف ادیب، کالم نگار، دانشور اور متعدد کتب کے مصنف، جیے سندھ محاذ کے ایک دھڑے کے سربراہ عبدالخالق جونیجو نے بروز اتوار 14 نومبر 2021ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’سندھ ایکسپریس‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر محولہ بالا عنوان سے جو خامہ فرسائی کی ہے، اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
……٭٭٭……
’’ایک انسان کا قتل اس کائنات میں ظلمِ عظیم کے مترادف ہے۔ کوئی بھی دلیل یا ازالہ اس جرمِ عظیم کی سنگینی کو کم نہیں کرسکتا۔ بسا اوقات قتل کے پسِ پردہ محرکات اور مقاصد، چہار اطراف کے حالات اور اس کے لیے اختیار کیے گئے طور طریقے اسے زیادہ وحشیانہ، دردناک اور دل دہلا دینے والا سانحہ بنادیا کرتے ہیں۔ نوجوان ناظم جوکھیو کا قتل بھی اسی درجے کا قتل تھا جس نے تمام سندھ کے حساس افراد کے اذہان اور قلوب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
اُسی روز ایک اور ظالمانہ اور وحشیانہ قتل ہوا۔ یہ نوجوان لڑکی فہمیدہ سیال کا المناک قتل تھا۔ یہ قتل البتہ میڈیا میں اتنی جگہ اور اہمیت حاصل نہیں کرسکا ہے جس پر کچھ دوستوں کو شکایت بھی ہے، اور یہ شکایت درحقیقت بجا بھی ہے۔ لیکن اس فرق کا ایک سبب اوپر بیان کردہ حالات اور طور طریقے ہیں۔ دوسرا یہ کہ صدیوں سے جاگیردارانہ اقدار میں گرفتار اور اسیر ہمارا سماج تاحال عورت کو برابر کے انسان کا درجہ دینے والی بات کو ذہنی طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اور اس رویّے کا شکار اچھے بھلے دیکھے بھالے سیاسی لیڈر، ادیب اور دانشور بھی ہیں۔ افسوس! بہرحال مواصلات کے انقلاب کے ذریعے ناظم جوکھیو کے قتل سے جاگیرداری کے بدشکل چہرے اور بدبودار بدن سے سارے پردے اتر گئے ہیں اور وہ بالکل عریاں ہوکر رہ گیا ہے، اور اس کے خلاف سندھی سماج کا مجموعی طور پر، اور خصوصاً مڈل کلاس کا جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس ردعمل کے پسِ پردہ میڈیا کی قوت کے ساتھ ساتھ سندھی سماج کی فطری ترقی بھی ہے۔
یورپ کی جاگیرداری موجودہ سندھ کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور تباہ کن تھی، اور اس حوالے سے یورپ کی تاریخ کے ہزار سال (5تا 14 ویں صدی) ’’تاریکی کا دور‘‘ کہلاتے ہیں۔ انگریزوں نے جب سندھ اور ہند پر قبضہ کیا تو انہوں نے یہاں پر جاگیرداری کو مضبوط، منظم اور مستحکم کرتے ہوئے ایک ادارے کی شکل دی، جبکہ اپنے ملک میں وہ اس بدبودار نظام کو بہت پہلے ختم کرچکے تھے۔ یہ ان کے سامراجی مفادات کی ضرورت تھی۔
تقسیمِ برصغیر کے نتیجے میں پاکستان پر پنجاب کی کامل بالادستی تھی/ ہے۔ اس نے بھی سابقہ پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھا جس کے نتیجے میں اہلِ سندھ کا شہروں کی طرف آنے اور مڈل کلاس کے قیام اور تشکیل کا عمل بے حد سست رہا۔ 1960ء کے عشرے کے دوران سماجی طور پر ازسرِنو متوسط طبقہ بننے کا عمل شروع ہوا تو سیاسی میدان میں ون یونٹ کے خاتمے کی تحریک نے مڈل کلاس کے کردار کو نمایاں کیا۔ کیوں کہ وڈیرے اپنی فطری خصوصیات کی وجہ سے ون یونٹ کے توسط سے سندھ کی شناخت کو ختم کرنے والے حکمرانوں کے پیروں میں براجمان رہے، اور ان کی دریوزہ گری میں مصروف دکھائی دیئے۔ اس طرح سے ایک واضح لکیر کھنچ گئی۔ ایک طرف سندھ دشمن حکمران اور ان کے دلال جاگیردار، پیر، میر اور وڈیرے تھے، تو دوسری جانب جی ایم سید اور حیدر بخش جتوئی کی قیادت میں محنت کش اور ابھرتا ہوا درمیانہ طبقہ تھا جس میں سیاسی کارکنان، ہاری، مزدور، استاد، شاگرد، وکیل، فن کار اور شاعر و ادیب وغیرہ شامل تھے۔ اس دور کی شاعری کچھ اس قسم کی تھی، جدوجہد کے نتیجے میں ’’منھن ھیڈر تھیا غدارن جا، بے شرم وڈیرن، پیرن جا
مفہوم: بے شرم غداروں، وڈیروں اور پیروں کے منہ زرد پڑ گئے‘‘۔
1990ء کی دہائی میں صورتِ حال تبدیل ہونا شروع ہوگئی۔ سوویت یونین کے خاتمہ بالخیر سے ماحول میں بھی فرق رونما ہوگیا۔ دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی (جس میں پہلے ہی جاگیرداروں اور وڈیروں کی بالادستی تھی) نے حصولِ اقتدار کے لیے آسان اور روایتی طریقہ اختیار کرتے ہوئے Electables کی سیاست شروع کی۔
بس پھر کیا تھا؟ سب کو گویا ایک طرح سے چھوٹ مل گئی۔ ایک طرف سندھ دشمن سردار، جاگیردار اور پیرو میر یکسر عریاں ہوکر سامنے آگئے، جو افعالِ بد وہ قبل ازیں ڈھکے چھپے انداز میں کیا کرتے تھے وہ سماج دشمن سارے امور انہوں نے فخریہ اور اعلانیہ سرانجام دینے شروع کردیئے۔ دورِ تاریکی کی نشانی اور سندھ کے تاریخی کلچر کے منافی جرگہ سسٹم کو ریگولرائز کرکے اسے باقاعدہ ایک ادارے کی شکل دے دی گئی جو ریاستی قوانین سے بھی بالاتر تھا۔ سرکاری سرپرستی میں ہونے والے جرگے جن میں جائدادوں کے ساتھ ساتھ غریب، مسکین افراد کی عزت و آبرو کے بھی فیصلے ہوا کرتے تھے۔ ان جرگوں میں وہی وڈیرے یک جان اور یک مشت دکھائی دیتے تھے جو ووٹ لیتے وقت قبل ازیں عوام کے سامنے ایک دوسرے کے حریف یا آسان سندھی میں ’’چانڈیو مگسی‘‘ بن کر آیا کرتے تھے۔ (قانونی طور پر جرگوں پر پابندی عائد ہے، لیکن یہ غیر قانونی جرگے آج بھی سندھ کے ہر ضلع، ہر جا اور ہر مقام پر مقامی سرداروں اور ضلعی انتظامیہ کی آشیرباد سے بڑے دھڑلے کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں، مترجم)
دوسری جانب معاشرے کی اصلاح اور قوم کی نجات کے ذمے دار، اور کل تک جاگیرداروں کو چیلنج کرنے والے قوم پرست کارکنوں، ادبا، شعرا اور دانش وروں نے بھی انہی کے ساتھ سمجھوتے کرنے شروع کردیے۔ سماج کی سب سے بڑی بیماری سے ہی علاج کی امیدیں باندھی گئیں، بلکہ انہیں سندھ کا واسطہ دے کر اپیلیں کی گئیں۔ جاگیرداری کی مصیبتوں پر گفتگو کے لیے منعقدہ سیمینارز میں سب نامور جاگیردار اور سردار اکٹھے کیے گئے جنہوں نے اپنے قبیح کرتوتوں کا دفاع کیا اور میڈیا نے بھی ان کے مؤقف کی تشہیر کی۔ دوسری جانب قوم پرست کارکنان اور لیڈروں نے ان جرگوں میں بیٹھنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھنا شروع کردیا جن میں بہنوں، بیٹیوں کی زندگی کے فیصلے کیے جاتے تھے۔ ان سماج دشمن اور سندھ دشمن بدبودار وڈیروں کو بجائے چیلنج کرنے کے ’’میڑھ منت‘‘ (منت سماجت، مترجم) قافلوں کا نہ صرف رواج ڈالا گیا بلکہ اسے سراہا بھی گیا۔
نتیجہ اب سب کے سامنے ہے کہ وہ بدمعاش، وڈیرے، جاگیردار سندھ کو اپنی جاگیر گردانتے ہوئے اسے کچلتے اور روندتے چلے جارہے ہیں اور اپنے اپنے علاقوں کے افراد سے غلاموں جیسا برتائو کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر شے کی ایک حد ہوتی ہے۔ سندھ کا مڈل کلاس طبقہ اپنی تمام تر کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود معاشرے میں اپنی جگہ بنانے اور اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے میں مصروف ہے۔ جوں جوں مقدار اور معیار میں یہ طبقہ آگے بڑھتا اور ترقی کرتا جائے گا توں توں جاگیردار اور سردار اپنی بالادستی سے دست بردار ہوتے ہوئے پسپا ہوتے چلے جائیں گے۔ جب مقدار کے ساتھ معیار میں بھی اضافہ ہوگا اور مڈل کلاس خود کو سندھی عوام کے ساتھ وابستہ کرے گی تو پھر ’’غدار اور بے شرم وڈیروں، پیروں‘‘ کے چہرے زرد پڑ نے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔
ناظم جوکھیو کے قتل پر سندھ نے جو فوری اور خودرو ردعمل دیا ہے اور جاگیردارانہ/ سرداری نظام کے خلاف نفرت کی جو لہر اٹھی ہے وہ ایک نئی بیداری کا اظہار اور ایک نئی صبح کا پیغام ہے۔ اس میں وکلا نے جو کردار ادا کیا ہے وہ توقعات اور امیدوں کے عین مطابق ہے۔ وکلا سے جابر حکمرانوں اور ظالم سرداروں سے مقابلہ آرائی کی امید اس لیے زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے روزگار کے لیے کسی بھی اثر رسوخ اور رکاوٹ سے متاثر نہیں ہوتے۔
اب جو صورتِ حال ہے وہ ناظم جوکھیو اور جوکھیو سردار کے ذاتی جھگڑوں سے بہت آگے نکل چکی ہے، اور یہ دو فریق میں ایک طرح سے جنگ کا نیا مرحلہ ہے، جس میں یہ دونوں علامتی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ جوکھیو سردار بدمعاش، بدبودار جاگیردارانہ نظام کی، اور ناظم جوکھیو اس تاریکی پر مبنی نظام کے خلاف مزاحمت اور آنے والی روشن صبح کی علامت بن چکے ہیں۔ آج سے دس برس پیشتر شمالی افریقہ کے ملک تیونس میں ایک واقعہ رونما ہوا تھا، بیس برس سے ملک پر قابض ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کی فوج اور پولیس کا نشانہ بننے والوں میں محمد بائو زیزی نامی ایک ریڑھی بان نوجوان بھی شامل تھا۔ بھتہ نہ دینے پر ایک دن پولیس نے اس کا ٹھیلا الٹ دیا اور اس کا سارا سامان ضائع ہوگیا، جس کے ردعمل میں مذکورہ نوجوان نے خود کو آگ لگاکر جلا ڈالا۔ اس سے عوامی نفرت، غم و غصے اور مزاحمت کا ایک ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہوا جس نے نہ صرف تیونس کی آمریت کو شکست دی بلکہ بن علی کو بھی ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا، بلکہ اس کے نتیجے میں 30 برس سے مصر پر حکومت کرنے والے آمرِ مطلق حسنی مبارک کو بھی جیل کا منہ دیکھنا پڑ گیا۔ اس کے علاوہ کئی عرب ممالک کو مذکورہ واقعے کے باعث اپنے ہاں کے آمروں اور بادشاہوں سے نجات ملی۔ اس سارے عمل کو دنیا آج بھی ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے پکارتی ہے۔ کیا ناظم جوکھیو سندھ کا محمد بائوزیزی ثابت ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب دینا تمام اہلِ سندھ کا فرض ہے۔‘‘
نوٹ: مذکورہ کالم کے تمام مندرجات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے۔