ناٹو کے وزرائے دفاع کا اجلاس

گزشتہ ماہ بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں (جو یورپی یونین کا ہیڈ کوارٹرز بھی ہے) معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کے وزرائے دفاع کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کا مقصد بظاہر چین اور روس کی پنپتی ہوئی قوت سے نمٹنے کے حوالے سے حکمتِ عملی پر غور کرنا تھا۔ نیٹو کو ایک اور انتہائی پریشان کن مسئلے کا بھی سامنا ہے جو چند برسوں کے دوران بہت تیزی سے ابھر کر سامنے آیا ہے اور یورپی طاقتوں کی پریشانی میں اضافہ کررہا ہے۔ یورپ کو اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اُس کی حفاظت کا ذمہ امریکہ نے لے کر مسئلے کو حل کرنے سے زیادہ الجھادیا ہے۔ یورپی طاقتیں سوچ رہی ہیں کہ اپنی حفاظت کی ذمہ داری کا بوجھ اب خود اٹھایا جائے۔
یورپ کی اسٹرے ٹیجک خودمختاری یا دفاعی معاملات میں امریکہ پر انحصار گھٹانے کا معاملہ فرانس کے صدر ایمانویل میکراں کا پیدا کردہ ہے۔ وہ چند ماہ کے دوران اس حوالے سے بہت کچھ کہتے رہے ہیں۔ یورپ اپنی حفاظت کے لیے خود تیار ہو، یہ تصور 1994ء میں ابھرا تھا جب فرانس نے دفاعی امور پر قرطاسِ ابیض شایع کیا تھا۔ اب یہ تصور زیادہ مقبولیت اس لیے حاصل کررہا ہے کہ دفاع کے معاملے میں امریکہ پر مکمل انحصار کے حوالے سے شکوک و شبہات ابھر رہے ہیں۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو کی اہمیت گھٹانے کی کوشش میں ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ لگایا تو فرانسیسی صدر میکراں کو مزید شہ ملی۔ انہوں نے یورپ کے عوام اور قائدین کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنی حفاظت کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو اپنے آپ پر اختیار سے محروم ہوجائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری 2020ء میں طالبان سے معاہدہ کیا جس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ 135 دن میں افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد کو 8600 تک لایا جائے گا اور اتحادیوں سمیت باقی تمام فوجی بھی 14 ماہ میں نکال لیے جائیں گے۔ تب یورپی قائدین کو صاف محسوس ہوا تھا کہ اس معاملے میں امریکہ نے اُن کی رائے کو جوتے کی نوک پر رکھا ہے یا نظرانداز کیا ہے۔
جوبائیڈن سے بہت سی توقعات وابستہ کرلی گئی تھیں۔ ان میں سے بیشتر اب تک غیر بارآور ثابت ہوئی ہیں۔ 14 اپریل 2021ء کو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اپنے پیش رَو ڈونلڈ ٹرمپ کے سمجھوتے کے مطابق 11 ستمبر 2021ء تک افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلاء مکمل کرلیں گے۔ بعد میں انہوں نے اگست کے وسط تک کی ڈیڈلائن دے دی۔ انخلاء کے آخری ہفتوں کے دوران افغانستان میں شدید انتشار پیدا ہوا۔ یورپی قائدین کی اکثریت نے اِسے نیٹو کے لیے ایک بڑی ناکامی قرار دیا، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ناکافی مشاورت کی شکایت بھی کی۔ یورپی یونین میں خارجہ پالیسی سے متعلق امور کے سربراہ جوسپ بوریل نے اِسے یورپ کے لیے ویک اپ کال قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپ کو اب اپنی سیکورٹی کی ذمہ داری خود سنبھالنی چاہیے اور اس کے لیے زیادہ خرچ بھی کرنا چاہیے۔
امریکہ اور چین کے درمیان مخاصمت کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان رقابت بڑھی۔ یورپی یونین کو واشنگٹن کے نئے ارادوں اور بدلتی ہوئی ترجیحات نے بھی پریشان کررکھا ہے۔ امریکہ اب چین کی راہیں مسدود کرنے کے لیے ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں متحرک ہورہا ہے۔ یورپی یونین کے قائدین سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا اُن کے مفادات کے منافی ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت نے مل کر QUAD کے نام سے اتحاد قائم کیا ہے جس کا بنیادی مقصد چین کی راہ میں دیوار کھڑی کرنا ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ اب مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے اپنی توجہ ہٹاکر اوشیانا کو اہمیت دے رہا ہے۔ مارچ میں اس اتحاد کا ورچوئل سربراہ اجلاس ہوا تھا اور ستمبر میں اِن پرسن اجلاس ہوا۔ علاوہ ازیں امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ نے مل کر AUKUS کے نام سے بھی اتحاد قائم کیا ہے۔ اس اتحاد کے قائم ہونے سے سب سے زیادہ نقصان فرانس کو اٹھانا پڑا ہے۔ آسٹریلیا نے اُس سے 60 ارب ڈالر کی 12 ایسی آبدوزیں خریدنے کا معاہدہ کیا تھا جو بجلی اور ڈیزل سے چلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ معاہدہ ختم کیا جاچکا ہے۔ آسٹریلیا اب امریکہ اور برطانیہ سے جوہری آبدوزیں خریدے گا۔ شدید غصے کی حالت میں فرانس کے صدر ایمانویل میکراں نے واشنگٹن سے فرانس کے سفیرکو واپس بلالیا، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یورپ سے یہ بھی کہا کہ سادہ لوحی ترک کرکے اپنی حفاظت کی ذمہ داری خود سنبھالے۔
کیا اس نوعیت کے معاملات یورپ اور امریکہ کے درمیان اعتماد کی فضا کو خطرناک حد تک آلودہ کردیں گے؟ اور کیا یورپ اسٹرے ٹیجک خودمختاری کی طرف تیزی سے بڑھ سکے گا؟ ان دونوں سوالوں کا جواب مجموعی طور پرنفی میں ہے اور اس کے چار اسباب ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ یورپ اپنی حفاظت خود کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ 1980 کی دہائی کے بعد سے اب تک یورپ میں طاقت کے توازن کے حوالے سے بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اب سابق سوویت یونین ہے نہ معاہدۂ وارسا۔ شمالی یورپ (بالٹک) کی تین ریاستیں ایسٹونیا، لتھوانیا اور لیٹویا اب نیٹو کی رکن ہیں۔ پولینڈ بھی نیٹو کا حصہ ہے۔ ولادی میر پیوٹن روس کو 1990 کی دہائی میں رونما ہونے والی شدید کساد بازاری کے منفی اثرات کے دائرے سے باہر نکالنے میں بہت حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ روس کی عسکری قوت بھی بڑھ چکی ہے مگر ،وہ معیشت کے میدان میں پیچھے رہ گیا ہے۔ اُس کی خام قومی پیداوار جرمنی کی خام قومی پیداوار سے بھی کم ہے۔ اٹلی، فرانس اور جرمنی کی مجموعی خام قومی پیداوار روس کی خام قومی پیداوار سے دگنی ہے۔ دوسری طرف پورے یورپ کی مجموعی خام قومی پیداوار امریکہ کی خام قومی پیداوار سے کم ہے۔
یورپی یونین اگر اپنی حفاظت کی ذمہ داری خود اٹھانا چاہتی ہے تو اِسے نیٹو کا متبادل نہ سمجھا جائے۔ یورپ ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت آگے ہے۔ اُس میں پہلی سی ندرت پسندی نہیں رہی، مگر مجموعی طور پر وہ اب بھی ٹیکنالوجیز میں قابلِِ رشک کارکردگی کا حامل ہے۔ یورپی اسلحہ ساز ادارے جدید ترین ہتھیار تیار کرتے ہیں۔ 2016ء سے 2020ء تک گیارہ سب سے زیادہ اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک یا خطوں میں یورپ کا پانچواں نمبر تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے یورپ زیادہ تیزی سے ابھر کر سامنے آیا ہے۔
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ یورپ اپنا دفاع خود کرنے کی پوزیشن میں کیوں نہیں؟ اِس کے چار بنیادی اسباب ہیں۔ آئیے، سبب کا الگ الگ جائزہ لیں۔
٭ پہلا سبب : یورپ میں اپنا دفاع خود کرنے کے حوالے سے سیاسی عزم کی شدید کمی ہے۔ ایک زمانے سے یورپ اپنے دفاع کے لیے امریکہ پر انحصار پذیر رہا ہے۔ اس دوران اُس نے عسکری قوت پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ وہ معیشت و مالیات اور ٹیکنالوجیز کے شعبوں پر غیر معمولی توجہ دیتا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اُس نے نرم قوت پیدا کی ہے، اور اِسی کے بل پر آگے بڑھتے رہنے کا خواہش مند ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب یورپ مجموعی طور پر لڑنے کے موڈ میں نہیں، یا یہ کہ بیشتر یورپی اقوام لڑائی بِھڑائی کو خیرباد کہہ چکی ہیں۔ 1949ء کے بعد سے اب تک امریکہ نے یورپ کے دفاع کی ذمہ داری نبھائی ہے اور اس کے لیے یورپ نے ادائیگی کی ہے۔ جب تحفظ یقینی بنانے کا مقصد حاصل ہورہا ہے تو لڑائی کے جھنجھٹ میں کون پڑے؟ 2006ء میں نیٹو کے ریگا سربراہ اجلاس میں طے کیا گیا کہ ہر رکن ملک بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کے پیش نظر اپنی خام قومی آمدن کا کم از کم 2 فیصد ضرور دے گا۔ ایسا نہ ہوسکا۔ اس کے نتیجے میں 2014ء میں ویلز کے نیٹو سربراہ اجلاس میں ایک بار پھر یہ سوال اٹھا کہ دفاعی اخراجات پورے کرنے کے لیے ہر ملک اپنی خام قومی آمدن کا کم از کم 2 فیصد دے۔ اس اجلاس میں اس کے لیے 2024ء کی ڈیڈلائن مقرر کی گئی۔ اب تک صرف 10 ارکان ہی دفاع کی مد میں اپنی خام قومی آمدن کا 2 فیصد دے رہے ہیں۔ جرمنی بھی اس معاملے میں 1.57 فیصد کے ساتھ خاصا پیچھے ہے۔
دوسرا سبب : دفاعی پیداوار کے شعبے میں یورپی اقوام کے درمیان اشتراکِ عمل بہت کم ہے۔ 2017ء میں پرمیننٹ اسٹرکچرڈ کوآپریشن (PESCO) اور یورپین ڈیفنس فنڈ کے قیام کی راہ ہموار کی گئی تاکہ یورپی اقوام اپنے دفاع کا معاملہ سنجیدگی سے لیں۔ دفاعی پیداوار کے شعبے میں اشتراکِ عمل کے بہت کم ہونے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہر ملک اپنے مفادات کا زیادہ سے زیادہ تحفظ یقینی بنانا چاہتا ہے۔ یورپی اداروں کے درمیان معیشت و معاشرت کے حوالے سے تو خوب گاڑھی چھنتی ہے اور وہ ایک دوسرے کی بھرپور مدد کرتے رہے ہیں، مگر بات جب دفاعی معاملات کی آتی ہے تو کوئی بھی ادارہ مثالی حیثیت میں ابھر کر سامنے نہیں آتا۔ 2019ء تک یورپ میں صرف 20 فیصد دفاعی پیداوار اشتراکِ عمل کا نتیجہ تھی۔
تیسرا سبب: دفاع کے حوالے سے امریکہ اور یورپ کی سوچ میں اختلافات بھی بہت پائے جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یورپ کا اپنے لیے کوئی دفاعی نظام تیار کرنا نیٹو کے منافی ہی ہوگا۔ نیٹو کی اہمیت کو گھٹانے سے انکار کرتے ہوئے یورپی اقوام دفاع کے لیے اپنا نظام بھی تیار کرنا چاہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ نے اپنے دفاع کے لیے الگ کوئی نظام اپنایا تو امریکہ سے اس کے تعلقات اعتماد سے یکسر محروم ہوجائیں گے۔ ایسٹونیا، لیٹویا، لتھوانیا اور پولینڈ میں عدمِ تحفظ کا احساس غیر معمولی شدت اختیار کرگیا ہے۔ یہ چاروں ممالک چاہتے ہیں کہ ان کے ہاں امریکی فوجی گردشی پالیسی کے تحت نہیں بلکہ مستقل طور پر تعینات رہیں۔ یوکرین کے بحران کے بعد روس کے حوالے سے ان ممالک کے تحفظات بڑھے ہیں۔ روس سے ان چاروں ریاستوں کے اختلافات رہے ہیں۔ روس کے حوالے سے بے اعتباری تو رہے گی۔ یورپ میں امریکی دفاعی کردار کے حوالے سے اتفاقِ رائے یقینی بنائے بغیر یورپ میں اسٹرے ٹیجک خودمختاری زیادہ دیر اور زیادہ دور تک چل نہیں سکتی۔
چوتھا سبب: خود امریکہ بھی تو نہیں چاہے گا کہ یورپ کے دفاع کی ذمہ داری اُس سے لی جائے۔ اس مد میں وہ اچھی خاصی وصولی کرتا ہے، اور ہر وصولی مال کی شکل میں نہیں ہوتی۔ یورپ کے دفاع کی ذمہ داری نبھاکر امریکہ عالمی سطح پر اپنی بالادستی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ایک پورے برِاعظم کی حفاظت کی ذمہ داری نبھاکر وہ باقی دنیا کو اپنی طاقت کا بھرپور ثبوت فراہم کررہا ہے۔ دفاع کی ذمہ داری نبھانے کی صورت میں امریکہ بہت سے معاملات میں یورپ پر دباؤ بھی ڈالتا ہے اور اپنی بات منواتا ہے۔ بہت سے بین الاقوامی امور میں یورپ کو بہر طور امریکہ کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔ یورپ کے دفاع کی ذمہ داری ایک ایسا ایڈوانٹیج ہے جس سے محروم ہونا امریکہ کسی بھی حال میں پسند نہیں کرے گا۔
ساتھ ہی ساتھ یورپ کو دو امور کے لیے خاص طور پر تیار رہنا پڑے گا۔ اگر چین سے مخاصمت بڑھ گئی تو امریکی قیادت یورپ پر ہر معاملے میں ساتھ دینے کے لیے دباؤ ڈالے گی، اور اگر امریکہ نے چین کی راہ مسدود کرنے کے لیے اوشیانا کے خطے میں طویل قیام کا فیصلہ کیا تو اسٹرے ٹیجک اثاثے یورپ سے نکالنا ہوں گے۔ اس صورت میں یورپ پر دباؤ مزید بڑھے گا۔