سیاسی بحران انجام کیا ہوگا؟

کوئی شبہ نہیں رہا کہ تحریک انصاف کی حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایسے تجربے کرنے والی لیبارٹری بھی ابھی بند نہیں ہوئی بلکہ ملک میں حقیقی سیاسی قوتوں کے بجائے ایک بار پھر نئے مہرے تلاش کیے جارہے ہیں۔ ماضی میں مختلف کیمیکلز یکجا کرکے ایک گروہ تشکیل دے کر اسے پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت بنایا گیا تھا، ’’چمن اور بھی ہیں آشیاں اور بھی ہیں‘‘ کے مصداق اب کسی دوسرے سیاسی مہرے کی تلاش ہے، اور منظم جمہوری سیاسی قوتوں کے بجائے ایسے پریشر گروپ ترجیح بن گئے ہیں جو کسی بھی سیاسی قوت کو چلنے نہیں دیں گے۔ ملک کی وہ تمام سیاسی اور جمہوری قوتیں، جو اس ملک میں مضبوط معیشت اور پائیدار سیاسی نظام کی حامی ہیں انہیں آہ و فغاں کے بجائے حقیقی صف بندی کرکے انتہا پسند پریشر گروپوں کے مقابل اپنا اندازِ سیاست بدلنا ہوگا، اور ایسے شجر کی آبیاری روکنا ہوگی جس پر سیاسی نظام تلپٹ کرنے والے پرندوں کے گھونسلے بنتے ہیں۔ تحریک انصاف کوئی پہلا تجربہ نہیں تھا، اس ملک میں ایسے بے شمار تجربات کیے جاچکے ہیں۔ ان تمام تجربات کے باعث ہی ملک کا معاشی نظام اس قدر بگڑ چکا ہے کہ اب یہاں میثاقِ معیشت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ میثاق نہ ہوا تو ہماری قیادت معیشت کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کے علاوہ برادر مسلم ممالک کی دہلیز پر ہی کشکول لیے بیٹھے رہنے پر مجبور رہے گی۔ ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے کہ ’’دبائو‘‘ کام آنے لگا ہے اور اپوزیشن جماعتیں دبائو کے باعث ہی پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے مشروط تعاون پر آمادہ ہوئی ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے قائدِ حزبِ اختلاف شہبازشریف کوخط لکھا تھا، جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی لیڈرشپ سے مشاورت کے بعد انہوں نے اسپیکر کو جواب بھیجاہے کہ انتخابی اصلاحات پر نئی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، قانون سازی کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے، ورنہ یک طرفہ حکومتی ایجنڈے کی مزاحمت کی جائے گی، قانون سازی کے لیے حکومت اتفاقِ رائے پیدا کرے تاکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر مشتمل اسپیکر کی تشکیل کردہ کمیٹی انتخابی اصلاحات کے پورے پیکیج پر کام کرے اور اجتماعی رائے سے اسے تیار کیا جائے۔ چیئرمین نیب کے معاملے پر صاف جواب دیا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں کسی ایک شخص کے لیے بنائے جانے والے قانون پر ساتھ نہیں دیں گی۔ اپوزیشن نے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے لیے چیئرمین سینیٹ کی کمیٹی مسترد کردی ہے اور کہا ہے کہ حکومت، الیکشن کمیشن کو دھمکی دینے والے ارکان کو اس کمیٹی سے نکالے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن کی تجاویز پر کیا ردعمل دیتی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ رویوں میں لچک آئے گی۔ اپوزیشن نے تو متحد ہوکر حکومت کو جواب دیا ہے، لیکن حکومت کی صفوں میں اتحاد نظر نہیں آرہا، اس کے اتحادی روٹھ رہے ہیں، وزراء میں ہم آہنگی کا فقدان ہے، کابینہ میں سیاسی پس منظر اورغیر سیاسی پس منظر کے حامل وزراء دو حصوں میں تقسیم نظر آتے ہیں۔ اصل بات ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔ اس لیے مشیر خزانہ پر قرض لینے پر، اور درآمدات، برآمدات میں فرق کے باعث مشیر تجارت پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ تحریک انصاف کا ہیلتھ پروگرام بھی غیر سیاسی ارکان کے سپرد ہے۔ سیاسی پس منظر رکھنے والے وزراء اپنے ووٹرز کی جانب دیکھتے ہیں، تحریک انصاف کا ووٹر ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتا ہے اور مہنگائی سے وہ بھی پریشان ہوگیا ہے۔ مڈل کلاس، تنخواہ دار اور سفید پوش طبقہ تو مہنگائی کے ہاتھوں مارا ہی گیا ہے۔ ملکی معیشت کا حال یہ ہے کہ صرف پیٹرولیم کے شعبے میں خسارہ آٹھ سو ارب تک پہنچ چکا ہے اور ملک پر مجموعی قرض بڑھ رہا ہے، جس سے روپے کی قدر مسلسل کم ہورہی ہے۔ وزیراعظم نے بھی ملک میں کچھ کرنے اور اداروں کی اصلاح پر توجہ دینے کے بجائے تین سال گزشتہ حکومتوں کے لیے گئے قرضوں پر تنقید میں صرف کردیے، مگر اس کی بات نہیں کرتے کہ حالیہ تین برسوں میں کیا ہوا؟ جوقرضے لیے گئے ہیں ان کا بوجھ کتنا ہے؟ ان کے بدلے میں عوام کو ترقیاتی منصوبے مل جاتے تو ملک میں روزگار بھی پیدا ہوتا۔ مگر شدید ترین مہنگائی کے سوا کیا ملا؟ حکومت نے چور چور کی گردان لگائے رکھی اور اقتدار کی نصف سے زیادہ مدت گزر گئی۔ بری بلکہ بدترین کارکردگی کے باعث حکومت کو اخلاقاً الزام عائد کرنے کا حق نہیں رہا۔ وزیراعظم کو علم ہونا چاہیے کہ اس طرح کے بھاشن سے نہیں، عمل سے ملکی معیشت چلتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کے معاشی ڈھانچے کی بات ہے، زرِمبادلہ میں عبوری ریلیف مل جائے تو حالات بہتر ہوجاتے ہیں، آئی ایم ایف قسط میں تاخیر کردے تو ملکی معیشت کا رنگ پیلا پڑ جاتا ہے، جس کے بعد عالمی سامراجی طاقتیں ہمیں اپنی مرضی سے چلاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی معاشی پالیسی نہیں بن سکی۔ جو حکومت بھی معیشت کو کسی اور طریقے سے چلانے کی کوشش کرتی ہے، نکال باہر کی جاتی ہے۔ غیر مستحکم معیشت ملک کے لیے تشویشناک ہے۔ اب یہی سوال شدت سے سامنے آرہا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کی صف آرائی کی وجہ سے موجودہ نظام زندہ رہنے کے قابل ہے؟
ملکی معیشت کا منظرنامہ ایک جانب رکھ کر آج کے سیاسی بحران پر بات کی جائے تو تحریک انصاف کی حکومت اور سرپرستوں کے باہمی تعلقات کی کہانی صرف ان الفاظ میں بیان کی جاسکتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے گلہ کررہے ہیں کہ ’’ہم وفادار نہیں، تُو بھی تو دلدار نہیں‘‘۔ ان الفاظ سے زیادہ حالاتِ حاضرہ کی تشریح نہیں کی جاسکتی۔
ان دنوں ’’اہم تبدیلیوں‘‘ پر بہت بحث اور گفتگو ہورہی ہے، اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ باہمی اعتماد کے گل کی بو پھیلانے والی نسیمِ صبح اب چلنی بند ہوگئی ہے، اور تحریک انصاف اس وقت تنہا ہے۔ اتحادیوں میں مسلم لیگ(ق) کے بعد اب ایم کیو ایم بھی اشارے کی منتظر ہے۔ بنیادی نکتہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ حقائق سمجھے جائیں۔ وزیراعظم عمران خان روایتی سیاست دان نہیں، بلکہ وہ ایک سیلبریٹی ہیں۔ انسانی نفسیات کا سبق ہے کہ ایسی شخصیت ہمیشہ خودنمائی اور خودپسندی میں مبتلا رہتی ہے۔ دوسری جانب ’’ڈسپلن‘‘ کا معاملہ ہے، سیلبریٹی اور ڈسپلن دونوں سیاسی دائو پیچ سے اُس طرح واقف نہیں ہوتے جس طرح ایک روایتی سیاست دان ہوتا ہے۔ سیاست دان میں لچک ہوتی ہے، وہ کبھی اپنی گردن ریت میں دبالیتا ہے اور کبھی پورے قد کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے۔ یہ لچک ہی سیاست دان،سیلبریٹی اور ڈسپلن میں فرق کرتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنی خود نمائی اور خود پسند طبیعت رکھتے ہوئے اگر تین سال مکمل کر گئے ہیں تو یہ غنیمت ہے۔ چونکہ وہ اپنی طبیعت کے باعث فیصلوں میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہتے، یا اعتماد کا دائرہ وسیع کرنے سے گریزاں ہیں تو رد عمل میں بھی شطرنج کی بساط بچھائی گئی ہے۔ دونوں فریق بازی جیتنے کے لیے دائو پیچ لگا رہے ہیں۔ عمران خان کو اس لیے برداشت کیا جارہا ہے کہ وہ غیر فطری طور پر اقتدار سے الگ کیے گئے تو صاف صاف کہہ دیں گے کہ کٹھ پتلی بن کر نہیں رہنا چاہتا تھا لہٰذا الگ کردیا گیا ہوں۔ نوازشریف نے سیاسی زبان استعمال کی کہ مجھے کیوں نکالا؟ عمران خان سے یہ توقع نہیں ہے، وہ ایک افتاد پیدا کر سکتے ہیں۔ تاہم آئینی راستہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد لائی جائے، لیکن اپوزیشن اس معاملے میں دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے، اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم تو ٹوٹا ہی اس وجہ سے ہے۔ ایک آپشن یہ بچا ہے کہ حکومت سے غیر مقبول فیصلے کرائے جائیں، دیگ کے ایک دانے کے مصداق بی آر ٹی اسکینڈل، راولپنڈی رنگ روڈا سکینڈل منصوبے کو ری ڈیزائن کرنے کی وجہ سے منصوبے کی شفافیت پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے خریدی گئی ایل این جی مسلم لیگ (ن)کی حکومت کی خریدی گئی ایل این جی سے 3 گنا زیادہ مہنگی ہے، اور اس نے صرف ایک کارگو میں 65 ملین ڈالر کا نقصان پہنچایا جو اس حکومت کی نااہلی کا ایک مثالی کیس بنتا ہے۔ یہ دونوں غیر مقبول فیصلے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگلا سالانہ بجٹ ننگی تلوار بن کر سامنے آئے۔ کڑا بجٹ عوامی ردعمل کی طغیانی لائے گا، اور یوں وزیراعظم عمران خان کے پاس عوام کی عدالت میں جانے کا کوئی محفوظ راستہ نہیں ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہر انتخابات میں یہی کہا گیا کہ نئی قیادت ملک بچائے گی۔ کیا اگلے عام انتخابات بھی اسی طرح کے نعروں کی چھائوں میں ہوں گے؟ اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ بہترین نتائج کے لیے ملک کی سنجیدہ سیاسی جماعتوں کا ہوم ورک کیا ہے؟ ملک کی سنجیدہ سیاسی جماعتوں نے اجتماعی دانش مندی کا مظاہرہ نہ کیا تو طاقتور اشرافیہ نااہل سیاسی ہینڈلرز کی وجہ سے ملک میں من پسند نتائج لائے گی۔ اگرچہ ملک کی پارلیمنٹ کی آئینی مدت اگست2023ء تک ہے، مگر حکومت کے پاس اِس وقت عملاً چھے یا آٹھ ماہ کا وقت ہے، اس کے بعد تو ملک کی بیوروکریسی بھی کسی اور جانب دیکھ رہی ہوگی۔ لہٰذا آئندہ چھ ماہ سیاسی نظام کے لیے بہت اہم ہیں۔ اس دوران اپوزیشن حکومت پر دبائو بڑھائے گی، اس کا اصل ہدف یہ ہے کہ حکومت ملک میں عام انتخابات کا اعلان کرے۔ مسلم لیگ(ن) پنجاب اور مرکز میں تحریک عدم اعتماد نہیں چاہتی، اس کی خواہش ہے کہ تحریک انصاف جتنی زیادہ غیر مقبول ہوتی جائے اتنا ہی اس کے لیے اچھا ہے۔ اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ حکومت لانے والے اب چلائیں بھی۔ حالات کی خرابی دیکھ کر حکومت کی اتحادی جماعتوں میں مسلم لیگ (ق) اور دیگر نے بھی لائحہ عمل مرتب کرنا شروع کردیا ہے اور اتحادی جماعتیں اب اپنی قیمت وصول کرنا چاہتی ہیں کیونکہ انتخابات سر پر آرہے ہیں۔ ملک کا سیاسی منظرنامہ اپوزیشن کے کیمپ کی حد تک ابھی تک ابہام کا شکار ہے، اپوزیشن جماعتیں مشترکہ حکمت عملی بنانے کے لیے متحرک تو دکھائی دے رہی ہیں مگر متحد نہیں ہیں، جس سے اُن کی جانب سے حکومت پر وہ دباؤ دکھائی نہیں دے رہا جو ایوانوں میں تبدیلی کا سبب بن سکے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں مشترکہ عدم اعتماد کی تحریک لانے کی خواہش مند ہے، مسلم لیگ (ن) اس کے لیے راضی نہیں ہے، اس کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا سہارا لے کر حکومت کے سرپرستوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا مقصد مسلم لیگ(ن)کو سیاسی طور پر کمزور کرنا ہے، جب کہ مسلم لیگ(ن) عدم اعتماد کے بجائے نئے انتخابات چاہتی ہے۔
بڑی خبر یہ ہے کہ سپریم کورٹ بار کے نومنتخب صدر احسن بھون کا کہنا ہے کہ عوامی عہدے کے لیے تاحیات نااہلی غیر قانونی ہے۔ اس ضمن میں تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی جائے گی۔ تاحیات نااہلی کے فیصلوں پر آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کی جائے۔ آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے لیے آئینی درخواست دائر کریں گے کہ پوری عمر کی نااہلی قانون کے برخلاف ہے۔ انہوں نے کہاکہ ججوں کی سینیارٹی کا معاملہ بھی حل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ جہانگیر ترین اور نوازشریف جیسے فیصلے ایک فرد کو ٹارگٹ کرنے کے مترادف ہیں۔
پی ڈی ایم اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ سپریم کورٹ میں اے پی ایس کے واقعے کی سماعت کے دوران وزیراعظم کی عدالت میں طلبی کی اپنی ایک اہمیت ہے، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور نوازشریف دونوں عدلیہ کے ذریعے نااہل ہوئے تھے۔ وزیراعظم عمران خان سے بھی یہی کہا گیا ہے کہ عدالت کے حکم کے مطابق جو بھی اس واقعے کا ذمہ دارہے، اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے اور کارروائی کی جائے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا۔ حکم نامہ چیف جسٹس گلزار احمد نے ہی تحریر کیا۔ سپریم کورٹ نے تحریری حکم نامے میں کہا کہ وزیراعظم نے وفاقی اور ریاست کی اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونے کی یقین دہانی کروائی کہ غفلت برتنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ حکومت شہدا کے والدین کا مؤقف سُن کر مثبت کارروائی کرے۔ وفاقی حکومت اقدامات کرکے وزیراعظم کی دستخط شدہ رپورٹ پیش کرے۔ ازخود نوٹس کی اگلی سماعت چار ہفتوں کے بعد ہوگی۔ عدالت نے 20 اکتوبر کے حکم نامے پر عمل درآمد کی ہدایت کی ہے اور چار ہفتے بعد جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔

پاکستانی سیاست میں ہلچل
عدالتِ عظمیٰ کے سابق سربراہ جسٹس ثاقب نثار پر گلگت بلتستان کے سابق جج کا الزام
گلگت بلتستان کی چیف کورٹ کے سابق جج، جسٹس رانا شمیم نے ایک حلف نامے کے ذریعے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ عدلیہ سے تعلق رکھنے والی یہ دوسری شخصیت ہیں جنہوں نے ایسے اہم سوالات اٹھائے ہیں جن کی زد میں ملکی سیاست آئی ہے۔ اس سے قبل جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی راولپنڈی ہائی کورٹ بار سے خطاب کے دوران اسی نوعیت کے سوالات اٹھا چکے ہیں، جن کی پاداش میں انہیں اپنے منصب سے الگ ہونا پڑا۔ اگرچہ رانا شمیم کے بیان کے بعد سیاست میں گرما گرمی بڑھ گئی تاہم یہ کیس ذاتی نوعیت کا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ رانا شمیم کی پنشن کا معاملہ بھی ہے، اور توسیع کے حوالے سے بھی انہیں تحفظات رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں اب طے کردیا ہے کہ آئندہ گلگت بلتستان میں مقامی شخص ہی عدالت میں جج تعینات ہوگا، سو اس طرح رانا شمیم کو وہاں توسیع نہیں ملی تھی۔ جسٹس رانا شمیم نے ایک ایسے وقت میں اہم سوال اٹھایا ہے جب ملکی سیاست مدوجزر کا شکار ہے۔ جس حلف نامے کا انہوں نے سہارا لے کر بات کی ہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کا نوٹس لے کر متعلقہ فریقین کو طلب کرلیا ہے۔ جسٹس رانا شمیم کا دعویٰ ہے کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے 2018ء میں ایک جج کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ 2018ء کے انتخابات سے قبل نوازشریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کریں۔ رانا شمیم نے یہ دعویٰ ایک مصدقہ حلفی بیان میں کیا۔ جس نشست کا حوالہ دیا گیا وہ اُس وقت کی ایک نجی محفل کی ہے جب سابق چیف جسٹس دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے فنڈریزنگ کررہے تھے اور اسی مقصد کے لیے وہ فنڈ فراہم کرنے والوں کو اعتماد دلانے وہاں گئے تھے۔ اُس وقت کی گلگت بلتستان کی انتظامیہ نے ان کے دورے کو مؤخر کرنے بلکہ نہ کرنے کی تجویز دی تھی کہ اس طرح عالمی سطح پر اچھا تاثر نہیں جائے گا۔ بہرحال سابق چیف جسٹس نے اس دورے کو ایک نجی دورہ بناکر اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
جہاں تک پاکستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان عدلیہ کے دائرۂ کار کا تعلق ہے، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں ہونے والے کسی واقعے پر پاکستان کی عدلیہ کے روبرو معاملہ سماعت نہیں ہوسکتا۔ یہ کیس بھی اسی نوعیت کا ہے۔ بہرحال جو مقصد تھا وہ غالباً حاصل کرلیا گیا ہے۔ اس دعوے پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے پریس کانفرنس کی اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اظہارِ خیال کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے خبر کی اشاعت پر تمام متعلقہ افراد کو طلب کیا ہے۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان الزامات کی پُرزور تردید کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے ماتحت ججوں کو کسی بھی عدالتی فیصلے کے حوالے سے کوئی احکامات نہیں دیے۔ رانا شمیم نے اپنے دورِ ملازمت میں توسیع مانگی تھی جو انہوں نے نہیں دی تھی۔ انہوں نے رانا شمیم کے دعووں کو جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر جھوٹ کا جواب دیا جائے۔
رانا شمیم کی طرف سے حلف نامے میں کیے گئے ان انکشافات کے بعد پورے ملک میں ہلچل مچ گئی ہے لیکن ابھی تک یہ بات واضح نہیں کہ یہ حلف نامہ جمع کہاں کرایا گیا ہے اور یہ کس مقصد کے لیے تحریر کیا گیا۔ملک کے کئی حلقے یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ اگر رانا شمیم کو اس بات کا علم برسوں پہلے ہوا تھا، تو وہ اتنا عرصہ خاموش کیوں رہے؟ انہوں نے اس بات کو صیغہ راز میں کیوں رکھا اور چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف شکایت کے لیے قانونی طریقہ کار استعمال کیوں نہ کیا؟ اور اب حلف نامہ جمع کرایا۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ یہ حلف نامہ کہاں جمع کرایا گیا ہے،کیا اس کی کوئی قانونی حیثیت ہے؟
تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ مسلم لیگ(ن) عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلے لینا چاہتی ہے،عدالتوں پر دباؤ ڈالنااس کا پرانا وتیرہ ہے۔ ماضی میں عدالتوں نے جب ان کے حق میں فیصلے نہ دیے تو انہوں نے عدالتوں پر حملے کیے، اور اب یہ ان انکشافات کے ذریعے عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلے چاہتے ہیں، لیکن یہ کامیاب نہیں ہوں گے۔

سندھ میں بلدیاتی انتخابات حافظ نعیم الرحمٰن نے کراچی کا مقدمہ الیکشن کمیشن میں پیش کردیا
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن سندھ اور کراچی کے شہری مسائل اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا مقدمہ لے کر الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے اور بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کی سماعت میں ایک فریق کی حیثیت سے حصہ لیا، جہاں انہوں نے الیکشن کمیشن کے ارکان کے روبرو کراچی سمیت سندھ بھر میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے عوامی فلاح و بہبود اور ان کے سیاسی و آئینی حق کے دفاع کے لیے جماعت اسلامی کا مؤقف پیش کیا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو سندھ حکومت کے مسلسل مجرمانہ، غیر جمہوری و تاخیری حربوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے آئینی تقاضے پورے کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
حافظ نعیم الرحمٰن کی معاونت کے لیے جماعت اسلامی کراچی کے شہری و بلدیاتی امور کے نگران و پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی کراچی کے صدر سیف الدین ایڈووکیٹ بھی الیکشن کمیشن میں موجود تھے۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے الیکشن کمیشن کو ایک خط کے ذریعے کمیشن کی سماعت میں بطور فریق شریک ہونے اور جماعت اسلامی کا مؤقف پیش کرنے کی درخواست کی تھی، جسے الیکشن کمیشن نے منظور کیا اور انہیں سماعت میں شریک ہوکر اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے بعد ازاں یہاں میڈیا سے بھی گفتگو کی اور کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن سے استدعا کی ہے کہ کراچی میں فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کا اعلان کرانے کی ڈیڈلائن مقرر کی جائے اور نئی حلقہ بندیاں کی جائیں، آبادی کے تناسب سے کراچی میں یونین کمیٹیوں کی تعداد بڑھائی جائے،15دن کے اندر بااختیار شہری حکومت کا ایکٹ پاس کیا جائے۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی سماعت میں صوبائی حکومت کے نمائندے اور وزیر بلدیات کو بھی پیش ہونا چاہیے تھا، اُن کی عدم شرکت سے نظر آرہا ہے کہ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے فرار چاہتی ہے جوغیر جمہوری و غیر آئینی طرزعمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ میگا سٹی ہونے کے باوجود کراچی میں یونین کمیٹیوں کی تعداد صرف 209 ہے جبکہ اندرون سندھ یونین کمیٹیاں تقریباً 1300 ہیں، کراچی کی طرح اندرونِ سندھ کے دیگر شہروں میں بھی شہری حکومت کا نظام قائم ہونا چاہیے، کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے، اس میں میگا سٹی گورنمنٹ کا نظام قائم کیا جائے، اگر پیپلزپارٹی نے کراچی پر سیاسی قبضے کی سیاست جاری رکھی تو جماعت اسلامی اس کے خلاف ہر ممکن اقدامات اور ہر قسم کا آئینی و جمہوری طریقہ اختیار کرے گی، اب کراچی سمیت سندھ میں بھی وڈیرہ شاہی نظام نہیں چلنے دیا جائے گا، جماعت اسلامی وڈیرہ شاہی نظام کے خلاف عوام کی قوت کے ساتھ احتجاج کرے گی، بلدیاتی انتخابات کے خلاف سندھ حکومت کی سازشیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے، کراچی سمیت پورے صوبے کے عوام کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔ انہوں نے مزید کہاکہ آئین و قانون کے مطابق اگست 2019ء میں بلدیاتی انتخابات ہوجانے چاہیے تھے، بلدیاتی حکومت بنیادی طور پر جمہوریت کی نرسری ہے، ملک میں تعمیر و ترقی کے کام لوکل باڈیز کے بغیر ممکن نہیں ہوتے، بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں اور سیاسی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانے سے انحراف کرتی ہیں،اور بلدیاتی انتخابات نہ کراکر اقتدار اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتی ہیں جو کہ آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے3 کروڑ سے زائد عوام کے حقوق اور شہرِ قائد کے مسائل کے حل کے لیے تحریک چلا رہی ہے۔ سندھ حکومت نے کراچی کے تمام اداروں پر قبضہ کیا ہوا ہے، حتیٰ کہ کچرا اٹھانے کا کام بھی صوبائی حکومت نے اپنے ذمے لے لیا ہے، واٹر بورڈ کو بھی اپنے ماتحت کرلیا ہے اور کے بی سی اے کو تبدیل کرکے ایس بی سی اے کردیا ہے، بلدیہ کے تحت چلنے والے تعلیم اور صحت کے اداروں پر بھی سندھ حکومت قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ جمہوریت کی رٹ لگانے والی پیپلزپارٹی نے بلدیاتی انتخابات کرانے کے بجائے سیاسی ایڈمنسٹریٹر متعین کردیا۔ سیاسی ایڈمنسٹریٹر کی آڑ میں بیوروکریسی، وڈیرے اور جاگیردار اپنا کھیل کھیل رہے ہیں، لسانیت و عصبیت کو پروان چڑھا رہے ہیں، جعلی ڈومیسائل کے ذریعے من پسند لوگوں کی بھرتیاں کی جارہی ہیں، بلدیاتی اداروں میں بھی تعصب ولسانیت کی بنیاد پر بھرتیاں کی جارہی ہیں، اس وقت کراچی میں حلقہ بندیوں میں بھی شدید ناانصافی کی گئی ہے۔