ابو یعقوب مراکش کے شہزادے تھے اور انہوں نے بادشاہی چھوڑ کر درویشی اختیار کرلی تھی۔ وہ محنت و مشقت کرکے روزی کماتے اور خدا کا شکر ادا کرتے۔ انہوں نے دیانت و امانت کی نادر مثال پیش کی۔ شاہی محل چھوڑ کر ابویعقوب نہایت خستہ حالت میں دمشق پہنچے۔ وہ روزگار کی تلاش میں تھے، شہر کے داروغہ سے ملے، اور داروغہ نے انہیں بادشاہ کے ایک باغ کی رکھوالی پر لگا دیا اور کہا کہ ’’چوروں اور پرندوں سے باغ کی حفاظت کرنی ہے، پانی دینا ہے اور اسے صاف ستھرا رکھنا ہے‘‘۔ وہ دن رات نگرانی کا کام کرتے رہے۔ اس طرح چھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا اور ایک روز بادشاہ (نورالدین زنگیؒ) باغ میں سیر کے لیے آیا۔ امیر وزیر ساتھ تھے۔ خیمے لگائے گئے اور داروغہ نے انار پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ ابویعقوب کو انار لانے کا حکم دیا۔ ابویعقوب نے انار توڑ کر بادشاہ اور درباریوں کے سامنے پیش کیے۔ بادشاہ نے انار چکھا اور رکھ دیا۔ معلوم ہوا کہ کھٹا ہے۔ داروغہ بڑا شرمندہ ہوا اور ابویعقوب سے میٹھے انار توڑ کر لانے کے لیے کہا۔ دوبارہ جو انار توڑ کر لائے گئے وہ بھی کھٹے نکلے۔ داروغہ کو غصہ آیا اور ابویعقوب کو ڈانٹتے ہوئے اس نے کہا ’’تمہیں باغ کی نگرانی کرتے ہوئے چھ ماہ ہوگئے ہیں مگر ابھی تک کھٹے اور میٹھے اناروں کی پہچان نہیں کرسکے!‘‘ ابویعقوب نے کہا ’’آپ نے مجھے باغ کی نگرانی کے لیے رکھا ہے، انار چکھنے اور کھانے کے لیے نہیں، میں کیا جانوں کس درخت کے انار کھٹے اور کس کے میٹھے ہیں؟‘‘ بادشاہ کو معلوم ہوا تو وہ ابویعقوب کی امانت و دیانت پر حیران رہ گیا، اور جب اسے معلوم ہوا کہ ابویعقوب تو دوسرے ملک کے شہزادے ہیں تو وہ ان سے بہت متاثر ہوا۔ ابویعقوب کا مزار آج بھی بیروت میں موجود ہے۔ اسی قسم کا ایک قصہ عبداللہ ابن مبارکؒ کے والد مبارکؒ سے بھی منسوب ہے۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔ فروری 2021ء)