قال رسول اللہ ﷺ
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا :
”اللہ تعالیٰ اس قرآن مجید سے کچھ لوگوں کو ( جو اسے پڑھ کر عمل کرتے ہیں) عزت دیتا ہے، اور کچھ لوگوں کو ( جو اس پر عمل نہیں کرتے ) ذلت میں مبتلا کرتا ہے“۔
(مسلم ،کتاب فضائل القرآن)
ہدایت: فاطرِ ہستی کا کسی شے پر اُس کے فطری وظیفہِ حیات کو سرانجام دینے کے لیے علم و عمل کی راہیں کھول دینا اصطلاحِ قرآنی میں ہدایت کہلاتا ہے۔
متقی: جس انسان کے اندر صراطِ مستقیم پر چل کر اللہ تعالیٰ کا قرب و رضوان حاصل کرنے کی آرزو پیدا ہوجائے اُسے قرآن حکیم متقی کہتا ہے۔
سورۂ فاتحہ کے بعد قرآنِ حکیم کا آغاز ہی اس حقیقت کے آشکار سے ہوتا ہے کہ صرف یہ کتاب ہے جو اللہ کا قرب و رضوان حاصل کرکے جنت کے متلاشیوں کے لیے امتحان گاہِ دنیا میں زندگی کرنے کے لیے علم و عمل کی راہیں کھول دیتی ہے۔
چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
الم ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ(البقرہ2:2-1)
یہ بات کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ یہ وہ عظیم کتاب ہے جو ہدایت کی آرزو اور گمراہی کا ڈر رکھنے والوں (یعنی متقیوں) کی راہِ راست و منزلِ مقصود (یعنی جنتِ قرۃ العین) کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
مسلمانوں کے لیے رب رحمٰن کی ہدایت ہے:
(ترجمہ)’’اے لوگو! جو ایمان لاکر دینِ اسلام میں داخل ہوئے ہو، یعنی اے مسلمانو! ایمان لائو اللہ پر اور اُس کے رسولؐ اور اُس کتاب پر جو اُس نے نازل کی ہے اپنے رسول پر (یعنی قرآنِ حکیم پر) اور ہر اُس کتاب پر جو وہ پہلے نازل کرچکا ہے (اپنے رسولوں علیہم السلام پر)۔ جس نے انکار کیا اللہ کا، اُس کے فرشتوں کا، اُس کی کتابوں اور رسولوں کا، اور روزِ آخرت کا، تو یقیناً وہ راہِ راست سے بہت دور بھٹک گیا۔“ (النسا4: 136)
چونکہ قرآنِ حکیم کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لے رکھی ہے، اس لیے یہ ساڑھے چودہ صدیاں گزر جانے کے باوجود اپنی اصل حالت میں موجود ہے، اور قرآنِ حکیم کے احکام و قوانین اور ہدایات و تعلیمات پر عمل کرنا اور پیروی فقط پیغمبر اعظم و آخرؐ کی کرنا ہم پر فرض ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
(ترجمہ)”(اصل یہ ہے کہ اے بنی نوعِ انسان!) تمہارے لیے اللہ کے رسولؐ کی سنتِ حسنہ میں حیات ِطیبہ بسر کرنے کا مثالی و حسین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو امیدوار ہو اللہ تعالیٰ کے قرب و رضوان اور جنتِ قرۃ العین کا، کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہو، اور اُس کے احکام اور اوامرو نواہی کے اظہار و ابلاغ (Expression and communication) کے لیے پوری دلجمعی سے سرگرم ِعمل رہتا ہو۔“ (الاحزاب33:21)
ان آیات پر تفکر بالحق یعنی قرآنِ حکیم کی روشنی میں غور و فکر کرنے سے اِستنباط ہوتا ہے کہ پیغمبر اعظم و آخرؐ کی مکمل پیروی کرتے ہوئے قرآنِ حکیم کے احکام و قوانین اور ہدایات و تعلیمات پر عمل کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ جو لوگ اپنے علما و اکابرین کی باتوں کو یہی درجہ دیتے ہیں وہ گمراہی میں بہت دور جا پڑتے ہیں۔
رب کائنات کا ارشاد ہے:
(ترجمہ) ”(مشرک جب الٹے منہ جہنم میں دھکیلے جائیں گے) وہ اس واقعیت کا اقرار کریں گے کہ ہم اپنے سادات اور اکابرین کا کہا مانا کرتے تھے، نتیجتاً، ہم پر صراطِ مستقیم یعنی جنت کو جانے والی راہِ راست گم کردی گئی۔“ (الاحزاب: 33:67)
”وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مشائخ یا علما (Priests) اور راہبوں (Monks) کو اپنے اَن داتا اور خدا بنالیتے ہیں، نیز مریمؑ کے بیٹے مسیحؑ کو بھی، حالانکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ صرف معبودِ یکتا (یعنی اللہ تعالیٰ) کی اطاعت و فرماں برداری کریں۔ (حقیقت یہ ہے کہ) اُس کے سوا کوئی معبود و حاکم اور مطاع ہے ہی نہیں۔“ (التوبہ9:31)
(حدیث ِنبویؐ) حضرت عدیؓ بن حاتم جو پہلے عیسائی تھے، رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے تو انہوں نے آپؐ سے عرض کی کہ مذکورہ بالا آیات میں ہم پر اپنے علما اور درویشوں کو اپنا رب بنالینے کا جو الزام عائد کیا گیا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے۔ ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کیا ایسا نہیں ہے کہ جس بات کو وہ حرام ٹھیرا دیتے ہیں تم حرام سمجھ لیتے ہو، اور جس بات کو حلال قرار دیتے ہیں، تم حلال مان لیتے ہو؟‘‘ عرض کیا:’’ہاں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے‘‘۔ (ترمذی، البیہقی)
مرزا اسد اللہ خان غالب نے قرآنِ حکیم اور حدیثِ طیبہ کی روشنی میں کس خوب صورتی سے اپنے سادات و اکابرین کی حیثیت کو آشکار کیا ہے:؎
لازم نہیں ہے ہم پہ تیری پیروی کریں
مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
اس تمام گفتگو سے استنباط ہوا کہ ہدایات و تعلیمات اور احکام و قوانین اللہ تعالیٰ کے اور پیروی فقط حضرت محمدؐ کی ہم پر لازم ہے۔
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
’’عبرت حاصل کرو اے دیدۂ بینا رکھنے والو!‘‘ (الحشر95:2)