داستانِ عزم

کتاب
:
داستانِ عزم
خود نوشت
مصنف
:
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
بہ اہتمام
:
علامہ عبدالستار عاصم، محمد فاروق چوہان
ناشر
:
قلم فائونڈیشن، انٹرنیشنل
ملنے کا پتا
:
قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک اسٹاپ، والٹن روڈ لاہور کینٹ، پاکستان
فون
:
0300-0515101
0323-4393422
ای میل
:
qalamfoundation2@gmail.com

شکیل بدایونی نے کہا تھا:
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
ہوا کچھ یوں کہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنی زندگی کی کہانی جسے آخری عمر میں بیتنے والے واقعات کی روشنی میں نوحہ کہا جاسکتا ہے، لکھ رہے تھے تو انہوں نے قلم فائونڈیشن کے علامہ عبدالستار عاصم سے ذکر کیا کہ کتاب جب مکمل ہوجائے تو روزنامہ جسارت کے چیف ایڈیٹر اطہر ہاشمی صاحب کو بھی ایک نسخہ بھجوا دینا۔ لیکن اطہر ہاشمی 6 اگست 2020ء کو ڈاکٹر صاحب کی کتاب پہنچنے سے قبل وہاں پہنچ گئے جہاں سب ہی کو پہنچنا ہے۔ بہرحال یہ کتاب قلم فائونڈیشن نے شائع کردی اور جسارت کے موجودہ چیف ایڈیٹر شاہنواز فاروقی صاحب کے پاس پہنچی، جو انہوں نے ہمارے حوالے کردی۔ کتاب واقعی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تمام مراحل سے واقف کرنے والی ہے، اس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جتنا مشکل سینٹری فیوج کو قابل استعمال بنانے اور یورینیم افزودگی کا عمل تھا اس سے زیادہ مشکل عمل ڈاکٹر قدیر خان کا اس منصوبے پر کام کرنا تھا۔ قدم قدم پر رکاوٹیں.. اگرچہ حکومت اور اعلیٰ قیادت نے مکمل فری ہینڈ دیا ہوا تھا لیکن اپنے ہی بہت سے لوگ اس منصوبے کی ناکامی کے خواہاں تھے۔ لیکن بدخوابوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ڈاکٹر قدیر نے ”کہوٹہ کی تاریخ“ کے نام سے جو باب تحریر کیا ہے وہ پوری تاریخ کو سمیٹے ہوئے ہے۔ باقی سب ”کہوٹہ میں بیتے لمحات کی کہانی“ میں مل جائے گا۔ ویسے تو ڈاکٹر قدیر کی اصل زندگی ہی کہوٹہ میں گزری، بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کہوٹہ ان کی زندگی تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب میں جگہ جگہ مختلف شعرا کے اشعار سے مدد لی ہے، ان میں سے ایک مرتضیٰ برلاس کا شعر بھی ہے:
ریا کے دور میں سچ بول تو رہے ہو مگر
یہ وصف ہی نہ کہیں احتساب میں آئے
ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب ”داستانِ عزم“ میں کئی سرکاری خطوط اور اپنے بارے میں حکام کی جانب سے سند بھی شامل کی ہے۔ حالانکہ اگر بھٹو سے لے کر نوازشریف، رفیق تارڑ اور دیگر حکام ایک لفظ بھی نہ لکھتے تو ڈاکٹر قدیر بلاشبہ اس سے بھی بڑے آدمی تھے۔ انہوں نے مال و دولت کے ڈھیر پر بیٹھ کر فقیروں والی زندگی گزاری۔ اپنے حالات کی عکاسی ڈاکٹر صاحب نے اپنے ہی شعر کے ذریعے کردی:
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
شاید ڈاکٹر صاحب کا یہ شعر اُن کی کتاب کو سمجھانے کے لیے کافی ہے۔ اس اعتبار سے کتاب کا نام ”داستانِ عزم“ کے بجائے داستانِ غم بھی ہوسکتا تھا۔