تسامحات یاغلطیاں

سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع کردہ گیارھویں جماعت کی نئی درسی کتاب

سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ، جام شورو نے تیس سال کی طویل ’’ریاضت‘‘کے بعد گیارھویں جماعت کی اردو کی کتاب ’’گلزارِ اردو‘‘کے نصاب کو تبدیل کردیا اور ایک نئی کتاب ’’گلزارِ اردو‘‘ کے نام ہی سے آزمائشی بنیادوں پر شائع کی ہے۔ یہ نہایت قابلِ تحسین عمل ہے کہ نصاب کو تبدیل کیا گیا ہے، لیکن اس کتاب کے مطالعے سے بعض ایسی غلطیاں سامنے آئیں جو کسی نصابی کتاب میں نہیں ہونی چاہئیں، کیوں کہ نصاب سازی ایک ادارے کا کام ہے، لہٰذا ایسی غلطیاں ادارے اور نصاب سازی میں شامل کمیٹی کی اہلیت اور قابلیت پر بھی سوالیہ نشان لگا سکتی ہیں۔ ہم اس مضمون میں درسی کتاب میں راہ پا جانے والی غلطیوں کی نشاندہی اس امید پر کررہے ہیں کہ مستقل بنیادوں پر شائع کرنے سے قبل یہ غلطیاں درست کرلی جائیں، تاکہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے ادارے اور اس سے وابستہ مؤلفین اور مرتِّبین کا اعتبار بھی قائم رہے۔
۱۔ نصاب کے آغاز میں اساتذہ کے لیے اس نصاب کو پڑھانے سے قبل کچھ رہنما اصول پیش کیے گئے ہیں۔ اس میں قواعد پڑھانے کے اصول بیان کرتے ہوئے ایک جگہ یوں درج ہے:
’’صنعتِ تضاد سکھانے کے لیے پہلے پڑھیے اور پڑھوائیے:
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
(ص ۷)
پھر اس شعر میں متضاد الفاظ زمین اور آسمان کی جانب توجہ دلائیے اور بتائیے کہ جب کسی شعر میں ایسے دو الفاظ استعمال کیے گئے ہوں جو معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے الٹ ہوں تو اسے ’’صنعتِ تضاد‘‘ کہیں گے۔‘‘
اساتذہ کی رہنمائی کے لیے جو شعر مثال میں درج ہے وہ دو شعرا کے الگ الگ اشعار کا ملغوباہے۔ پہلا مصرع خواجہ حیدر علی آتشؔاور دوسرا مصرع امیر مینائی کا ہے۔اصل اشعار یوں ہیں:
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِدارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
(آتشؔ) [۱]
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
(امیر مینائی)[۲]
مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں اشعار کے دوسرے مصرعوں کو ملاکر شعر بنادیا گیا ہے۔ یہاں مرتبین کے مذاقِ شعر کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی کہ انھوں نے دو شعراء کی ان غزلوں کا انتخاب کیا جو ایک ہی زمین میں ہیں۔
۲۔اس کتاب میں مسدس کی ہیئت میں دو نظمیں ہیں۔ ایک نظیر اکبر آبادی کی ’’رہے نام اللہ کا‘‘ اور دوسری میر انیس ؔ کا مرثیہ ’’یارب! چمنِ نظم کو گلزارِ ارم کر‘‘۔ زمانہ طالب علمی ہی سے اساتذہ سے مسدس لکھنے اور پڑھنے کے دو طریقے سیکھے اور وہی کتابوں میں بھی پائے۔ اول یہ کہ مسدس کے ابتدائی چار مصرعے مسلسل لکھ کر آخری دو مصرعے اس کے نیچے یا تھوڑا بائیں طرف لکھ دیے جائیں، اور دوسرا یہ کہ پہلے چار مصرعے (دو اشعار) آمنے سامنے لکھ کر آخری شعر نیچے ان مصرعوں کے درمیان میں لکھا جائے۔ یہی معروف طریقہ ہے جس میں مسدس حالی، اقبال کی شکوہ، جوابِ شکوہ اور انیس ؔ و دبیر کے مرثیے بھی مطالعہ کیے۔ نصاب میں شامل پہلی مسدس نظم ’’رہے نام اللہ کا‘‘ میں تو یہی معروف طریقہ اپنایا گیا ہے، جب کہ میر انیسؔ کے مرثیے میں نئی اختراع کی گئی ہے۔ یعنی ابتدائی دو مصرعے (ایک شعر) اوپر نیچے لکھ کر اس کے سامنے دو مصرعے لکھے گئے ہیں، اور آخری دو مصرعے ان کے درمیان لکھے گئے ہیں، جس سے اس مسدس کو پڑھتے ہوئے نوآموز اساتذہ اور طلبہ شدید پریشانی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو میر انیسؔ کی فصاحت کا کہ انھوں نے ایسے رواں اور پُراثر اشعار لکھے ہیں کہ اس غلطی کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا، پڑھنے والا غلط ہی پڑھ جاتا ہے۔ باادب گزارش ہے کہ اگر ایسی نئی اختراع کرنی ہی تھی تواس کی وضاحت کی جاتی، یا دونوں مسدس میں ایک طریقہ اپنایا جاتا۔ ایک نصاب میں دو طریقے مناسب معلوم نہیں ہوتے۔
۳۔نظم و نثر کی مشقوں میں بعض ایسے سوالات بھی شامل ہیں جو نصاب میں شامل حصے میں موجود ہی نہیں۔ جیسے خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی نظم ’’چپ کی داد‘‘ شامل ِ نصاب ہے اور مشق کے سوال نمبر (۱)کے حصۂ (د) میں پوچھا گیا ہے کہ: ’’آتی ہو اکثر بے طلب‘‘ کہہ کر حالی ؔ نے معاشرے کی کس خرابی کی طرف اشارہ کیا ہے؟‘‘ (ص ۱۳۵)
جب کہ پوری نظم میں وہ شعر شامل ہی نہیں جس میں حالیؔ نے مذکورہ بات کہی ہے۔ دراصل یہ نظم حالیؔ کی ترکیب بند نظم ’’چپ کی داد‘‘کا پہلا بند ہے جس کا آخری شعر کچھ یوں ہے:
آتی ہو اکثر بے طلب، دنیا میں جب آتی ہو تم
پر موہنی سے اپنی یہاں، گھر بھر پہ چھا جاتی ہو تم
[۳]
نصاب میں پہلے بند کا یہی شعر شامل نہیں کیا گیا اور جس کا سوال دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اقبال عظیم کی نعت کی مشق میں تراکیب کی وضاحت کے سوال میں ایک ترکیب’’عمرِ رواں‘‘پوچھی گئی ہے۔ (۱۲۲)،یہی لفظ کتاب کے آخر میں نعت کی فرہنگ میں بھی شامل ہے، جب کہ اقبال عظیم کی شاملِ نصاب نعت اور اصل نعت میں بھی یہ ترکیب شامل نہیں ہے۔[۴]
۴۔نصاب میں شامل نظم و نثرمیںمتعدد جگہوں پر ٹیکسٹ بک بورڈ کے مرتبین و مؤلفین(کتاب میں مصنفین؍مؤلفین لکھا ہے)نے الفاظ کو بدل دیا ہے۔یہ خامی نثر میں بھی کئی جگہوں پر موجود ہے،کہیں لفظ تبدیل ہوا ہے تو کہیں پورا جملہ ہی بدل یا کاٹ دیا گیا ہے،مثال کے لیے صرف منشی پریم چند کا افسانہ ’’زیور کا ڈبا‘‘ دیکھا جا سکتا ہے۔[۵]
۵۔ مشقوں میں بھی یہی صورتِ حال ہے جیسے مسدس کی تعریف میں لکھا ہے کہ: مسدس اس نظم کو کہا جاتا ہے جس کا ہر بند مصرعوں کا ہو۔‘‘ (ص ۱۲۷) اس جملے میں لفظ ’’چھے‘‘ شامل ہی نہیں۔ اس طرح کی متعدد اغلاط ہیں۔ حصۂ نظم میں بھی یہ خامی دیکھی جا سکتی ہے۔ نثر میں تو الفاظ کی تبدیلی یا کمی سے زیادہ فرق نہیں پڑتا مگر اس سے تخلیق کی روح ضرور کمزور ہوجاتی ہے، لیکن شاعری میں لفظ کی تبدیلی پورے شعر کے مفہوم کو بدل دیتی ہے۔ اس لیے یہاں احتیاط کرنی چاہیے تھی۔ اقبال عظیم کی شاملِ نصاب نعت کے آخری شعر کا مصرعِ اولیٰ ہے: ’’مستقل ان کی چوکھٹ عطا ہو، میرے معبود یہ التجا ہے‘‘(ص ۱۲۲)۔ جب کہ اقبال عظیم کی نعتیہ کلیات ’’زبورِ حرم‘‘ میں اس نعت میں لفظ ’’چوکھٹ‘‘ کی جگہ ’’ڈیوڑھی‘‘ درج ہے۔[۶]
۶۔ میر حسن کی شاملِ نصاب نظم ’’داستان تیاری میں باغ کی‘‘ ان کی مشہور مثنوی ’’سحر البیان‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اس نظم کے شاملِ کتاب پانچویںشعر کا دوسرا مصرع یوں لکھا ہے ’’کہ مہ کا بندھا جس میں تارِ نظر‘‘(۱۲۸)۔ جب کہ مثنوی سحرالبیان میں ’’جس‘‘ کی جگہ ’’جن‘‘ہے۔[۷] اسی نظم کے نویں شعر کا پہلا مصرع کتاب میں یوں ہے ؎وہ مخمل کا فرش اس کا ستھرا کہ بس‘‘(ص ۱۲۸)۔ جب کہ اصل مثنوی میں ’’اس کا‘‘کی جگہ ’’اس میں‘‘ درج ہے۔[ ۸]
۷۔میر انیس ؔ کے شاملِ نصاب مرثیے میں ہیئت کی تبدیلی کا تذکرہ پہلے کیا جا چکا ہے۔ اس مرثیے کے دوسرے بند کا پہلا مصرع کتاب میں یوں شامل کیا گیا ہے ؎ اس باغ میں چشمے ہیں ترے فیض کے جاری‘‘۔جب کہ اصل مرثیے میں’’اس باغ‘‘ کی جگہ ’’ہر باغ‘‘درج ہے۔[۹] دیکھیے اس ایک لفظ کی تبدیلی سے معنویت کس حد تک متاثر ہوتی ہے۔
۸۔خواجہ میر درد کی پہلی غزل کے دوسرے شعر کا پہلا مصرع کتاب میں یوں درج ہے ؎ جس مسندِ عزت پہ کہ تُو جلوہ نما ہے‘‘ (۱۵۷)۔ جب کہ خواجہ میر درد کے دیوان میں ’’جس‘‘ کی جگہ ’’اُس‘‘ درج ہے۔[۱۰] دوسری غزل کے چوتھے شعر کا پہلا مصرع یوں درج ہے ؎’’غافل خدا کی یاد پہ مت پھول زینہار‘‘ جب کہ اصل دیوان میں ’’مت پھول‘‘ کی جگہ ’’مت بھول‘‘ درج ہے۔[۱۱] اسی غزل کے آخری شعر کا پہلا مصرع کتاب میں یوںہے ؎ ’’گو بحث کرکے بات بنائی تو کیا حصول‘‘ جب کہ اصل دیوان میں ’’گو بحث کرکے بات بٹھائی بھی کیا حصول‘‘ درج ہے۔[۱۲]
۹۔ خواجہ حیدر علی آتشؔ کی پہلی غزل کے چوتھے شعر کا پہلا مصرع یوں درج ہے ؎ طبل و علم ہے پاس نہ اپنے ہے ملک و مال‘‘ (ص ۱۶۳) جب کہ کلیاتِ آتش ؔمیں مصرع یوں درج ہے ؎ طبل و علم نہ پاس ہے اپنے نہ ملک و مال‘‘[۱۳]۔ پانچویں شعر کا دوسرا مصرع کتاب میں یوں لکھا ہے ؎ ’’دیکھو تو موت ڈھونڈ رہی ہے فسانہ کیا‘‘ دیکھو کی جگہ ’’دیکھوں‘‘ درج ہے۔ [۱۴]
۱۰۔نعت کی مشق میں تشبیہ کی تعریف کے ساتھ اس کو بیان کرنے کا چارٹ بھی دیا گیا ہے اور ساتھ نعت میں تشبیہ تلاش کرنے کا پوچھا گیا ہے۔(ص ۱۲۴)
پوری نعت میں کوئی ایسا شعر موجود نہیں جس میں تعریف کے مطابق کوئی تشبیہ موجود ہو اور اس کے تمام جزو بھی بیان کیے جا سکیں۔ نعت کے اشعار میں استعارے تو واضح ہیں لیکن تشبیہ مبہم ہے۔ اس لیے ایسے سوالات دیتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ کیا طلبہ ان کے جواب دے سکتے ہیں؟
۱۱۔ داغ ؔدہلوی کی غزل کی مشق میں استعارے کی تعریف دی گئی ہے جس میں خاصی اغلاط ہیں، اور تعریف اور ان کی مثالوں میں ابہام پیدا ہوگیا ہے۔ استعارے سے قبل چار جملے دیے گئے ہیں:
(الف) آئے نکل کے ابنِ علیؓ شیر کی طرح (تشبیہ)
(ب) کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے (استعارہ)
(ج) ’’میرے چاند سے بیٹے ادھر آ۔‘‘ (تشبیہ)
(د) میرے چاند ادھر آ۔‘‘(استعارہ) (ص ۱۶۹)
ان مثالوں کے بعد ان کی وضاحت میں لکھا ہے کہ:
’’مثال(الف) میں امام حسین ؓ کو شیر جیسا کہا گیا، لیکن جزو (ب) میں صرف شیر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جب کہ شیر سے مراد حضرت امام حسین ؓ ہی ہیں۔‘‘
جب کہ مذکورہ مرثیہ حضرت عباس ؓ کے لیے لکھا گیا ہے اور یہاں شیر سے مراد بھی حضرتِ عباس ہیں۔[۱۵]
مزید لکھا ہے: مثال (ج) میں ایک ماں اپنے بچے کو جیسا کہہ رہی ہیں مگر جزو (د) میں ماں اسی بچے کو شیر کہہ کر مخاطب کررہی ہیں۔‘‘
درج بالا تفصیل میں بھی ابہام ہیں، اول تو ماں اپنے بچے کو جیسا کہہ رہی ہے کی جگہ’’چاند جیسا‘‘ہونا چاہیے۔ جب کہ جزو (د) میں ماں نے بچے کو چاند کہا ہے شیر نہیں۔ (ص ۱۶۹) اس طرح کی واضح اغلاط توجہ طلب ہیں۔
٭اس کتاب میں شامل نثر نگاروں اور شاعروں کے تعارف اور ان کی تصانیف میں بھی غلطیاں موجود ہیں۔ ان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہیں کہیں مآخذ بیان کرنے کی وجہ سے طوالت کا احساس ہوگا لیکن تحقیق میں ادب کے حوالوں کی درستی بہت ضروری ہے، کیوں کہ غلط تفصیلات کا تسلسل سے استعمال غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے۔ جب کہ نصابی کتب حوالہ جاتی کتابوں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہونی چاہئیں۔ یہ نشان دہی آنے والے ایڈیشن میں ان خامیوں کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔
۱۲۔ خواجہ حسن نظامی کی پیدائش کا سال ۱۸۶۳ء لکھا گیا ہے، جب کہ پچھلی نصابی کتاب میں یہ سال ۱۸۷۸ء درج ہے۔ (ص ۲۰) جب کہ ’’خواجہ حسن نظامی ؒ کی حیات اور کارنامے‘‘کے موضوع پر ان کے بیٹے خواجہ حسن ثانی نظامی کے مرتب کردہ مقالات کے مجموعے میں ان کا سال پیدائش ۲ محرم، ۲ ۱۲۹ہجری درج ہے۔[۱۶] جسے سنِ عیسوی میں بدلنے پر ۷۹۔۱۸۷۸ء بنتا ہے۔ اس لیے خواجہ حسن نظامی کا درست سالِ پیدائش ۱۸۷۸ء قرار پاتا ہے۔
۱۳۔ اس کے علاوہ خواجہ حسن نظامی کی تصانیف کے ذیل میں ایک کتاب ’’دہلی کی آخری شمع‘‘ بھی شامل ہے جو مرزا فرحت اللہ بیگ کی تخلیق ہے۔ یہ مضمون ’’دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ‘‘کے نام سے پہلے رسالہ اردو، اور پھر مضامین فرحت میں بھی شائع ہوا۔ خواجہ حسن نظامی نے مصنف کی اجازت سے اسے غدر دہلی کے افسانوں کے گیارھویں حصے کے طور پر ’’دہلی کی آخری شمع‘‘ کے نام سے حلقۂ مشائخ بکڈپو، دہلی سے ۱۹۲۸ء میں شائع کیا تھا۔ یہ تصنیف مرزا فرحت اللہ بیگ کی ہے جو خواجہ حسن نظامی نے شائع کی۔[۱۷]
۱۴۔ آغا حشر کاشمیری کی تاریخِ پیدائش کتاب میں ۱۳ اپریل ۱۸۷۹ء اور مقامِ پیدائش امرتسر درج ہے۔(ص۶۸) پہلی بات یہ کہ ان کی تاریخِ پیدائش کہیں بھی ۱۳ اپریل درج نہیں ہے۔ صرف عشرت رحمانی نے ۳ اپریل درج کیا ہے، جب کہ ابراہیم یوسف، بادشاہ حسین سمیت اہم محققین نے آغا حشر کاشمیری کے چھوٹے بھائی آغا محمود شاہ کے حوالے سے ان کی تاریخ ِ پیدائش یکم اپریل ۱۸۷۹ء درج کی ہے۔ جب کہ مقامِ پیدائش بنارس لکھا ہے۔ [۱۸]
۱۵۔ مرزا غالبؔ کی تصانیف میں ’’لطائفِ غیبی‘‘ اور ’’قاطع برہان‘‘ کو (لغات) شمار کیا گیا ہے۔ (ص ۱۰۹،ص ۱۶۶) جب کہ یہ دونوں تنقیدی نوعیت کی کتابیں ہیں۔ ’’قاطع برہان‘‘ اُن اعتراضات کا مجموعہ ہے جو انھوں نے محمد حسین برہان تبریزی کی مشہور فارسی لغت ’’برہان قاطع‘‘ پر کیے تھے [۱۹]۔ اسی تصنیف کے بعد اس سلسلے میں متعدد جوابی کتب لکھی گئیں، ان میں سے ایک کتاب ’’محرق قاطع برہان‘‘ کے جواب میں ’’لطائفِ غیبی‘‘ لکھی گئی جو غالبؔ کے شاگرد میاں داد خان سیاحؔ کے نام سے شائع ہوئی اور جسے تمام محققین نے غالب کی تصنیف شمار کیا ہے۔[۲۰] اس لیے ان کتابوں کا لغات میں شمار سمجھ سے بالا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تصنیف ’’پنج آہنگ‘‘ کو خطوط کے ذیل میں شامل کیا گیا ہے۔ جب کہ فارسی کی یہ تصنیف پانچ حصوں پر مشتمل ہے جس کے صرف پانچویں حصے میںغالب کے مکتوبات شامل ہیں۔[ ۲۱]
۱۶۔ مشفق خواجہ کے باب میں ان کی تصانیف کے ذیل میں ایک تصنیف’’خوش معرکۂ زیبا‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔جب کہ یہ ان کی تصنیف نہیں بلکہ یہ سعادت خان ناصر کے مشہور تذکرے ’’خوش معرکۂ زیبا‘‘کی تدوین ہے جو انھوں نے کی۔[۲۲]اسی طرح ایک کتاب کا نام ’’غالب اور صغیر بلگرامی‘‘ دیا گیا ہے جب کہ کتاب کااصل نام ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘ہے۔
۱۷۔ اقبال عظیم کی تصانیف کے ذیل میں ان کی کتاب کا نام ’’مشرقی پنجاب میں اردو‘‘ دیا گیا ہے۔ (ص ۱۲۲) جب کہ ان کی تصنیف ’’مشرقی بنگال میں اردو‘‘کے نام سے ہے۔[۲۳]
۱۸۔ ابن ِ انشا ء شاعر اور نثر نگار(مزاح نگار؍ سفرنامہ نگار) کے طور پر مشہور ہیں اور ان کے تعارف میں (ص ۱۰۵) ان کی نثری و شعری تصانیف دی گئی ہیں۔لیکن احمد ندیم قاسمی جو افسانہ نگار اور شاعر کے طور پر مقبول ہیں ان کے تعارف میں صرف افسانوں کے مجموعوں کی تفصیلات دی گئی ہیں(ص ۵۴) اور کوئی شعری مجموعہ نہیں بتایا گیا،جب کہ انھیں تین مجموعوں ’’دشتِ وفا‘‘،’’محیط‘‘ اور’’دوام‘‘ پر بالترتیب ۱۹۶۳ء،۱۹۷۶ء اور ۱۹۷۹ء میں آدم جی ادبی ایوارڈ مل چکا ہے۔[۲۴] دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے جس افسانوی مجموعے ’’بازارِ حیات‘‘ سے افسانہ شامل ہے وہی مجموعہ تصانیف کی ذیل میں شامل نہیں کیا گیا۔
۱۹۔پروین شاکرکے تعارف میں ان کی پیدائش مارچ۱۹۴۴ء،لکھنؤ درج ہے۔(ص ۱۵۶)جب کہ ان کی تاریخ پیدائش ۲۴ نومبر ۱۹۵۴ء کراچی ہے۔دراصل یہاں افتخار عارف کی پیدائش کو ہی پروین شاکر کے ذیل میں لکھ دیا گیا ہے۔
۲۰۔رئیس امروہوی کی تصانیف میں ایک کتاب ’’حکایت‘‘ شامل ہے جب کہ ان کی تصنیف کا نام ’’حکایتِ نے‘‘ ہے۔
۲۱۔ میر تقی میرؔ کا سالِ وفات ۱۷۱۰ء لکھا گیا ہے جب کہ ان کا سالِ وفات ۱۸۱۰ء ہے۔
۲۲۔ میر تقی میرؔ اور اور خواجہ حیدر علی آتشؔ کی غزلیات کی مشقوں میں ایک سوال رموزِ اوقاف کے حوالے سے ہے جس میں دو دو اشعار دیے گئے ہیں۔ یہاں یہ سوالات غیر ضروری اور غیر متعلقہ معلوم ہوتے ہیں کیوں کہ سوال میں دیے گئے اشعار نہ صرف غزل بلکہ نصاب میں بھی شامل نہیں ہیں۔ میرؔ کی غزل میں نظیر اکبر آبادی کی نظم ’’برسات کا تماشا‘‘ اور آتشؔ کی غزل میں فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’’تنہائی‘‘ کے اشعار دیے گئے ہیں۔یہاں اصولی طور پر غزل کے اشعار دیے جانے چاہیے تھے۔
حواشی
[۱] خواجہ حیدر علی آتشؔ، کلیاتِ آتشؔ،(کراچی: اردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۶۳ء)، ص ۵۵۰
[۲]منشی امیر احمد امیر ؔمینائی، صنم خانۂ عشق،(مرتبہ: ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی)، (کراچی: ادارۂ یادگارِ غالبؔ،۲۰۱۴ء) ص ۳۱۲
[۳] الطاف حسین حالی، چپ کی داد، (پانی پت: حالی بک ڈپو، ۱۹۳۷ء)، ص نمبر۳
[۴]اقبال عظیم،زبورِ حرم(نعتیہ کلیات)،(کراچی : حضرتِ حسان نعت کونسل پاکستان ٹرسٹ، ۱۹۹۹ء)، ص ۶۰۔۵۹
[۵]منشی پریم چند، مجموعۂ پریم چند(افسانے)، (لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۲ء)، ص ۶۴۵ تا ۶۵۴۔اس افسانے میں متعدد جملوں میں تبدیلی کی گئی ہے، کئی کئی جملے حذف کر دیے گئے ہیں۔
[۶]اقبال عظیم، زبورِ حرم، محولہ بالا، ص ۶۰
[۷]میر حسن، مثنوی سحرالبیان(مرتبہ: رشید حسن خان)، (نئی دہلی: مکتبۂ جامعہ نئی دہلی،۲۰۱۱ء)، ص ۳۸
[۸]ایضاً ص ۳۹
[۹]میر انیس،یارب چمنِ نظم کو گلزارِ ارم کر،مشمولہ : نقوش (انیس نمبر)،شمارہ نمبر۱۲۸،(لاہور: ادارۂ فروغِ اردو،۱۹۸۱ء)، ص ۱۵۷
[۱۰]خواجہ میر درد ؔ، دیوانِ درد،(مرتبہ: ڈاکٹر نسیم احمد)،(نئی دہلی : مکتبۂ جامعہ نئی دہلی)، ۲۰۰۳ء، ص ۱۱۷
[۱۱] ایضاً ص ۱۸۲
[۱۲] ایضاً ص ۱۸۲
[۱۳] خواجہ حیدر علی آتشؔ، کلیاتِ آتش ؔ،محولہ بالا، ص ۴۹
[۱۴]ایضاً ص ۴۹
[۱۵] بحوالہ: ویب گاہ:
www.rekhta.org/marsiya/kis-sher-kii-aamad-hai-kii-ran-kaanp-raha-hai-mirza-salaamat-ali-marsiy/?lang=ur
[۱۶] ملاحظہ ہو : خواجہ مہدی نظامی، حضرت خواجہ حسن نظامی ذاتی اور خاندانی حالات، (دہلی:اردو اکادمی، ۱۹۸۷ء) ص ۹۰
[۱۷]ملاحظہ ہو : دہلی کی آخری شمع، مرزا فرحت اللہ بیگ،حلقۂ مشائخ بکڈپو،دہلی،۱۹۲۸ء: مذکورہ تفصیلات خواجہ حسن نظامی نے اس کتاب کے دیباچے میں دی ہیں،ص ۳۔۲
[۱۸] ملاحظہ ہو : اردو میں درامہ نگاری، بادشاہ حسین ؛ اردو ڈرامے کی تاریخ و تنقید، عشرت رحمانی ؛ اردو کے اہم ڈرامہ نگار،ابراہیم یوسف،بحوالہ : آغا محمود شاہ،کچھ حشر کے متعلق، مشمولہ: نیرنگِ خیال،جنوری؍فروری(سالنامہ) لاہور، ۱۹۴۶ء، ص ۲۸،
[۱۹]مالک رام، ذکرِ غالب،(دہلی: مکتبۂ جامعہ، ۱۹۳۸ء)،ص ۸۱
[۲۰]ایضاًص ۹۸
[۲۱]ایضاً، ص ۷۶،
[۲۲]ملاحظہ ہو: تذکرہ خوش معرکۂ زیبا، سعادت خان ناصر، (مرتبہ: مشفق خواجہ)، لاہور: مجلسِ ترقی ادب،۱۹۷۲ء
[۲۳] ملاحظہ ہو: مشرقی بنگال میں اردو، سید اقبال عظیم،ڈھاکا: مشرق کو آپریٹوپبلی کیشنز،۱۹۵۴ء
(جاری ہے)