نماز جمعہ کے بعد چودھری قدرت اللہ مرحوم کی رہائش گاہ سے چند ہی قدم کے فاصلے پر واقع چھوٹی سی لیکن خوب صورت مسجد عائشہ صدیقہؓ میں درجنوں افراد موجود تھے۔ قران خوانی اور تسبیحات کا ورد جاری تھا، خاموش لیکن اداس چہرے یکسوئی سے اپنے کام میں مگن تھے، یہ سلسلہ ختم ہوا تو مائیک مولوی صاحب کو پیش کردیاگیا، دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے سے پہلے وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ میں چودھری صاحب سے اپنی رفاقت کے حوالے سے کچھ اظہار خیال کروں۔ سامعین میں چودھری صاحب مرحوم کے بیٹے عصمت اللہ، داماد عتیق الرحمن، نواسے حارث رحمن اور دوسرے اعزا موجود تھے۔ محلے داروں کی تعداد بھی کم نہیں تھی۔ رفیقان کار بھی حاضر تھے اور چودھری صاحب کے ’’شاگرد رشید‘‘ میجر جنرل غلام مصطفی کوثر بھی تشریف فرما تھے، جن کا تعلق ایک زمانے میں اس علاقے سے تھا۔ ہربنس پورہ لاہور کی ایک نواحی بستی سمجھا جاتا تھا، جہاں بارڈر پولیس کا صدر دفتر ہوا کرتا تھا۔ یہاں سے ریل گاڑی لاہور کے لئے صبح شام چلتی تھی اور ہربنس سنگھ نامی سکھ سردار کے نام پر آباد اس بستی کے لوگ لاہور آتے جاتے تھے۔ اب نہر کے ساتھ بننے والی کشادہ سڑکوں اور ’’شہبازی انڈر پاسوں‘‘ نے اسے لاہور کا وسطی علاقہ بنادیا ہے کہ شہر آگے پھیلتا جارہا ہے۔ ہربنس سنگھ یہاں کا بڑا زمیندار یا سردار تھا۔ مسلمان آرائیں مزارع کے طور پر کام کرتے اور اپنے پسینے سے کھیتیاں سینچتے تھے۔ پاکستان قائم ہوا تو زمینیں مہاجرین کو الاٹ ہوگئیں یا بااثر مقامی افراد کے تصرف میں آگئیں، آرائیوں کو آزادی نصیب نہ ہوسکی۔ یہ بے چارے مزارع کے مزارع رہے۔ چودھراہٹ کے بغیر چودھری۔ مالکانہ حقوق کے بغیر چھوٹے چھوٹے مکانات ان کے پاس تھے۔ انہی مزارعوں میں سے ایک چودھری رحمت اللہ کے گھر چاند سا بیٹا پیدا ہوا، تو اس نے اس کا نام قدرت اللہ رکھ دیا۔ قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصہ بعد انہیں عطا ہونے والا یہ بچہ گویا ان کے لئے پاکستان کا تحفہ تھا۔ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی کے سر سے باپ کا سایہ جلد ہی اٹھ گیا، والدہ محنت مشقت کرکے اپنے بچوں کی پرورش کرتی رہیں۔ قدرت اللہ بہت ذہین تھا، پڑھائی میں بھی اس کا دل خوب لگتا، وہ پڑھتے پڑھتے بڑا ہوگیا، اس دوران ٹیوشن پڑھا کر بھی اپنے لئے آسانیاں تلاش کرتا رہا، اس کے ایک شاگرد میجر جنرل ہمارے سامنے موجود تھے، جنہیں ریٹائر ہوئے عرصہ گزر چکا ہے۔ مائیک ہاتھ آیا تو چودھری صاحب بھی سامنے آن کھڑے ہوئے۔ ابھی تو ان کو رخصت ہوئے دو روز ہی گزرے تھے، وہ تو ان لوگوں میں سے تھے کہ سو سال گزر جائیں تو بھی انہیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ ان کی ہری بھری شخصیت کا تصور تازگی بخش دیتا ہے۔ انہیں جاننے والے ہر شخص نے انہیں درویش صحافت قرار دیا ہے۔ ان کی یاد میں لکھے گئے کالموں میں یہ قدر مشترک ہے۔ ان کی درویشی پر سب کا اتفاق ہے، سچ پوچھئے تو وہ درویش صحافت ہی نہیں ہمارے عہد کی صحافت کے اکلوتے درویش تھے۔ کوچہ صحافت کا کوئی شخص اگر اس اعزاز کا حقدار تھا تو وہ چودھری قدرت اللہ ہی تھے۔ ان کی زبان پر کبھی کلمہ شکایت نہ آتا۔ وہ کبھی کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرتے۔ بڑے بڑے اخباری اداروں میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہے۔ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ سے آغاز کرنے والے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں اپنا سکہ چلانے والے روزنامہ ’’دن‘‘ کے پردھان منتری بن جانے والے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر تھے لیکن ہمیشہ چادر دیکھ کر پائوں پسارے، بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ پائوں پسارے ہی نہیں، اپنی چادر میں بھی سمٹے سمٹائے ہی رہے۔ جس علاقے میں پیدا ہوئے تھے آخری سانس بھی اسی میں لیا۔ مکان تو بنالیا تھا، لیکن ضرورت کے مطابق، ان کی بستی میں کوڑیوں کے مول بکنے والی زمین کروڑوں تک جاپہنچی لیکن انہیں پیر پھیلانے کی فرصت تھی نہ ضرورت۔ ذاتی کار رکھنے پر بھی آمادہ نہ ہوئے۔ دفتر کی کار انہیں لینے جاتی، کبھی کسی وجہ سے تاخیر ہوجاتی تو پیدل ہی چل پڑتے۔ ان کے مداح اور جانثار کم نہیں تھے، رفقائے کار بھی ان پر جان چھڑکتے تھے، لیکن وہ عاجزی اور انکساری کی تصویر بنے رہتے۔ صاحب الرائے تھے، ان کی پسند ناپسند کسی سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو کیاگیا، ا س پر ان کا خون کھولتا رہا تھا۔ اس کا شدت سے اظہار بھی کرتے تھے، ان کے تجزیوں اور اداریوں میں گومگو کی کیفیت نہیں ہوتی تھی، اپنی بات کھل کر کہتے، اور اس پر ڈٹے بھی رہتے۔ ان کی رائے تبدیل کرنا آسان نہیں تھا۔ اپنی دھن میں مگن رہتے، یہاں تک کہ اپنے علاج کے معاملے میں بھی اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کی پیروی کرتے رہے، اس معالج ہی کی بات خاطر میں لاتے، جو ان کے من کو بھاتا۔ لالہ صحرائی مرحوم سے بہت دوستی تھی ان کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اور ڈاکٹر نوید مسلسل رابطے میں رہے۔ جاوید لاہور میں ہیں، اور امراض سینہ کے ماہر لیکن نوید ملتان میں آنکھوں کے اسپیشلٹ ہیں۔ دونوں ان کی صحت کے معاملے میں فکرمند رہتے، کورونا ویکسین لگوانے پر وہ آمادہ نہیں تھے، ہمارے جنرل منیجر چودھری فاروق نے اپنی سی کرکے دیکھ لی، لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے، ان کے نواسے حارث نے جوکہ ایم بی بی ایس کا طالب علم ہے، ان کو بصد مشکل راضی کیا۔ ایک ہی خوراک لگ پائی تھی کہ کورونا حملہ آور ہوگیا۔ ہفتوں اس سے لڑتے رہے، اسے شکست دے چکے تھے اور دفتر آنے کی تیاری کررہے تھے کہ دل ہاتھ سے نکل گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرح وہ بھی جانبر نہ ہوسکے، ڈاکٹر صاحب مرحوم بھی صحت یاب ہوکر گھرآچکے تھے کہ دل کی تکلیف جان لیوا ثابت ہوئی۔
پیشہ ورانہ صلاحیت کے اعتبار سے وہ اپنی مثال آپ تھے۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر دسترس تھا۔ پاکستانی تاریخ کے تو حافظ تھے۔ سیاست کی ایک ایک ادا سے واقف۔ گزشتہ واقعات ہاتھ باندھ کر ان کے سامنے کھڑے رہتے۔ تجزیہ نگاری میں کمال حاصل کیا، کالم نگاری بھی صف اول کے تھے، اداریہ نویس کے طور پر بھی اپنے کو منوایا۔ انہوں نے نیوز ڈیسک پر عمر گزاری تھی، دفتر ہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ ادارتی صفحے کے انچارج کے طور پر ایک ایک لفظ پڑھتے، غلطی حقائق کی ہو یا کمپوزنگ کی، ان کی نظر فوراً اسے جاپکڑتی تھی۔ ان کی نماز جنازہ میں ان کے رفیقان صحافت بڑی تعداد میں شامل ہوئے، لیکن اہل سیاست میں سے کوئی کم ہی دیکھنے میں آیا۔ برادرم انیق احمد کراچی سے آئے ہوئے تھے اکرم چودھری کے ساتھ وہ بھی بچشم نم انہیں الوداع کہنے پہنچ گئے۔ مسلم لیگ (ن) کا البتہ کوئی نمایاں شخص دیکھنے میں نہیں آیا، جس جماعت کے حق میں ان کا قلم تلوار بنارہا، اس کے رہنمائوں اور ترجمانوں کو شاید ان کے انتقال کی خبر ہی نہیں ہوئی تھی۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری بازی لے گئے اور ان کے غم میں شریک ہوئے۔ وہ پی آر کے اخبار نویس تھے ہی نہیں، صحافت برائے تعلقات ان کے من کو کبھی نہیں بھائی، صحافت کو انہوں نے عبادت سمجھ کر کیا، اعلیٰ صلاحیت انہیں بڑا افسر بناسکتی تھی۔ مقابلے کے امتحان میں بیٹھتے تو بلاشبہ کامیاب ہوتے، ان کے سوگواروں میں بیٹھے کرنل مقصود بار بار اس کا ذکر کرتے رہے، عالم شباب کے ساتھ انہیں یہ تجویز پیش کرتے رہتے تھے لیکن ان کا دل صحافت میں جااٹکا تھا۔ وہ اس کوچے سے باہر جھانکنے پر تیار نہیں تھے اس کوچے میں ایسے آئے کہ اسی کے ہورہے۔ ان کا دفتر ان کی خانقاہ تھی۔ یہاں آنے کا راستہ تو تھا، لیکن یہاں سے نکلنے کا راستہ انہوںنے بند کردیا تھا۔ صحافت کے اس اکلوتے درویش کو اہل صحافت کا سلام۔